بلوغ المرام
كتاب الطهارة
طہارت کے مسائل
6. باب نواقض الوضوء
وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان
حدیث نمبر: 75
وعن معاوية رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «العين وكاء السه، فإذا نامت العينان استطلق الوكاء» . رواه أحمد والطبراني، وزاد: «ومن نام فليتوضأ» وهذه الزيادة في هذا الحديث عند أبي داود من حديث علي دون قوله: «استطلق الوكاء» وفي كلا الإسنادين ضعف. ولأبي داود أيضا عن ابن عباس رضي الله عنهما مرفوعا: «إنما الوضوء على من نام مضطجعا» . وفي إسناده ضعف أيضا.
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”آنکھوں کا کھلا رہنا ریح خارج ہونے کا بندھن ہے۔ جب آنکھ سونے کی وجہ سے بند ہو جاتی ہے تو بندھن ڈھیلا ہو جاتا ہے۔ (کھل جاتا ہے) (مسند احمد، طبرانی)
طبرانی نے اتنا اضافہ بھی اپنی روایت میں بیان کیا ہے کہ ”جس شخص کو نیند آ جائے وہ ازسرنو وضو کرے۔“ اتنا اضافہ ابوداؤد کی اس روایت میں بھی ہے جسے انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت کیا ہے۔ البتہ اس روایت میں «استطلق الوكاء» ”یعنی بندھن کھل جاتا ہے“ والی عبارت نہیں ہے۔ باعتبار سند، دونوں احادیث ضعیف ہیں اور ابوداؤد میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے یہ مرفوع روایت بھی مروی ہے“ وضو تو اس شخص پر ہے جو لیٹ کر سو جائے۔“ سند کے اعتبار سے یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد: 4 / 97، والطبراني في الكبير:19 /372، 373، حديث:875 وفيه أبوبكر ابن أبي مريم وهو ضعيف لاختلاطه، وللحديث شواهد معنوية عند أبي داود، الطهارة، حديث: 203 وغيره* حديث ابن عباس أخرجه أبوداود، حديث:202، وسنده ضعيف أبو خالد الدالاني وقتادة مدلسان وعنعنا وقال أبوداود:"منكر"»
حكم دارالسلام: ضعيف
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 75 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 75
� لغوی تشریح:
«وِكَآءُ السَّهِ اَلْوِكَآءُ» کے ”واؤ“ کے نیچے کسرہ اور ”الف“ پر مد ہے۔ اس دھاگے یا رسی کو کہتے ہیں جس سے مشکیزے وغیرہ کا منہ باندھا جاتا ہے۔
«اَلسَّهِ» ”سین“ پر فتحہ اور ”ہا“ مخفف ہے۔ دبر کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
«اِسْتَطْلَقَ» کھل جانا، ڈھیلا ہونا۔
«مُضْطَجعًا» پہلو کے بل لیٹنا۔
فوائد و مسائل:
➊ حدیث مذکور سے معلوم ہوتا ہے کہ نیند فی نفسہ ناقض وضو نہیں بلکہ اس سے وضو کے ٹوٹ جانے کا گمان اور ظن پیدا ہو جاتا ہے۔ مگر دونوں روایتوں کی سندوں میں ضعف ہے کیونکہ ان میں ایک ”بقیہ“ نامی راوی ہے جس کے بارے میں بہت سے محدثین نے کہا ہے کہ اس کی احادیث صاف (صحیح) نہیں ہیں۔ مگر یہ ضعف خفیف سا ہے، تاہم منذری، نووی اور ابن الصلاح نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
➋ حدیث میں ہے کہ لیٹ کر سونے کی حالت میں وضو ٹوٹ جاتا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مطلق نیند سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ دونوں احادیث میں تطبیق اس طرح ہے کہ پہلو کے بل گہری نیند آتی ہے۔ ایسی حالت میں اعضائے جسم ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ اس صورت میں ریح خارج ہونے کا گمان غالب ہوتا ہے جبکہ ہلکی نیند میں ایسا نہیں ہوتا۔
➌ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سیدھا یا چت لیٹ کر گہری نیند کی صورت میں بھی وضو نہیں ٹوٹتا۔ گہری نیند جس صورت میں بھی ہو وہ ناقض وضو ہو گی۔ پہلو کے بل عموماً نیند گہری ہوتی ہے، اس لیے اس کا خاص ذکر کر دیا۔
راویٔ حدیث:
(حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ) معاویہ سے مراد حضرت معاویہ بن ابی سفیان بن حرب رضی اللہ عنہما ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر باپ بیٹے دونوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کے بھائی یزید بن ابی سفیان کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو شام کا والی مقرر فرما دیا۔ یہ اس ولایت پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک رہے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے خلافت سے دستبرداری کے اعلان کے بعد ان کی بیعت کی گئی اور بالاتفاق وہ امیر مقرر ہوئے۔ یہ 40 ہجری کا واقعہ ہے۔ 60 ہجری ماہ رجب میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر 78 برس تھی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 75
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 202
´وضو اسی پر ہے جو لیٹ کر سوئے`
«. . . قَالَ أَبُو دَاوُد: قَوْلُهُ الْوُضُوءُ عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا هُوَ حَدِيثٌ مُنْكَرٌ . . .»
”. . . ابوداؤد کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ ٹکڑا: ”وضو اس شخص پر لازم ہے جو چت لیٹ کر سوئے“ منکر ہے . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 202]
فوائد و مسائل:
➊ خلاصہ یہ ہے کہ حدیث ”وضو اسی پر ہے جو لیٹ کر سوئے۔“ سنداً ضعیف ہے، مگر معنیً و حکماً صحیح ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی کہ نیند میں آپ کا دل بیدار رہتا تھا، لہٰذا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو ٹوٹتا تو آپ کو علم ہو جاتا۔
➌ قتادہ نے جناب ابوالعالیہ سے جو چار حدیثیں سنی ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(اول) کسی بندے کو لائق نہیں کہ کہے کہ میں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت یونس بن متی سے افضل ہوں۔ [سنن ابي داود‘حديث: 4669]
(دوم) حدیث ابن عمر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جائے اور ایسے ہی عصر کے بعد حتیٰ کہ سورج غروب ہو جائے۔ [صحيح بخاري‘حديث: 585]
(سوم) قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں، ایک جنت میں اور دو جہنم میں جائیں گے۔ جنتی وہ ہے جس نے حق کو جانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ دوسرا وہ ہے جس نے حق کو جانا مگر فیصلے میں ظلم کیا۔ یہ جہنمی ہے اور تیسرا وہ جو بربنائے جہالت فیصلے کرتا ہے، یہ بھی جہنمی ہے۔ [سنن ابي داود‘ حديث: 3573]
(چہارم) حدیث ابن عباس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد نماز سے منع فرمایا ہے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جائے اور عصر کے بعد بھی حتیٰ کہ سور ج غروب ہو جائے۔ [صحيح بخاري حديث: 581]
ان چاروں حدیثوں میں اس باب کی مذکورہ حدیث نہیں ہے، لہٰذا اس کا سماع محل نظر ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 202
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 77
´نیند سے وضو کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ سجدے کی حالت میں سو گئے یہاں تک کہ آپ خرانٹے لینے لگے، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ تو سو گئے تھے؟ آپ نے فرمایا: ”وضو صرف اس پر واجب ہوتا ہے جو چت لیٹ کر سوئے اس لیے کہ جب آدمی لیٹ جاتا ہے تو اس کے جوڑ ڈھیلے ہو جاتے ہیں“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 77]
اردو حاشہ:
1؎:
چت لیٹنے کی صورت میں ہوا کے خارج ہونے کا شک بڑھ جاتا ہے جب کہ ہلکی نیند میں ایسا نہیں ہوتا،
یہ حدیث ا گرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے،
مگر اس کے ”لیٹ کر سونے سے وضو ٹوٹ جانے والے“ ٹکڑے کی تائید دیگر روایات سے ہوتی ہے۔
نوٹ:
(ابو خالد یزید بن عبدالرحمن دارمی دالانی مدلس ہیں،
انہیں بہت زیادہ وہم ہو جایا کرتا تھا،
شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے یہ حدیث ابو العالیہ سے نہیں سنی ہے یعنی اس میں انقطاع بھی ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 77