بلوغ المرام
كتاب الطهارة
طہارت کے مسائل
8. باب الغسل وحكم الجنب
غسل اور جنبی کے حکم کا بیان
حدیث نمبر: 98
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يغتسل من أربع: من الجنابة، ويوم الجمعة، ومن الحجامة، ومن غسل الميت. رواه أبو داود وصححه ابن خزيمة.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار چیزوں کی وجہ سے غسل فرمایا کرتے تھے۔ جنابت، جمعہ کے روز، سینگی لگوانے کے بعد اور میت کو غسل دینے کی وجہ سے۔ ابوداؤد نے اسے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب في الغسل اللجمعة، حديث:348، وانظر، حديث:3160، وابن خزيمة:1 / 126، حديث:256، وضعفه أبوداود، والسند حسن، وللحديث شواهد.»
حكم دارالسلام: حسن
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 98 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 98
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں جن چار چیزوں سے غسل کرنے کا ذکر ہے ان میں سے غسل جنابت بالاتفاق فرض ہے۔
➋ جمعے کے روز غسل جمہور صحابہ و تابعین اور اکثر ائمہ کے نزدیک مسنون ہے، البتہ امام احمد اور امام مالک رحمہما اللہ کا ایک قول یہ ہے کہ فرض ہے۔ امام داود ظاہری اور ابن خزیمہ رحمہما اللہ کا بھی یہی موقف ہے، اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا بھی زاد المعاد میں اسی طرف رحجان ہے۔
➌ سینگی لگوانے سے غسل مسنون ہے، فرض نہیں۔ پیچھے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث گزر چکی ہے کہ آپ نے سینگی لگوائی اور وضو کیے بغیر نماز پڑھی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے سینگی لگوانے کے بعد کبھی غسل کیا اور کبھی وضو بھی نہیں کیا۔ رہا میت کو غسل دینے سے غسل تو اس کے بارے میں بھی بیان گزر چکا ہے کہ یہ مستحب ہے، فرض نہیں۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 98
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 348
´جمعہ کے دن غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار چیزوں کی وجہ سے غسل کرتے تھے: (ا) جنابت کی وجہ سے، (۲) جمعہ کے دن (۳) پچھنے لگانے سے، (۴) اور میت کو نہلانے سے۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 348]
348۔ اردو حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت کے بارے میں کہا ہے کہ «ليس بذاك» یعنی غیر معیاری ہے۔ امام احمد بن حنبل اور علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہم کہتے ہیں کہ غسل میت کے بارے میں کوئی حدیث صحیح نہیں۔ [منذري]
مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”التلخیص الحبیر“ میں کہا ہے کہ کثرت طرق کی بنا پر یہ ”درجہ حسن“ سے کم نہیں اور جمہور اس کے استحباب کے قائل ہیں۔ [الروضة النديه]
اور ظاہر ہے کہ غسل جنابت واجب ہے۔ جمعہ کا غسل واجب یا بہت زیادہ مؤکد ہے۔ سینگی اور میت کو غسل دینے سے غسل بطور نظافت مستحب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 348