بلوغ المرام
كتاب الطهارة
طہارت کے مسائل
4. باب الوضوء
وضو کا بیان
حدیث نمبر: 29
عن أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال:«لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك مع كل وضوء» . أخرجه مالك وأحمد والنسائي، وصححه ابن خزيمة، وذكره البخاري تعليقا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”اگر مجھے اپنی امت کو مشقت و تکلیف میں مبتلا کرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔“
اسے مالک، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور بخاری نے اس کو تعلیقاً نقل کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مالك في الموطأ، الطهارة، باب ما جاء في السواك:1 / 66، موقوفًا، وأحمد:2 /517،460، والنسائي في الكبرٰي:2 / 198، حديث:3043، وابن خزيمة: 1 / 73، حديث:140، مرفوعًا، والبخاري، تعليقًا، الصوم، باب سواك الرطب واليابس للصائم، قبل حديث:1934، وللحديث شاهد صحيح عند أحمد:2 /250، حديث:7406.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 29 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 29
� لغوی تشریح:
«بَابُ الْوُضُوءِ» ”واؤ“ کے ضمہ کے ساتھ۔ مصدر ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی ہیں: ہاتھوں اور پاؤں وغیرہ کے اطراف کو مطلق طور پر دھونا۔ اور شرعاً معنی ہیں: وضو کا عمل، جو مشہور و معروف ہے۔ اگر وضو کو ”واؤ“ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی برتن میں موجود پانی کے ہیں جس سے وضو کیا جاتا ہے۔
«لَوْ لَا أَنْ أَشُقَّ» کا مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے یہ خوف لاحق نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو تکلیف اور مشقت میں مبتلا کر دوں گا۔
«لَأَمَرْتُهُمْ» تو میں ضرور ان کو حکم دیتا، یعنی میں واجب قرار دے دیتا۔ اور رفع مشقت کی غرض سے حکم صادر فرمانے سے رک جانا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسواک کرنے کو مستحب بلکہ اس سے بھی زیادہ مؤکد سمجھا جائے۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب بھی وضو کیا جائے اس کے ساتھ مسواک کرنا مستحب ہے۔ صحیح مسلم اور ابوداود میں مروی ہے کہ مسواک کرنا منہ کو صاف اور اپنے پروردگار کو راضی کرنے کا موجب ہے۔ [صحيح مسلم، الطهارة، باب السواك، حديث: 252، وسنن أبى داود، الطهارة، حديث: 4746]
➋ مسواک تمام انبیاء و رسل کی سنت ہے۔
➌ مسند احمد، ابن خزیمہ، حاکم اور دارقطنی وغیرہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جو نماز مسواک کر کے پڑھی گئی ہو اس کا ثواب بغیر مسواک کیے پڑھی جانے والی نماز سے ستر گنا زیادہ ہے۔ گو یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم اس کا ضعف دیگر شواہد کی وجہ سے ختم ہو جاتا ہے، چنانچہ اسی بنا پر اسے صحیح قرار دیا گیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: [تخريج صلاة الرسول، حافظ عبدالرؤف]
➍ اگر پہلے سے باوضو ہو تو نماز کی ادائیگی سے پہلے مسواک کر لینی چاہئے تاکہ مذکورہ فضیلت حاصل ہو اور اتباع سنت کا تقاضا پورا ہو سکے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 29