Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مختصر صحيح مسلم
دیگر صحابہ کی فضیلت کا بیان
بنو ثقیف میں سے جس جھوٹے اور ہلاکو کا ذکر کیا گیا ہے۔
حدیث نمبر: 1753
ابونوفل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ کی گھاٹی پر دیکھا (یعنی مکہ کا وہ ناکہ جو مدینہ کی راہ میں ہے) کہتے ہیں کہ قریش کے لوگ ان پر سے گزرتے تھے اور دوسرے لوگ بھی (ان کو حجاج نے سولی دے کر اسی پر رہنے دیا تھا)، یہاں تک کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان پر سے گزرے۔ وہاں کھڑے ہوئے اور کہا کہ السلام علیکم یا ابوخبیب! (ابوخبیب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے اور ابوبکر اور ابوبکیر بھی ان کی کنیت ہے) اسلام علیکم یا ابوخبیب! السلام علیک یا ابوخبیب! (اس سے معلوم ہوا کہ میت کو تین بار سلام کرنا مستحب ہے) اللہ کی قسم میں تو تمہیں اس سے منع کرتا تھا، اللہ کی قسم میں تو تمہیں اس سے منع کرتا تھا، اللہ کی قسم میں تو تمہیں اس سے منع کرتا تھا۔ (یعنی خلافت اور حکومت اختیار کرنے سے) اللہ کی قسم جہاں تک میں جانتا ہوں تم روزہ رکھنے والے اور رات کو عبادت کرنے والے اور ناطے کو جوڑنے والے تھے۔ اللہ کی قسم وہ گروہ جس کے تم برے ہو وہ عمدہ گروہ ہے (یہ انہوں نے برعکس کہا بطریق طنز کے یعنی برا گروہ ہے اور ایک روایت میں صاف ہے کہ وہ برا گروہ ہے) پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہاں سے چلے گئے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے وہاں ٹھہرنے اور بات کرنے کی خبر حجاج تک پہنچی تو اس نے ان کو سولی پر سے اتروا لیا اور یہود کے قرستان میں ڈلوا دیا۔ (اور حجاج یہ نہ سمجھا کہ اس سے کیا ہوتا ہے۔ انسان کہیں بھی گرے لیکن اس کے اعمال اچھے ہونا ضروری ہیں)۔ پھر حجاج نے ان کی والدہ سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کو بلا بھیجا تو انہوں نے حجاج کے پاس آنے سے انکار کر دیا۔ حجاج نے پھر بلا بھیجا اور کہا کہ تم آتی ہو تو آؤ ورنہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہارا چونڈا پکڑ کر گھسیٹ کر لائے گا۔ انہوں نے پھر بھی آنے سے انکار کیا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں تیرے پاس نہ آؤں گی جب تک تو میرے پاس اس کو نہ بھیجے جو میرے بال کھینچتا ہوا مجھے تیرے پاس لے جائے۔ آخر حجاج نے کہا کہ میری جوتیاں لاؤ اور جوتے پہن کر اکڑتا ہوا چلا، یہاں تک کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا اور کہا کہ تم نے دیکھا کہ اللہ کی قسم میں نے اللہ تعالیٰ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا؟ (یہ حجاج نے اپنے اعتقاد کے موافق سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو کہا ورنہ وہ خود اللہ کا دشمن تھا) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ تو نے عبداللہ بن زبیر کی دنیا بگاڑ دی اور اس نے تیری آخرت بگاڑ دی۔ میں نے سنا ہے کہ تو عبداللہ بن زبیر کو کہتا تھا کہ دو کمربند والی کا بیٹا ہے؟ بیشک اللہ کی قسم میں دو کمربند والی ہوں۔ ایک کمربند میں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا کھانا اٹھاتی تھی کہ جانور اس کو کھا نہ لیں اور ایک کمربند وہ تھا جو عورت کو درکار ہے (سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے کمربند کو پھاڑ کر اس کے دو ٹکڑے کر لئے تھے ایک سے تو کمربند باندھتی تھیں اور دوسرے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے دسترخوان بنایا تھا تو یہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی فضیلت تھی جس کو حجاج عیب سمجھتا تھا اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو ذلیل کرنے کے لئے دو کمربند والی کا بیٹا کہتا تھا)۔ تو خبردار رہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا تھا کہ ثقیف میں ایک جھوٹا پیدا ہو گا اور ایک ہلاکو۔ تو جھوٹے کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ہلاکو میں تیرے سوا کسی کو نہیں سمجھتی۔ یہ سن کر حجاج کھڑا ہوا اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کو کچھ جواب نہ دیا۔