صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
25M. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4076
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ نَبِيٌّ، اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى مَنْ دَمَّى وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب اس شخص پر نازل ہوا جسے اللہ کے نبی نے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب اس شخص پر نازل ہوا جس نے (یعنی عبداللہ بن قمیہ نے لعنتہ اللہ علیہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو خون آلود کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4076 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4076
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث میں جنگ احد کا انتہائی خطرناک پہلو دکھلایا گیا ہے۔
وہ یہ کہ رسول کریم ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا۔
آپ کے اگلے چار دانت شہید ہوئے جس سے آپ کو انتہائی تکلیف ہوئی۔
یہ حرکت کرنے والا ایک کافر عبداللہ بن قمیہ تھا جس پر قیامت تک خدا کی لعنت نازل ہوتی رہے۔
اس جنگ میں دوسرا حادثہ یہ ہوا کہ خود رسول کریم ﷺ کے دست مبارک سے ابی بن خلف مکہ کا مشہور کا فر مارا گیا۔
حالانکہ آپ اپنے دست مبارک سے کسی کو مارنا نہیں چاہتے تھے مگر یہ ابی بن خلف کی انتہائی بد بختی کی دلیل ہے کہ وہ خود حضور ﷺ کے ہاتھ سے جہنم رسید ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4076
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4076
حدیث حاشیہ:
1۔
ان احادیث میں غزوہ اُحد کا ایک انتہائی خطرناک پہلو دکھا یا گیا ہے کہ رسول الله ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا۔
اگلے دو دانت مبارک شہید ہوئے، جس سے آپ کو انتہائی تکلیف ہوئی۔
آپ کے خود کی کڑیاں سرمبارک میں پیوست ہوگئیں۔
2۔
واضح رہے کہ حضرت ابن عباس ؓ غزوہ اُحد میں شریک تھے۔
ایسی روایات کو مراسیل صحابہ ؓ کہتے ہیں جو محدثین کے ہاں قابل حجت ہیں۔
(فتح الباري: 466/7۔
)
3۔
بہرحال ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے کرام ؑ بشر ہوتے ہیں اور جو تکالیف دوسرے انسانوں کو پہنچتی ہیں حضرات انبیاء بھی ان سے دوچارہوتے ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور مصائب وتکالیف کا نشانہ بنتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4076