Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
12. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4024
وَقَالَ اللَّيْثُ: عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ الْأُولَى يَعْنِي مَقْتَلَ عُثْمَانَ فَلَمْ تُبْقِ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ أَحَدًا، ثُمَّ وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ الثَّانِيَةُ يَعْنِي الْحَرَّةَ، فَلَمْ تُبْقِ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ أَحَدًا، ثُمَّ وَقَعَتِ الثَّالِثَةُ فَلَمْ تَرْتَفِعْ وَلِلنَّاسِ طَبَاخٌ.
اور لیث نے یحییٰ بن سعید انصاری سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ پہلا فساد جب برپا ہوا یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تو اس نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ پھر جب دوسرا فساد برپا ہوا یعنی حرہ کا، تو اس نے اصحاب حدیبیہ میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ پھر تیسرا فساد برپا ہوا تو وہ اس وقت تک نہیں گیا جب تک لوگوں میں کچھ بھی خوبی یا عقل باقی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4024 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4024  
حدیث حاشیہ:
جب حضرت جبیر بن مطعم ؓ بدری قیدیوں میں قید ہوکر آئے اور مسجد نبوی کے قریب مقید ہوئے تو انہوں نے مغرب کی نماز میں آنحضرت ﷺ سے سورۃ والطور کی قراءت سنی اور وہ بعد میں اس سے متاثر ہوتے ہوئے مسلمان ہوگئے۔
اسی سے حدیث کی مناسبت باب سے نکل آئی۔
مطعم بن عدی ؓ نے آنحضرت ﷺ پر کچھ احسان کیا تھا۔
جب آپ طائف سے لوٹے تو ان کی پناہ میں داخل ہوگئے تھے۔
مطعم ؓ نے آپ کی حفاظت کے لیے اپنے چار بیٹوں کو مسلح کرکے کعبے کے چاروں کونوں پر کھڑاکردیا تھا۔
قریش یہ منظر دیکھ کر ڈر گئے اور کہنے لگے کہ ہم مطعم کی پناہ نہیں تو ڑسکتے۔
بعضوں نے کہا کہ مطعم ؓ نے وہ عہد نامہ ختم کرایا تھا۔
جو قریش نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خلاف کیا تھا۔
حضرت عثمان ؓ کی شہادت کا واقعہ اسلام میں فساد ہے۔
جو جمعہ کے دن آٹھویں ذی الحجہ کو برپا ہوا۔
جس کے متعلق حضرت سعید بن مسیب کا قول بقول علامہ داؤدی صریح غلط ہے اس فساد کے بعد بھی بہت سے بدری صحابہ زندہ تھے۔
بعضوں نے کہا پہلے فساد سے ان کی مراد حضرت حسین ؓ کی شہادت ہے اور دوسرے سے حرہ کا فساد جس میں یزید کی فوج نے مدینہ پر حملہ کیا تھا۔
تیسرے فساد سے ازارقہ کا فساد مراد ہے۔
جو عراق میں ہوا تھا۔
بعضوں نے یوں جواب دیا ہے کہ سعید بن مسیب کا مطلب یہ ہے کہ پہلے فساد یعنی قتل عثمان ؓ سے لے کر دوسرے فساد حرہ تک کوئی بدری صحابی باقی نہیں رہا تھا۔
یہ صحیح ہے کیوں کہ بدریوں کے آخر میں سعد بن ابی وقاص ؓ کا انتقال ہوا ہے وہ بھی حرہ کے واقعہ سے پہلے ہی گزرچکے تھے۔
تیسرے فساد سے بعض لوگوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی شہادت مرادلی ہے۔
آخری عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اس فتنے نے تو صحابہ کا وجود بالکل ختم کردیا جس کے بعد کوئی صحابی دنیا میں باقی نہیں رہا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4024   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4024  
حدیث حاشیہ:

جب جبیر بن مطعم ؓ بدری قیدیوں میں قید ہو کر مدینہ طیبہ آئے تو انھیں مسجد نبوی کے قریب رکھا گیا۔
اس وقت انھوں نے نماز مغرب میں رسول اللہ ﷺ کی قراءت سنی تو اس سے متاثر ہوئے۔
آئندہ مسلمان ہونے کے لیے یہی قرآءت سبب بنی۔
(صحیح البخاري، الجهاد، حدیث: 3050۔
)

ایک روایت کے مطابق حضرت جبیر مطعم ؓ نے فرمایا:
جب رسول اللہﷺ نے کچھ آیات تلاوت فرمائیں تو مارے خوف کے میرا دل اڑنے لگا۔
وہ آیات یہ تھیں:
﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ (35)
أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ (36)
أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ﴾
کیا وہ بغیر کسی چیز کے خود ہی پیدا ہو گئے ہیں۔
یا وہ (خود اپنے)
خالق ہیں یا آسمانوں اور زمین کو انھوں نے پیدا کیا ہے؟بلکہ وہ اللہ پر یقین نہیں رکھتے۔
یا ان کے پاس آپ کے پروردگار کے خزانے ہیں؟ یا یہ ان خزانوں کے نگران ہیں۔
(الطور: 35-
36 و صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4853)


رسول اللہ ﷺ نے مطعم بن عدی کے متعلق جن جذبات کا اظہار فرمایا:
اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ طائف سے واپس لوٹے تو مطعم کی پناہ میں داخل ہوئے۔
اس نے آپ کو بچانے کے لیے اپنے چاروں بیٹوں کو مسلح کر کے بیت اللہ کے کونوں پر کھڑا کردیا تھا جس سے قریش ڈر گئے اور آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور کہنے لگے:
ہم مطعم کی پناہ نہیں توڑ سکتے نیز انھوں نے وہ عہد نامہ ختم کرانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا جو قریش نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خلاف کیا تھا۔
(فتح الباري: 404/7)

حضرت عثمان ؓ کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے۔
یہ شہادت بلا وجہ اور مظلوما نہ تھی۔
آپ نے عدم تشدد کی پالیسی اختیار کی، فسادیوں کے خلاف تلوارنہیں اٹھائی۔
اللہ تعالیٰ نے اس کا انتقام لیا، جب جمل، صفین اور نہر وان میں ہزاروں مسلمان مارے گئے بلکہ اکثر بدری صحابہ کرام موت کا لقمہ بن چکے تھے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہ سب بدری صحابہ اس فتنے کا شکار ہوئے بلکہ اس وقت اسے ان کی اموات شروع ہو گئیں اور وہ بہت جلد ختم ہو گئے چنانچہ بدری صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ہیں جو واقعہ حرہ سے چند سال پہلے فوت ہوئے۔
تیسرے فتنے نے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے وجود ہی کو ختم کردیا۔
اس کے بعد کوئی صحابی زندہ نہ رہا۔
(فتح الباري: 405/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4024