صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
30. بَابُ غَزْوَةُ الْخَنْدَقِ وَهْيَ الأَحْزَابُ:
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
حدیث نمبر: 4102
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ , حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ , أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ , أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ , قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ: لَمَّا حُفِرَ الْخَنْدَقُ رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا , فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِي فَقُلْتُ: هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ؟ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا , فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جِرَابًا فِيهِ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ وَلَنَا بُهَيْمَةٌ دَاجِنٌ فَذَبَحْتُهَا وَطَحَنَتِ الشَّعِيرَ , فَفَرَغَتْ إِلَى فَرَاغِي وَقَطَّعْتُهَا فِي بُرْمَتِهَا ثُمَّ وَلَّيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: لَا تَفْضَحْنِي بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَنْ مَعَهُ , فَجِئْتُهُ فَسَارَرْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَطَحَنَّا صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ كَانَ عِنْدَنَا فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ مَعَكَ , فَصَاحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُورًا فَحَيَّ هَلًا بِهَلّكُمْ" , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَكُمْ وَلَا تَخْبِزُنَّ عَجِينَكُمْ حَتَّى أَجِيءَ" , فَجِئْتُ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْدُمُ النَّاسَ حَتَّى جِئْتُ امْرَأَتِي , فَقَالَتْ: بِكَ وَبِكَ , فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي قُلْتِ , فَأَخْرَجَتْ لَهُ عَجِينًا فَبَصَقَ فِيهِ وَبَارَكَ , ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرْمَتِنَا فَبَصَقَ وَبَارَكَ , ثُمَّ قَالَ:" ادْعُ خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعِي وَاقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِكُمْ وَلَا تُنْزِلُوهَا وَهُمْ أَلْفٌ , فَأُقْسِمُ بِاللَّهِ لَقَدْ أَكَلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَانْحَرَفُوا وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِطُّ كَمَا هِيَ وَإِنَّ عَجِينَنَا لَيُخْبَزُ كَمَا هُوَ.
مجھ سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم کو حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی، کہا ہم کو سعید بن میناء نے خبر دی، کہا میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب خندق کھودی جا رہی تھی تو میں نے معلوم کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی بھوک میں مبتلا ہیں۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ میرا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی بھوکے ہیں۔ میری بیوی ایک تھیلا نکال کر لائیں جس میں ایک صاع جَو تھے۔ گھر میں ہمارا ایک بکری کا بچہ بھی بندھا ہوا تھا۔ میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو کو چکی میں پیسا۔ جب میں ذبح سے فارغ ہوا تو وہ بھی جَو پیس چکی تھیں۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں کر کے ہانڈی میں رکھ دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرنا۔ چنانچہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے کان میں یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے ایک چھوٹا سا بچہ ذبح کر لیا ہے اور ایک صاع جَو پیس لیے ہیں جو ہمارے پاس تھے۔ اس لیے آپ دو ایک صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بلند آواز سے فرمایا کہ اے اہل خندق! جابر (رضی اللہ عنہ) نے تمہارے لیے کھانا تیار کروایا ہے۔ بس اب سارا کام چھوڑ دو اور جلدی چلے چلو۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک میں آ نہ جاؤں ہانڈی چولھے پر سے نہ اتارنا اور تب آٹے کی روٹی پکانی شروع کرنا۔ میں اپنے گھر آیا۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آیا تو وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نے کہا کہ تم نے جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کر دیا تھا۔ آخر میری بیوی نے گندھا ہوا آٹا نکالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کر دی اور برکت کی دعا کی۔ ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب روٹی پکانے والی کو بلاؤ۔ وہ میرے سامنے روٹی پکائے اور گوشت ہانڈی سے نکالے لیکن چولھے سے ہانڈی نہ اتارنا۔ صحابہ کی تعداد ہزار کے قریب تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ اتنے ہی کھانے کو سب نے (شکم سیر ہو کر) کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ جب تمام لوگ واپس ہو گئے تو ہماری ہانڈی اسی طرح ابل رہی تھی جس طرح شروع میں تھی اور آٹے کی روٹیاں برابر پکائی جا رہی تھیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4102 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4102
حدیث حاشیہ:
1۔
غزوہ خندق کے موقع پر کھانا زیادہ ہونے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
حضرت ابو طلحہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی ام سلیم ؓ سے کہا، آج میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز کو کمزور پا یا ہے۔
میرا خیال ہے کہ آپ کو بھوک نے نڈھال کر رکھا ہے۔
کیا تمھارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ انھوں نے کہا:
”ہاں“ چنانچہ انھوں نے جوکی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹا لیا اور اس کے ایک حصے میں انھیں لپیٹ دیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔
حضرت انس ؓ کہنے ہیں کہ میں وہ روٹیاں لے کر جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھ کر فرمایا:
کیا تمھیں ابوطلحہ ؓ نے کھانا دے کر بھیجا ہے؟ میں نے عرض کی جی ہاں! رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
”اٹھو اور ابو طلحہ ؓ کے پاس چلو۔
“ چنانچہ رسول اللہ ﷺ حضرت طلحہ ؓ کے پاس آئے اور حضرت ام سلیم ؓ سے فرمایا:
”ام سلیم ؓ! جو کچھ تمھارے پاس ہے اسے لے آؤ۔
“ حضرت ام سلیم ؓ روٹیاں لے کر آئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ان کے ٹکڑے بنا دیے جائیں۔
“ حضرت ام سلیم ؓ نے ان پر گھی نچوڑ دیا۔
پھر آپ نے اس کھانے پر کچھ پڑھا اور فرمایا:
”دس آدمیوں کو بلاؤ۔
“ چنانچہ وہ کھا کر باہر چلے گئے تو مزید دس آدمیوں کو بلایا۔
اس طرح سب آدمیوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا جبکہ وہ اسی (80)
کے قریب تھے۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3578)
ایک روایت میں ہے کہ آخرمیں رسول اللہ ﷺ اور اہل خانہ نے کھانا کھایا۔
اس کے بعد جو کھانا بچ گیا تھا اسے ہمسایوں میں تقسیم کردیا۔
(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5321۔
(2040)
ایک روایت کے مطابق جو کھانا بچ گیا تھا رسول اللہ ﷺ نے اسے جمع کیا اور اس پر برکت کی دعا فرمائی تو وہ اتنا ہی ہوگیا جس قدر پہلے تھا (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5321۔
(2040)
2۔
ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ حضرت جابر ؓ کے گھر تشریف لائے واپس جانے لگے تو حضرت جابر ؓ کے منع کرنے کے باوجود ان کی بیوی نے آپ سے گزارش کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میرے لیے اور میرے خاوند کے لیے دعا فرما دیں۔
آپ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اور کے خاوند پر خیرو برکت نازل فرمائے۔
حضرت جابر ؓ نے اظہار ناراضی فرمایا تو بیوی نے کہا:
یہ کیونکر ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائیں اور ہم آپ کی دعاؤں سے محروم رہیں۔
(مسند أحمد: 398/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4102