بلوغ المرام
كتاب الطهارة
طہارت کے مسائل
1. باب المياه
پانی کی اقسام (مختلف ذرائع سے حاصل شدہ پانی کا بیان)
حدیث نمبر: 6
وعن رجل صحب النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أن تغتسل المرأة بفضل الرجل أو الرجل بفضل المرأة وليغترفا جميعا. أخرجه أبو داود والنسائي وإسناده صحيح.
ایک ایسے آدمی سے روایت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ”عورت، مرد کے بچے ہوئے غسل کے پانی سے غسل کرے یا مرد عورت کے باقی ماندہ غسل کے پانی سے غسل کرے۔ ہاں دونوں اکھٹے چلو سے لے لیں (تو کوئی مضائقہ اور حرج نہیں)۔“ (ابوداؤد و نسائی) اور اس کی سند صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب النهي عن ذلك، حديث: 81، والنسائي، الطهارة، حديث:239.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 6 کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 6
«ومستعمل وغير مستعمل»
”مستعمل اور غیر مستعمل (پانی میں کوئی فرق نہیں)۔“
مستعمل (استعمال شدہ) پانی طاہر (پاک) ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
❀ حضرت عروہ اور حضرت مسور رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
«وَإِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قریب ہوتے کہ کہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے (بچے ہوئے) پانی کو لینے میں جھگڑا نہ شروع کر دیں۔ [بخاري/ كتاب الوضوء /باب استعمال فضل وضوء الناس/ ح: 189، أحمد 329/4 - 330]
❀ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا پانی لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کیا تو لوگوں کی یہ حالت تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے بچے پانی کو حاصل کر کے اسے (اپنے جسموں پر) لگاتے تھے۔ [بخاري/ كتاب الوضوء /باب استعمال فضل وضوء الناس/ ح: 187]
❀ جب جابر رضی اللہ عنہ مریض تھے تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے وضوء کا پانی ان پر بہایا۔ [صحيح البخاري/كتاب المرضى/ بَابُ وُضُوءِ الْعَائِدِ لِلْمَرِيضِ:/ ح: 5676]
مستعمل پانی مطہر (یعنی پاک کرنے والا) بھی ہے۔ اگرچہ اس مسئلے کے اثبات کے لیے علماء کی طرف سے پیش کیے جانے والے مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کرنا تو محل نظر ہے لیکن یہ مسئلہ صحیح ثابت ہے۔
❀ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
«أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مِنْ فَضْلِ مَاءٍ كَانَ فِي يَدِهِ»
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح اسی زائد پانی سے کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں موجود تھا۔“ [سنن ابي داود ح: 130] ۱؎
❀ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے ایک ٹب میں غسل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ٹب سے وضو یا غسل کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بلاشبہ میں جنبی تھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ الْمَاءَ لَا يُجْنِبُ» ”بے شک پانی ناپاک نہیں ہوتا۔“ [أبو داود 68] ۲؎
واضح رہے کہ مستعمل پانی سے مراد فقہاء کے نزدیک ایسا پانی ہے جسے جنابت رفع کرنے کے لیے، یا رفع حدث (یعنی وضو یا غسل)کے لیے، یا ازالہ نجاست کے لیے، یا تقرب کی نیت سے اجر و ثواب کے کاموں (مثلاًً وضو پر وضو کرنا یا نماز جنازہ کے لیے، مسجد میں داخلے کے لیے، قرآن پکڑنے کے لیے وضو کرنا وغیرہ) میں استعمال کیا گیا ہو۔ [فتح القدير 58/1] ۳؎
مستعمل پانی کے حکم میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(ابوحنفیہ رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ) کسی حال میں بھی ایسے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنا جائز نہیں۔ امام لیث رحمہ اللہ، امام اوزاعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور ایک روایت کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی مذہب منقول ہے۔
(مالکیہ) مستعمل پانی کی موجودگی میں تیمم جائز نہیں۔
(ابویوسف رحمہ اللہ) مستعمل پانی نجس ہے (یاد رہے کہ یہ اپنے قول میں منفرد ہیں)۔
(اہل ظاھر) مستعمل پانی اور مطلق پانی میں کوئی فرق نہیں (یعنی جیسے مطلق پانی طاہر و مطہر ہے اسی طرح مستعمل پانی بھی طاہر و مطہر ہے) امام حسن، امام عطاء، امام نخعی، امام زہری، امام مکحول، اور امام احمد رحمہم اللہ اجمعین سے ایک روایت میں یہی مذہب مروی ہے۔ [بدائع الصنائع 66/1] ۴؎
(راجح) مستعمل پانی طاہر ومطہر ہے جیسا کہ ابتدا میں دلائل ذکر کر دیے گئے ہیں۔
(شوکانی رحمہ اللہ) مستعمل پانی سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔ [نيل الأوطار 85/1]
(ابن رشد رحمہ اللہ) مستعمل پانی حکم میں مطلق پانی کی طرح ہی ہے۔ [بداية المجتهد 55/1]
(صدیق حسن خان رحمہ اللہ) حق بات یہی ہے کہ مجرد استعال کی وجہ سے پانی پاک کرنے والی صفت سے خارج نہیں ہوتا۔ [الروضة الندية 68/1]
(ابن حزم رحمہ اللہ) استعمال شدہ پانی کے ساتھ غسل جنابت اور وضو جائز ہے قطع نظر اس سے کہ دوسرا پانی موجود ہو یا نہ ہو۔ [المحلى بالآثار 182/1]
استعمال شدہ پانی کو مطہرنہ کہنے والوں کے دلائل اور ان پر حرف تنقید
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن اگر وہ دونوں اکٹھے چلو بھریں تو اس میں کوئی مضائقہ ہیں۔ [سنن ابن ماجه/ ح: 374] ۵؎
اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ جواز کی احادیث کے قرینہ کی وجہ سے اس حدیث کی ممانعت کو نہی تنز یہی پر محمول کیا جائے گا۔ [سبل السلام 26/1]
جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے پانی سے غسل کر لیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم/ 323] ۶؎
❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب اور غسل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري/ ح 239]
ان کے نزدیک (مذکورہ حدیث میں) ممانعت کا سبب یہ ہے کہ کہیں پانی مستعمل ہو کر غیر مطہر نہ ہو جائے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت موجو نہیں بلکہ منع کا سبب زیادہ سے زیادہ صرف یہی ہے کہ کہیں پانی خراب نہ ہو جائے اور اس کا نفع جاتا رہے اس بات کی تائید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول سے ہوتی ہے کو ”وہ شخص اسے (یعنی پانی کو) باہر نکال کر استعمال کر لے۔“ [نيل الأوطار 58/1] ۷؎
امام ابن حزم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ ہم نے احناف کے جو اقوال نقل کیے ہیں ان میں سے عجیب ترین قول یہ ہے کہ ایک صاف ستھرے طاہر مسلمان کے وضو کا مستعمل پانی مردہ چوہے سے زیادہ نجس ہے۔ [المحلى بالآثار 150/1]
------------------
۱؎ [حسن: صحيح أبو داود 120، كتاب الطهارة: باب صفة وضوء النبى، أبو داود 130، تر مذي 33]
۲؎ [صحيح: صحيح أبو داود 16، كتاب الطهارة: باب الماء لا يجنب أبو داود 68، ابن ماجة 364، عارضة الأحوذي 82/1]
۳؎ [كشاف القناع 31/1-37، المغني 10/1، ہداية المجتهد 26/1، بدائع الصنائع 69/1، الدر المختار 182/1، فتح القدير 58/1]
۴؎ [والمجموع 151/1، المبسوط 46/1، بدائع الصنائع 66/1، مختصر الطحاوي 16، المغني 47/1، قوانين الأحكام الشرعية ص/40، اللباب 76/1، الأصل 125/1]
۵؎ [صحيح: صحيح ابن ماجه 300، كتاب الطهارة وسننها: باب النهي عن ذلك، ابن ماجة 374، طحاوي 64/1، دار قطني 26/1]
۶؎ [مسلم 323، كتاب الحيض: باب القدر المستحب من الماء فى غسل الجنابة . . .، احمد 366/1، بيهقي 188/1]
۷؎ [نيل الأوطار 58/1، السيل الجرار 57/1، المحلي 186/1]
* * * * * * * * * * * * * *
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 135
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 6
� لغوی تشریح:
«عَنْ رَجُلٍ صَحِبَ» «صَحِبَ باب سَمِعَ يَسْمَعُ» سے فعل ماضی ہے اور ترکیب کے لحاظ سے «رَجُلٍ» کی صفت واقع ہو رہا ہے۔ صحابی کا نام ظاہر نہ ہونا روایت حدیث میں ضرر رساں نہیں، کیونکہ تمام اہل سنت کا اتفاق ہے کہ «الصَحابةُ كُلّهم عَدُولٌ» تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں۔
«بِفضلِ الرَجل» آدمی کے غسل کرنے کے بعد جو پانی بچ جائے۔
«وَلْیَغتَرفا» میں ”لام“ امر کا ہے اور اِ «غْتِراف» کے معنی ہیں دونوں ہاتھوں کو ملا کر چلو سے پانی لینا۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں ”نہی“ سے مراد نہی تنزیہی ہے۔ آئندہ حدیث میں اس کا جواز منقول ہے، تاکہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ آدمی عورت کے غسل سے بچا ہوا پانی اپنے غسل کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔
➋ چلو سے بیک وقت مرد و عورت کا پانی لینا ایسا فعل ہے کہ جس میں ایک کا اثر دوسرے پر پڑتا ہے لیکن اس طریقے سے غسل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا، اس لیے اس کی اجازت دے دی گئی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 6