بلوغ المرام
كتاب الطهارة
طہارت کے مسائل
8. باب الغسل وحكم الجنب
غسل اور جنبی کے حکم کا بیان
حدیث نمبر: 94
عن أبي سعيد الخدري رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «الماء من الماء» رواه مسلم، وأصله في البخاري.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پانی کا استعمال خروج پانی سے ہے۔“ (یعنی جب تک منی کا خروج نہ ہو اس وقت تک غسل واجب نہیں ہوتا۔) اسے مسلم نے روایت کیا ہے اور اصل روایت بخاری میں بھی ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، اليحض، باب إنما الماء من الماء، حديث:343 واللفظ له، والبخاري، الوضوء، باب من لم يرالوضوءإلا من المخرجين من القبل والدبر، حديث:180.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 94 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 94
� لغوی تشریح:
«اَلْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ» اس میں «مِنْ» تعلیل کا ہے۔ اور بعض روایات میں «إِنَّمَا الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ» کلمۂ حصر کے ساتھ ہے۔ پہلے «الماء» سے معروف پانی، یعنی نہانا اور دوسرے «الماء» سے منی مراد ہے۔ معنی یہ ہیں کہ پانی کے ساتھ غسل اس وقت واجب ہو گا جب انزال ہو اور منی خارج ہو جائے۔ کوئی آدمی جب اپنی بیوی کے ساتھ لیٹ جائے اور وہ عمل کرے جس سے منی کا خروج ہو تو غسل ضروری ہو گا۔ اگر اتنے عمل کے باوجود منی کا خروج نہ ہو تو غسل واجب نہیں ہوتا۔ اس میں جماع اور احتلام دونوں شامل ہیں۔ روایات میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ حکم جماع کے بارے میں وارد ہے۔ اس کا مقتضی یہ ہے کہ اگر ایک آدمی جماع تو کرتا ہے مگر انزال نہیں ہوتا تو اس پر غسل واجب نہیں۔ اس کے متعلق تحقیق یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں حکم اسی طرح تھا مگر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اور دیگر روایات سے یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ اب محض جماع سے غسل واجب ہو جاتا ہے، خواہ انزال ہوا ہو یا نہ ہو۔ اگرچہ احتلام کے بارے میں یہ حدیث وارد نہیں ہوئی مگر الفاظ چونکہ عام ہیں، اس لیے اس کو بھی یہ شامل ہے اور وہ یہ کہ احتلام میں جب تک انزال نہ ہو غسل واجب نہیں ہوتا اور اس کے خلاف بھی کچھ وارد نہیں ہوا بلکہ اس کی تائید موجود ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ جمہور علماء کے نزدیک یہ حدیث احتلام کے بارے میں ہے، جماع سے اس کا تعلق نہیں۔
➋ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام کے آغاز میں یہ حکم بھی تھا کہ جماع سے اس وقت غسل فرض ہوتا ہے جب انزال ہو لیکن کچھ مدت بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا۔
➌ قاضی ابن العربی نے کہا ہے کہ اس مسئلے میں تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ مرد و عورت کے اعضائے مخصوص ایک دوسرے سے مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے، خواہ انزال نہ ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 94
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 180
´اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے`
«. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَلَّنَا أَعْجَلْنَاكَ، فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أُعْجِلْتَ أَوْ قُحِطْتَ فَعَلَيْكَ الْوُضُوءُ " تَابَعَهُ وَهْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَلَمْ يَقُلْ غُنْدَرٌ، وَيَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ الْوُضُوءُ . . . .»
”. . . ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کو بلایا۔ وہ آئے تو ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید ہم نے تمہیں جلدی میں ڈال دیا۔ انہوں نے کہا، جی ہاں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی جلدی (کا کام) آ پڑے یا تمہیں انزال نہ ہو تو تم پر وضو ہے (غسل ضروری نہیں)۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ الْوُضُوءَ إِلاَّ مِنَ الْمَخْرَجَيْنِ، مِنَ الْقُبُلِ وَالدُّبُرِ:: 180]
تشریح:
یہ سب روایات ابتدائی عہد سے متعلق ہیں۔ اب صحبت کے بعد غسل فرض ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔
«قال النووي اعلم ان الامة مجتمعة الآن على وجوب الغسل بالجماع وان لم يكن معه انزال وكانت جماعة من الصحابة على انه لايجب الا بالانزال ثم رجع بعضهم وانعقد الاجماع بعد الاخرين انتهي. قلت لاشك فى ان مذهب الجمهور هوالحق والصواب.» [تحفة الاحوذي،ج1، ص: 110-111]
یعنی اب امت کا اجماع ہے کہ جماع کرنے سے غسل واجب ہوتا ہے منی نکلے یا نہ نکلے۔ (حضرت مولانا وشیخنا علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں) کہ میں کہتا ہوں یہی حق و صواب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 180
الشيخ زبير علي زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ابي داود: 5079
3: صبح اور شام کی (فرض) نمازوں کے بعد درج ذیل دعا سات مرتبہ پڑھیں:
«اَللّٰهُمَّ اَجِرْنِيْ مِنَ النَّارِ»
اے میرے اللہ! مجھے آگ سے اپنی پناہ میں رکھ۔ [ابوداود: 5079 و سنده حسن وصححه ابن حبان، الموارد: 2346]
تنبیہ:
اس حدیث کے راوی حارث بن مسلم کو ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے،
اور بعض علماء نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ہے۔
ایسے راوی کی حدیث حسن کے درجے سے نہیں گرتی۔ نیز دیکھئے: [التلخيص الحبير ج1 ص 47 ح 70 جدة رباح]
حافظ ابن حجر نے اس روایت کو ”حسن“ کہا ہے۔ [نتائج الافكار ج 2 ص 326 مجلس: 191]
منذری نے اس کے حسن ہونے کی طرف اشارہ کیا۔ [الترغيب و الترهيب 303/1، 304]
اور ہیثمی نے حارث بن مسلم کو ثقہ قرار دیا۔ [مجمع الزوائد 99/8]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 49
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 180
´شرمگاہوں کے ملنے سے ہی غسل واجب ہو جاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ`
«. . . حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ ذَكْوَانَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَلَّنَا أَعْجَلْنَاكَ، فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أُعْجِلْتَ أَوْ قُحِطْتَ فَعَلَيْكَ الْوُضُوءُ " تَابَعَهُ وَهْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَلَمْ يَقُلْ غُنْدَرٌ، وَيَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ الْوُضُوءُ . . . .»
”. . . وہ ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کو بلایا۔ وہ آئے تو ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید ہم نے تمہیں جلدی میں ڈال دیا۔ انہوں نے کہا، جی ہاں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی جلدی (کا کام) آ پڑے یا تمہیں انزال نہ ہو تو تم پر وضو ہے (غسل ضروری نہیں) . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ الْوُضُوءَ إِلاَّ مِنَ الْمَخْرَجَيْنِ، مِنَ الْقُبُلِ وَالدُّبُرِ:: 180]
تخريج الحديث:
[196۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 34 باب من لم ير الوضوء 180، مسلم 345، بيهقي 165/1]
لغوی توضیح:
«قُحِطْتَ» یعنی تمہیں انزال نہیں ہوا۔
«فَعَلَيْكَ الْوُضُوْء» تو پھر تم پر وضو ہے۔ یعنی اگر کوئی ہم بستری کرے اور انزال یعنی منی کا خروج نہ ہو تو پھر غسل نہیں بلکہ صرف وضو کافی ہے۔ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا، بعد میں یہ منسوخ ہو گیا اور اب ہمیشہ کے لیے یہ حکم ہے کہ مجرد شرمگاہوں کے ملنے سے ہی غسل واجب ہو جاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ۔ جیسا کہ آئندہ باب بھی اسی کے بیان میں ہے اور ایک صحیح حدیث میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بھی یہ وضاحت فرمائی ہے۔ [صحيح: صحيح ابن ماجة 493، أبوداود 215، ترمذي 110، ابن ماجة 609]
امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر امت کا اتفاق نقل فرمایا ہے۔ نیز سعودی مجلس افتاء کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ [شرح المهذب للنووي 36/4، فتاويٰ اللجنة الدائمة 293/5]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 196
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:180
180. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ایک انصاری آدمی کو بلایا، وہ اس حالت میں حاضر ہوا کہ اس کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”شاید ہم نے تجھے جلدی میں ڈال دیا ہے۔“ اس نے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تجھے جلدی میں مبتلا کر دیا جائے یا انزال کو روک دیا جائے تو تجھ پر صرف وضو کر لینا ضروری ہے۔“ نضر کی وہب نے متابعت کی اور کہا کہ یہ حدیث ہم سے شعبہ نے بیان کی، نیز غندر اور یحییٰ نے شعبہ سے ”وضو“ نقل نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:180]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس باب کے دو جز ہیں:
(الف)
۔
بول وبراز کے راستے سے نکلنے والی ہر چیز ناقض وضو ہے۔
(ب)
۔
بول وبراز کے راستے کے علاوہ نکلنے والی کوئی چیز بھی ناقض وضو نہیں۔
اس حدیث کی عنوان کے پہلے حصے سے مطابقت ہے، کیونکہ جماع کے دوران میں انزال نہ ہونے کی صورت میں مذی کا قطرہ تو خارج ہو ہی جاتا ہے اس لیے وضو ضروری ہے۔
اس سے غسل واجب ہوتا ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق کتاب الغسل میں بحث ہوگی۔
وہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کے متعلق بھی گفتگو کی جائے گی، البتہ اس مقام پر یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ حدیث بالا منسوخ ہے۔
2۔
اگر اس حدیث کو منسوخ تسلیم کیا جائے تو وضو کے متعلق استدلال کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ انزال نہ ہونے سے غسل کا واجب نہ ہونا منسوخ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل کے متعلق حکم دینا اس کا ناسخ ہے، البتہ وضو کا حکم تو منسوخ نہیں ہوا بلکہ وضو کی مشروعیت تو غسل کی صورت میں بھی باقی رہتی ہے اور وضو کی وجہ سے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ اس سے مذی کا خروج تو ہو ہی جاتا ہے، نیز عورت سے ملامست بھی وضو کا باعث ہو سکتا ہے اور حدیث کی عنوان سے مناسبت بھی اسی سے ظاہر ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 371/1)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا عورت کی ملامست سے وضو ضروری قرار دینا محل نظر ہے، نیز یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کے بھی خلاف ہے۔
3۔
روایت میں جس انصاری کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث: 343)
میں اس کی وضاحت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ وہ دیر سے آیا ہے اور اس کے سر سے پانی بھی ٹپک رہا ہے تو آپ نے اندازہ لگایا کہ شاید وہ اپنی بیوی کے ساتھ مصروف تھا اور ہم نے اسے جلدی میں ڈال دیا۔
اس واقعے سے یہ استدلال کہ آپ غیب جانتے تھے، نری جہالت ہے، چنانچہ ایک شارح بخاری نے لکھا ہے:
”اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم امور خفیہ پر مطلع ہیں۔
“ چنانچہ اس حدیث میں مجامعت خود امور خفیہ سے ہے، پھر انزال ہونا یا نہ ہونا بھی مخفی امرہے۔
“ (تفهیم البخاري: 437/1)
4۔
آخر میں ایک متابعت کا حوالہ ہے کہ شعبہ سے روایت کرنے میں نضر بن شمیل کی وہب بن جریر نے متابعت کی ہے جسے ابوالعباس السراج نے اپنی مسند میں موصولاً بیان کیا ہے، نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ غندر اور یحییٰ بن سعید القطان نے بھی شعبہ سے اس روایت کو بیان کیا ہے، لیکن انھوں نے لفظ وضو کا ذکر نہیں کیا۔
یحییٰ بن سعید کے متعلق تو یہ بات صحیح ہے کہ انھوں نے وضو کا لفظ ذکر نہیں کیا جیسا کہ (مسند احمد: 26/3)
میں اس کی صراحت ہے، لیکن غندر نے لفظ وضو ذکر کیا ہے۔
اس نے بایں الفاظ بیان کیا ہے:
”تجھ پر غسل نہیں بلکہ صرف وضو واجب ہے۔
“ جیساکہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی روایت کو ذکر کیا ہے۔
(صحیح المسلم، الحیض، حدیث: 345)
5۔
حدیث میں لفظ ”اَو“ تنویع کے لیے ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ تقسیم فرمائی ہے کہ عدم انزال اس شخص کی ذات کے باعث ہو یا کسی خارجی امر کے سبب، دونوں صورتوں میں حکم ایک ہی ہے کہ اس کے ذمے صرف وضو کرنا ہے۔
غسل کرنا ضروری نہیں۔
(شرح الکرماني: 20/2)
لیکن یہ حکم اب منسوخ ہوچکا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”جب آدمی بیوی کے ساتھ جماع کرنے کی کوشش کرے اور مرد و زن کے ختان آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہے، انزال ہو یا نہ ہو۔
“ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 291)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 180