Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
18. بَابُ: {إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ} :
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 4051
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ , عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ , عَنْ عَمْرٍو , عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِينَا إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلا سورة آل عمران آية 122 بَنِي سَلِمَةَ , وَبَنِي حَارِثَةَ وَمَا أُحِبُّ أَنَّهَا لَمْ تَنْزِلْ وَاللَّهُ يَقُولُ: وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا سورة آل عمران آية 122".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی تھی «إذ همت طائفتان منكم أن تفشلا‏» (آل عمران: 122) یعنی بنی حارثہ اور بنی سلمہ کے بارے میں۔ میری خواہش نہیں ہے کہ یہ آیت نازل نہ ہوتی، جب کہ اللہ آگے فرما رہا ہے «والله وليهما‏» اور اللہ ان دونوں جماعتوں کا مددگار تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4051 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4051  
حدیث حاشیہ:
تو اللہ کی ولایت یہ کتنا بڑا شرف ہے جو ہم کو حاصل ہوا۔
جنگ احد میں جب عبداللہ بن ابی تین سو ساتھیوں کو لے کر لوٹ آیا تو ان انصاریوں کے دل میں بھی وسوسہ پیدا ہوا۔
مگر اللہ نے ان کو سنبھا لا تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4051   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4051  
حدیث حاشیہ:
1-
طائفتان سے مراد بنو حارثہ اور بنو سلمہ انصار کے دو قبیلے ہیں جو عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین کے راستے مدینہ طیبہ واپسی کے وقت پھسلنے لگے تھے۔
دونوں قبیلے بھی واپسی کے لیے تیار ہو گئے لیکن سمجھانے کے بعد وہ اس اقدام سے رک گئے۔

کسی آیت کا اس انداز سے نازل ہونا کہ اس میں کسی کا عیب یا قباحت مذکورہوا۔
اسے ناگوار گزرتا ہے، مگر آیت کے آخری حصے میں ان کی تسلی نازل ہوئی تو پہلے حصے میں جو گناہ معلوم ہوتا ہے وہ آخری حصے سے ختم ہوگیا،ممکن ہے کہ صرف دل میں خیال آیا ہو، اگر مصم ارادہ ہوتا تو اس پر ضرور مؤاخذ ہ ہوتا کیونکہ جہاد سے علیحدگی اختیار کرنا اور رسول اللہ ﷺ سے موافقت نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے کبائر کے مرتکب سے اللہ تعالیٰ نہ محبت کرتا ہے اور نہ ان کی مدد ہی کرتا ہے۔
بہر حال اس آیت کریمہ میں ان کے لیے خوش خبری ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے تعریف سے مشرف ہوئے ہیں اور ان سے اس برے خیال پر مؤاخذ ہ نہیں کیا گیا کیونکہ یہ خیال عزم اور صمیم قلب سے نہ تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4051