Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
12. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4013
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، قَالَ: أَخْبَرَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَنَّ عَمَّيْهِ وَكَانَا شَهِدَا بَدْرًا أَخْبَرَاهُ ," أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ" , قُلْتُ لِسَالِمٍ فَتُكْرِيهَا أَنْتَ، قَالَ: نَعَمْ إِنَّ رَافِعًا أَكْثَرَ عَلَى نَفْسِهِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے، ان سے زہری نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی، بیان کیا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو خبر دی کہ ان کے دو چچاؤں (ظہیر اور مظہر رافع بن عدی بن زید انصاری کے بیٹوں) جنہوں نے بدر کی لڑائی میں شرکت کی تھی، نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع کیا تھا۔ میں نے سالم سے کہا لیکن آپ تو کرایہ پر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں، رافع رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر زیادتی کی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4013 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4013  
حدیث حاشیہ:
کہ انہوں نے زمین کو مطلق کرایہ پر دینا منع سمجھا۔
حالانکہ آنحضرت ﷺ نے جس سے منع فرمایا تھا وہ زمین ہی کی پیدا وار پر کرایہ کو دینے سے یعنی مخصوص قطعہ کی بٹائی سے منع فرمایا تھا۔
لیکن نقدی ٹھہراؤسے آپ نے منع نہیں فرمایا وہ درست ہے۔
اس کی بحث کتاب المزارعہ میں گزرچکی ہے۔
حدیث میں بدری صحابیوں کا ذکر ہے۔
علامہ قسطلانی لکھتے ہیں:
وکانوا یکرون الأرض بما ینبت فیھا علی الأربعاء وھو النھر الصغیر أو شيئ لیستثنیه صاحب الأرض من المزارع لأجله فنھی رسول اللہ صلی اللہ علیه و سلم عن ذلك لما فیه من الجھل۔
(قسطلانی)
یعنی اہل عرب زمین کو بایں طور کرایہ پر دیتے کہ نالیوں کے پاس والی زراعت کو یا خاص خاص قطعات ارضی کو اپنے لیے خاص کر لیتے اس کو رسول کریم ﷺ نے منع فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4013   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4013  
حدیث حاشیہ:

حضرت رافع ؓ کے دونوں چچا ظہیر اور مظہرہیں جو رافع بن عدی بن یزید انصاری کے بیٹے ہیں۔
یہ دونوں غزوہ بدر میں شریک تھے جیسا کہ روایت میں صراحت ہے لیکن علامہ دمیاطی نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دونوں غزوہ احد میں شریک تھے۔
انھوں نے ابن سعد کی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے ایسا کہا ہے حالانکہ ان کا غزوہ بدر میں شریک ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے۔
ان کا انکار مبنی بر حقیقت نہیں۔
(فتح الباري: 400/7)

مزارعت اور ٹھیکے کے متعلق مکمل بحث کتاب البیوع میں گزر چکی ہے۔
ایک مخصوص حصے کی پیداوار لینے پر زمین کرائے پر دینا منع ہے لیکن پیسوں کے عوض کرائے پر زمین لینے سے رسول اللہ ﷺ نے منع نہیں فرمایا، چونکہ پہلی قسم باعث اختلاف ہو سکتی تھی۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4013   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2346  
´زمین کو کرایہ، یعنی ٹھیکہ پر دینا`
«. . . عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمَّايَ،" أَنَّهُمْ كَانُوا يُكْرُونَ الْأَرْضَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا يَنْبُتُ عَلَى الْأَرْبِعَاءِ أَوْ شَيْءٍ يَسْتَثْنِيهِ صَاحِبُ الْأَرْضِ، فَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ". فَقُلْتُ لِرَافِعٍ: فَكَيْفَ هِيَ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ؟ فَقَالَ رَافِعٌ: لَيْسَ بِهَا بَأْسٌ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ . . .»
. . . رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے چچا (ظہیر اور مہیر رضی اللہ عنہما) نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین کو بٹائی پر نہر (کے قریب کی پیداوار) کی شرط پر دیا کرتے۔ یا کوئی بھی ایسا خطہ ہوتا جسے مالک زمین (اپنے لیے) چھانٹ لیتا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔ حنظلہ نے کہا کہ اس پر میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا، اگر درہم و دینار کے بدلے یہ معاملہ کیا جائے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر دینار و درہم کے بدلے میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ: 2346]
فقہ الحدیث
دنیاوی معاملات میں چونکہ اصل اباحت ہے اور حرمت کا ثبوت کسی صحیح و صریح دلیل کا محتاج ہوتا ہے، لہٰذا اس اصول کے تحت زمین کو کرایہ، یعنی ٹھیکہ پر دینا بالکل جائز و درست ہے۔ اس کے خلاف کوئی دلیل نہیں۔

رہا سیدنا رافع بن خدیج اور دوسرے کئی صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زمین کو ٹھیکے پر دینے کی ممانعت کرنا تو اس سے مراد حرمت نہیں، بلکہ محض نرمی کی ہدایت ہے۔ اگر کوئی خود زمین کاشت نہیں کرتا تو کسی دوسرے مسلمان کو بغیر عوض کے زمین دے دینا اس کے لیے بہتر اور کار ثواب ہے۔ رہا ٹھیکے پر دینے کا عمل تو اس میں سے صرف ظلم و زیادتی والی صورتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار دیا ہے، ہرطرح کے ٹھیکے کو نہیں، کیونکہ:

➊ اس ممانعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرنے والے صحابی رسول سیدنا رافع بن خدیج خود خالی زمین کو کرائے پر دینے کے قائل تھے۔ چنانچہ:
❀ حنظلہ بن قیس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
«سألت رافع بن خديج عن كراء الأرض بالذهب والورق، فقال: لا بأس به، إنما كان الناس يؤاجرون على عهد جرون على عهد النبى صلى الله عليه وسلم على الماذيانات، و أقبال الجداول، وأشياء من الزرع، فيهلك هذا ويسلم هذا، ويسلم هذا و يهلك هذا، فلم يكن للناس كراء إلا هذا، فلذلك زجر عنه، فأماشيء معلوم مضمون، فلا بأس به۔»
میں نے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے فرمایا، اس میں کوئی حرج نہیں۔ (رہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع فرمانے کی تو اصل بات یہ ہے کہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں لوگ ٹھیکے پر زمین اس شرط پر دیتے تھے کہ پانی کے قریب والی زمین، نالوں کے کناروں پر واقع زمین اور کئی طرح کا (متعین) غلہ ان کا ہو گا۔ اس صورت میں کبھی یہ ہلاک ہو جاتا (نقصان اٹھاتا) اور وہ سلامت رہ جاتا (نفع مند رہتا) اور کبھی یہ سلامت رہ جاتا اور وہ ہلاک ہو جاتا۔ ان دنوں میں لوگوں کے پاس زمین کو ٹھیکے پر دینے کی صرف یہی صورت تھی، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔ رہا ٹھیکے کا وہ معاملہ جو معلوم و متعین ہو (نقدی کی صورت میں ہو) تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ [صحيح البخاري: 2346، صحيح مسلم: 166/1547، واللفظ له]

❀ صحیح مسلم [117/1547] کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
«كنا أكثر الأرنصار حقلا، قال: كنا نكري الأرض على أن لنا هذه، ولهم هذه، فربما أخرجت هذه، ولم تخرج هذه، فنهانا عن ذلك، و أما الورق فلم ينهنا»
ہم سب انصار سے بڑھ کر کاشتکاری کرنے والے تھے۔ ہم زمین کو اس شرط پر ٹھیکے پر حاصل کرتے تھے کہ زمین کا یہ حصہ ہمارے لیے اور یہ حصہ، ان (ملکوں) کے لیے ہے۔ بسا اوقات ایسے ہوتا کہ زمین کا ایک خطہ اچھا غلہ اگاتا اور دوسرا خطہ نہ اگاتا۔ اس طریقے سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا۔ رہی چاندی (نقدی کے عوص ٹھیکے کا معاملہ کرنا) تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا۔

❀ صحیح بخاری کی ایک روایت میں سیدنا رافع خدیج رضی اللہ عنہ یوں بیان فرماتے ہیں:
«و أما الذهب والورق، فلم يكن يومئذ»
رہا سونے اور چاندی کے عوض ٹھیکے کا معاملہ تو یہ ان دنوں میں تھا ہی نہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ [صحيح البخاري: 2327]

◈ امام بغوی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«فيه دليل على جواز إجارة الأراضي، و ذهب عامة أهل العلم إلي جوازها بالدراهم و الدنانيز، و غيرها من صنوف الأموال، سواء كانت مما تنبت الأرض، أولا تنبت، إذا كان معلوما بالعيان، إو بالوصف، كما يجوز إجارة غير الأراضي من العبيد و الدواب و غيرها، و جملته إن ما جاز بيعه، جاز أن يجعل أجرة فى الإجازة۔»
اس حدیث میں زمین کو ٹھیکے پر لینے دینے کی دلیل ہے۔ اکثر اہل علم سونے، چاندی (نقدی) اور مال کی دوسری اقسام کے عوض زمین کے ٹھیکے کے جواز کے قائل ہیں، خواہ وہ چیز زمین سے اگتی ہو یا نہ اگتی ہو، بشرطیکہ اس کی مقدار اور کیفیت معلوم ہو۔ یہ (زمین کا کرایہ پر لینا دینا) اسی طرح جائز ہے، جیسے زمین کے علاوہ دوسری چیزیں، مثلا غلام، جانور وغیرہ کو کرائے پر لینا دینا جائز ہے۔ خلاصہ یہ کہ جس چیز کی خرید و فروخت جائز ہے، اس کو اجرت کے بدلے کرائے پر لینا دینا بھی جائز ہے۔۔۔ [شرح السنة للبغوي: 263/8]

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«و ذهب جميع فقهاء الحديث الجامعون لطرقه كلهم، كأحمد بن حنبل و أصحابه كلهم من المتقدمين، والمتأخرين، وإسحاق بن راهويه، وأبي بكر أبي شبية، وسليمان بن داود الهاشمي، و أبي خيثمة زهير بن حرب، و أكثر فقهاء الكوفيين، كسفيان الثوري، و محمد بن عبدالرحمن بن أبي ليلي، و أبي داوٗد، وجماهير فقهاء الحديث من المتأخرين: كابن المنذر، وابن خزيمة، والخطابي، وغيرهم، و أهل الظاهر، و أكثر أصحاب أبي حنيفة إلي جواز المزراعة والمؤعة و نحو ذلك اتباعا لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة خلفائه و أصحابه و ما عليه السلف و عمل جمهور المسلمين»
سنت رسول، خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل، سلف صالحین اور اکثر مسلمانوں کی روش کی پیروی میں اس حدیث کی ساری روایات کو جمع کرنے والے فقہائے حدیث، مثلا امام احمد بن حنبل، آپ رحمہ اللہ کے تمام متقدین و متاخرین اصحاب، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابوبکر بن ابی شیبہ، امام سلیمان بن داؤد ہاشمی، امام ابوخیثمہ زہیر بن حرب، اکثر فقہائے کوفہ، جیساکہ امام سفیان ثوری، محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلٰی، امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگرد ابویوسف و محمد، امام بخاری، امام ابوداؤد اور جمہور متاخرین فقہائے حدیث، مثلا امام ابن منذر، امام ابن خزیمہ، خطابی اور اہل ظاہر، امام ابوحنیفہ کے اکثر پیروکاروں کا مذہب ہے کہ مزارع اور ٹھیکہ وغیرہ جائزہ ہے۔۔۔۔ [مجموع الفتاوي لابن تيمية: 95-94/29، القواعد النوانية الفقهية: 163]

◈ شیخ اسلام ثانی، عالم ربانی، امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و قال ابن المنذر: قد جائت الأخبار عن رافع بعلل، تدل على أن النهي كان بتلك العلل»
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے آنے والی (ٹھیکے کی ممانعت والی) روایات میں کئی وجوہات بیان ہوئی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹھیکے کی ممانعت انہی وجوہات کی وجہ سے تھی (مطلق طور پر ٹھیکے کا معاملہ حرام نہ تھا)۔ [حاشية ابن القيم على سنن ابي داود: 186/9]

◈ نیز لکھتے ہیں:
«المخابرة التى نهاهم عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم هي التى كانوا يفعلونها من المخابرة الظالمة الجائزة، و هي التى جائت مفسرة فى أحاديثهم» ۔
زمین کے جس معاملے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، وہ اس معاملے کی وہ صورتیں ہیں، جو ظلم و زیادتی پر منبی تھیں، ان کی وضاحت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث میں آ گئی ہے۔۔ [حاشية ابن القيم على سنن ابي داوٗد: 193/9]

◈ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
«فيه دليل على جواز كراء الأرض بالذهب والورق، وقد جاءت أحاديث مطلقة فى النهي عن كرائها، وهذا مفسر لذلك الإطلاق»
اس حدیث میں زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ٹھیکے پر لینے کا جواز موجود ہے۔ کچھ مطلق احادیث زمین کے ٹھیکے سے ممانعت کے بارے میں آئی ہیں، یہ حدیث اس اطلاق کی تفسیر و تقیید کرتی ہے (یعنی بتاتی ہے کہ ٹھیکہ نا جائز نہیں)۔۔۔۔ [احكام الاحكام شرح عمدة الاحكام لابن دقيق العيد: ص 380]
↰ معلوم ہوا کہ ٹھیکے کی غلط صورتوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، نہ کہ مطلق ٹھیکے سے، کیونکہ خود راویٔ حدیث سیدنا رافع خدیج رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرما دی ہے کہ انصار ٹھیکے کے وقت جگہ مقرر کر لیتے تھے کہ زمین کے اس ٹکڑے کی پیدوار ٹھیکے والے کو اور اس ٹکڑے کی مالک کو ملے گی، یوں کبھی ٹھیکے والے کو نقصان ہو جاتا کبھی مالک کو۔ اسی طرح معاملہ یوں طے پاتا کہ زمین سے پیداوار کم ہو یا زیادہ، مالک نے مقررہ مقدار غلہ لینا ہے۔ اس صورت میں بھی ایک فریق کو نقصان کا خدشہ ہوتا تھا، اس لیے اسے بھی شریعت نے ممنوع ٹھہرایا۔ رہی نقدی کے عوض ٹھیکے کی صورت تو یہ اس دور میں تھی ہی نہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، لہٰذا یہ ممنوع کیسے ہو سکتی ہے؟ فقہائے کرام اور محدثین عظام کا فہم بھی یہی ہے۔

اس بارے میں حدیث رسول بھی ملاحظہ فرمائیں:
➋ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إنما يزرع ثلاثة: رجل منح أرضا فهو يزرع ما منح، و رجل له أرض فهو يزرعها، و رجل استكرٰي أرضا بذهب أو فضة۔»
تین آدمی ہی زمین کاشت کرنے کے اہل ہیں، ایک وہ جس کو کوئی زمین تخفۃ دے دی گئی ہو اور وہ اس میں کاشت کرے اور دوسرا وہ شخص، جس کے پاس اپنی زمین ہو اور وہ اس میں کاشت کرے اور تیسرا وہ شخص، جو زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ٹھیکے پر حاصل کرتا ہے اور اس میں کاشت کرتا ہے۔ [سنن النسائي: 3890، مصنف ابن ابي شيبة: 85/7، ح: 22872، السنن الكبرٰي للنسائي: 4617، سنن الدارقطني: 96/3، ح: 145، وسنده حسن]
↰ یہ حدیث ممانعت والی احادیث کے مطلق نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے اور صراحت سے بتاتی ہے کہ نقدی کے عوض زمین کے ٹھیکے کا معاملہ بالکل جائز و درست ہے۔

➌ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«يغفر الله لرافع بن خديج! أنا والله أعلم بالحديث منه، إنما أتي رجلان قد اقتتلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم، إن كان هذا شأنكم فلا تكروا المزارع، قال فسمع رافع قوله: لا تكروا المزارع»
اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو معاف فرمائے۔ میں اس (زمین کے ٹھیکے کی ممانعت والی) حدیث کو ان سے بہتر جانتا ہوں۔ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی آئے، جو (ٹھیکے والے معاملے میں) لڑ پڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تمہاری یہی صورت حال ہے تو پھر زمینوں میں ٹھیکے کا معاملہ نہ کیا کرو۔ سیدنا رافع رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا فرمان ہی سنا تھا کہ زمینوں میں ٹھیکے کا معاملہ نہ کیا کرو (ممانعت کی وجہ نہیں سن سکے)۔ [مسند الامام احمد: 187/5، سنن ابي داود: 3390، سنن ابن ماجه: 2461، سنن النسائي: 3927، السنن الكبرٰي: 106/3، وسنده حسن]
↰ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ یہ خیال کرتے تھے کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ زمین کے کرائے والی حدیث میں ممانعت کو مطلق سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک ہر طرح کا ٹھیکہ ناجائز ہے، اسی لیے ان سے حدیث سن کر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ٹھیکے کو ترک کر دیا تھا، لیکن ہم پیچھے ذکر کر چکے ہیں کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بھی اس حدیث کی ممانعت کو ظلم و زیادتی والی صورتوں کے ساتھ خاص سمجھتے تھے، نقدی کے عوض زمین کے ٹھیکے کو وہ بھی جائز سمجھتے تھے۔ معلوم ہوا کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی یہ حدیث مطلق نہیں اور ہر طرح کا ٹھیکہ ناجائز نہیں۔

➍ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
«كنت أعلم فى عهد النبى صلى الله عليه وسلم أن الأرض تكري، ثم خشي عبدالله أن يكون النبى صلى الله عليه وسلم قد أحدث فى ذلك شيئا لم يكن يعلمه، فترك كراء الأرض»
میں جانتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زمین ٹھیکے پر لی دی جاتی تھی۔ (سالم بن عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ) پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (سیدنا رافع بن خدیج کی حدیث سن کر) اس بات سے ڈر گئے کہ شاید اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نیا حکم کردیا ہو، لہٰذا انہوں نے زمین کے ٹھیکے کا معاملہ چھوڑ دیا۔ [صحيح البخاري: 2345، صحيح مسلم: 122/1547]
↰ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زمین کے ٹھیکے کا معاملہ ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عہد تک ہوتا رہا، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد بھی یہ معاملہ کرتے رہے، لیکن جب سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث ان تک پہنچی تو انہوں نے اسے مطلق سمجھ کر ٹھیکہ چھوڑ دیا، حالانکہ یہ بات بالصراحت گزر چکی ہے کہ اس سے مطلق ممانعت مراد نہیں تھی، بلکہ صرف کچھ خرابی والی صورتوں سے منع کیا گیا تھا۔

➎ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
«إن أمثل ما أنتم صانعون تستأجروالأرض البيصاء بالذهب والورق»
سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ تم خالی زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض کرائے (ٹھیکے) پر حاصل کرو۔ [مصنف ابن ابي شيبة: 87/7، مصنف عبدالرزاق: 492/4، السنن الكبيٰري للبيهقي: 133/6، صحيح البخاري: قبل 2346، تعليقا، وسنده صحيح]

➏ امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے امام سالم رحمہ اللہ سے زمین کو نقدی کے عوض ٹھیکے پر لینے دینے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: «لا بأس بها بالذهب والورق» سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ [الموطا للامام مالك: 1392، وسندہ صحيح]

➐ امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
میں نے امام سعید بن مسیب تابعی سے زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض کرائے پر دینے کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا، اس میں کوئی حرج نہیں۔ [الموطا للامام مالك: 1391، وسندہ صحيح]

➑ امام عبیداللہ بن العمری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
امام سالم بن عبداللہ بن عمر، امام سعید بن مسیب، امام عروہ زبیر اور امام زہری رحمہ اللہ سب زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ٹھیکے پر لینے دینے کو کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبة: 22877، وسنده صحيح]

➒ حجاج بن دینار، امام محمد بن علی بن حسین بن علی ابی طالب، المعروف ابوجعفر الباقر رحمہ اللہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
میں نے امام ابوجعفر الباقر رحمہ اللہ سے ایسی خالی زمین کے بارے میں پوچھا:، جس میں کوئی درخت نہ ہو، کیا ہم اسے درہم و دینار کے عوض کرائے پر حاصل کر سکتے ہیں؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا، یہ بہت اچھا کام ہے، ہم مدینہ میں اس طرح کرتے ہیں۔ [مصنف ابن ابي شيبة: 22881، وسنده حسن]

➓ معاویہ بن ابی اسحاق بیان کرتے ہیں:
«سألت سعيد بن جبير عن إجارة الأرض، فقال: لا بأس بها»
میں نے امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے زمین کو ٹھیکے پر لینے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا، اس میں کوئی حرج نہیں۔ [مصنف ابن ابي شيبة: 22883، وسندہ حسن]

الحاصل:
نقدی کے عوض زمین کے ٹھیکے کا معاملہ بالکل درست ہے، اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ حدیث رسول، فہم صحابہ، عمل تابعین اور جمہورامت کے تعامل سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 22، حدیث/صفحہ نمبر: 34   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 503  
´زمین کو رقم کے بدلے میں کرائے پر دینا جائز ہے`
«. . . عن حنظلة بن قيس الزرقي انه سال رافع بن خديج عن كراء الارض، فقال رافع: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عنها، قال: فقلت: بالذهب والورق؟ فقال رافع: اما بالذهب والورق فلا باس به . . .»
. . . حنظہ بن قیس الزرقی (رحمہ اللہ) نے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کے کرائے کے بارے میں پوچھا: تو سیدنا رافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ انہوں نے پوچھا: سونے اور چاندی کے بدلے؟ تو سیدنا رافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سونے اور چاندی کے بدلے میں کوئی حرج نہیں ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 503]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1547/115 بعد 1548، من حديث مالك مثله و رواه البخاري 2346، 2347، من حديث ربيعة به]
تفقہ:
➊ زمین کو رقم کے بدلے میں کرائے پر دینا جائز ہے۔
➋ سالم بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ سے زمین کے کرائے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: سونے چاندی کے بدلے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [موطأ امام مالك 2/711 ح1454، وسنده صحيح]
➌ عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ اپنی زمین کو سونے چاندی کے بدلے میں کرائے پر دیتے تھے۔ [موطأ امام مالك 2/712 ح1456، وسنده صحيح]
➍ زمین کا ایک خاص حصہ اپنے لئے مقرر کرکے اس کی فصل کے بدلے میں زمین کو کرائے پر دینا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے ح: 158
➎ زمین کو آدھ (نصف) یا چوتھائی وغیرہ حصے پر کاشت کے لئے دینا جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 162   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3899  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھی، آپ کا حکم سر آنکھوں پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زمین کو اس کی کچھ پیداوار کے بدلے کرائے پر دینے سے منع فرمایا۔ ابراہیم بن مہاجر نے ابوحصین کی متابعت کی ہے (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3899]
اردو حاشہ:
ابراہیم بن مہاجر کی یہ متابعت مرسل بیان کرنے میں ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3899   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3917  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ و مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ اسے قاسم بن محمد نے بھی رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3917]
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ بات اسود کی بیان کردہ روایت کی تائید میں فرمائی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3917   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3918  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عثمان بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے قاسم سے بٹائی پر کھیت دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی نے دوسری مرتبہ (روایت کرتے ہوئے) کہا۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3918]
اردو حاشہ:
(1) مرۃ اخریٰ کے بارے میں دواحتمال ہیں: ایک یہ کہ امام نسائی رحمہ اللہ کے شاگرد کا قول ہے اور وہ امام صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ انہوں نے ہمیں دوبارہ بیان کیا۔ اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ امام نسائی رحمہ اللہ کا اپنا قول ہے اور وہ اپنے استاد عمرو بن علی کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ انہوں نے ہمیں دوبارہ بیان کیا۔ سنن الکبریٰ کے الفاظ دوسرے مفہوم پر دلالت کرتے ہیں۔ اس کی عبارت ہے: [أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ مَرَّةً أُخْرَى ]  یہاں ترجمہ پہلے مفہوم کے مطابق کیا گیا ہے۔ دونوں ممکن ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 31 /144)
(2) راویوں کا اختلاف بیان کیا جا رہا ہے۔ کسی نے کسی صحابی کا نام لیا‘ کسی نے کسی کا۔ ممکن ہے سب سے راویت آتی ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3918   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3919  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عثمان بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے قاسم سے زمین کرائے پر دینے کے سلسلے میں پوچھا تو وہ بولے: رافع بن خدیج نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ اس حدیث کی روایت میں سعید بن مسیب پر اختلاف واقع ہوا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3919]
اردو حاشہ:
اختلاف کیا گیا ہے۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ حضرت سعید بن مسیب کے شاگردوں نے ان پر اختلاف کیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ سعید نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ہے‘ کوئی کہتا ہے کہ سعد بن ابی وقاص کا ذکر کیا ہے۔ کوئی شاگرد سعید کی مرسل روایت کرتا ہے کہ سعید نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے بیان کی ہے‘ کسی صحابی کا واسطہ ذکر نہیں کیا۔ اور کسی شاگرد نے عن سعید بن المسیب عن رافع بن خدیج کہا ہے۔ یہ ساری تفصیل ان مذکورہ احادیث کی اسناد دیکھنے سے واضح طور پر معلوم ہوجاتی ہے۔ الفاظ کا اختلاف واضح ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3919   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3926  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین میں بٹائی کا معاملہ کرتے تھے، ہم اسے تہائی یا چوتھائی یا غلہ کی متعینہ مقدار کے عوض کرائیے پر دیتے تھے۔ تو ایک دن میرے ایک چچا آئے اور انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے معاملے سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3926]
اردو حاشہ:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث خود رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنی بلکہ اپنے چچا کے واسطے سے سنی ہے۔ کبھی چچا کا ذکر نہیں بھی کیا۔ ممکن ہے بعد میں خود بھی جا کر رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لیا ہو۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3926   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3929  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے چچا نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کے بدلے زمین کو بٹائی پر دیتے تھے جو پانی کی کیاریوں پر پیدا ہوتا تھا اور تھوڑی سی اس پیداوار کے بدلے جو زمین کا مالک مستثنی (الگ) کر لیتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا۔ میں نے رافع رضی اللہ عنہ سے کہا: تو دینار اور درہم سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3929]
اردو حاشہ:
(1) اوزاعی نے مخالفت کی ہے۔ یہ مخالفت اس طرح ہے کہ لیث اور اوزاعی دونوں ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے بیان کرتے ہیں‘ ربیعہ بیان کرتے ہیں حنظلہ بن قیس سے اور وہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے‘ لیکن لیث اپنی روایت میں حضرت رافع کے چچا کا ذکر کرتے ہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا‘ جبکہ اوزاعی اپنی روایت میں چچا کا ذکر نہیں کرتے۔
(2) کوئی حرج نہیں۔ حرج تو بٹائی میں بھی کوئی نہیں اگر اس میں کوئی ظلم والی شرط نہ ہو‘ البتہ فالتو زمین والے کے لیے بہتر ہے کہ وہ فالتو زمین ٹھیکے یا بٹائی کی بجائے کسی غریب بھائی کو سال دو سال کے لیے ویسے ہی کاشت کرنے کے لیے دے دے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3929   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3930  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے دینار اور چاندی کے بدلے زمین کو کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ اس پیداوار کے بدلے کرائے دیا کرتے تھے جو کیاریوں اور نالیوں کے اوپر پیدا ہوتی ہے، تو کبھی اس جگہ پیداوار ہوتی اور دوسری جگہ نہیں ہوتی اور کبھی یہاں نہیں ہوتی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3930]
اردو حاشہ:
(1) موافقت کی ہے۔ اس سند میں موافقت اس طرح سے ہے کہ جس طرح امام اوزاعی نے اپنی سند میں رافع بن خدیج کے چچا کا ذکر نہیں کیا اسی طرح امام مالک بن انس نے بھی سند میں رافع بن خدیج کے چچا کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن دونوں حدیث میں کچھ فرق ہے اگرچہ الفاظ کے اس فرق کی وجہ سے حدیث کے معنیٰ اور مفہوم میں کوئی فرق یا اثر نہیں پڑتا۔ واللہ أعلم۔
(2) گویا منع فرمانے کی وجہ وہ ظالمانہ شرائط تھیں جن کی بنا پر مزارع کو سراسر نقصان ہوتا تھا کہ زمین میں سے اچھے حصوں کی فصل مالک اپنے لیے خاص کرلیتے تھے اور ناکارہ حصوں کی فصل پر مزارع کو ٹرخا دیا جاتا تھا۔ چونکہ یہ ظلم تھا‘ لہٰذا شریعت نے اس سے منع فرما دیا۔ اگر کوئی ظالمانہ شرط نہ ہو تو بٹائی میں کوئی حرج نہیں۔ (دیکھیے‘ حدیث:3925)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3930   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3935  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
سالم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین کرائے پر اٹھاتے تھے، یہاں تک کہ انہیں معلوم ہوا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ زمین کو کرائے پر اٹھانے سے روکتے ہیں، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے ملاقات کی اور کہا: ابن خدیج! زمین کو کرائے پر اٹھانے کے بارے میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نقل کرتے ہیں؟ تو رافع رضی اللہ عنہ نے عب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3935]
اردو حاشہ:
بارہا گزرچکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت کی مروجہ بٹائی سے روکا تھا جس میں معاوضہ مخصوص مقامات کی فصل یا معین مقدار میں غلہ طے پاتا تھا۔ یا آپ نے بڑے زمینداروں کو ازراہ ہمدردی مفت زمین دینے کی رغبت دلائی تھی ورنہ بٹائی صحیح شرائط کے ساتھ آپ کے دور میں جاری تھی۔ خیبر کو آپ نے خود بٹائی پر دیا۔ خلفائے راشدین کے دور میں ایسے ہوتا رہا۔ بڑے بڑے مجتہد صحابہ بٹائی پر دیتے رہے‘ لہٰذا محقق بات یہی ہے کہ بٹائی پر زمین دینا درست ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3935   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3938  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
۱؎: یعنی شعیب کی موافقت کی ہے اور یہ موافقت اس طرح ہے کہ زھری اور رافع کے درمیان سالم کا ذکر نہیں ہے جب کہ مالک اور عقیل نے سالم کا ذکر کیا ہے۔ شرافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا۔ زہری کہتے ہیں: اس کے بعد رافع رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: وہ لوگ زمین کو کرائے پر کیوں کر اٹھاتے تھے؟ وہ بولے: غلے کی متعینہ مق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3938]
اردو حاشہ:
(1) اختلاف کیا گیاہے۔ وہ اختلاف۔ واللہ أعلم۔ یہ ہے کہ حضرت نافع کے کئی شاگردوں نے اس سے یہ روایت بیان کی‘ مثلاً: موسیٰ بن عقبہ‘ ابن عون‘ ایوب‘ کثیر بن فرقد‘ عبیداللہ بن عمر اور جویریہ بن اسماء وغیرہ۔ لیکن ان تمام شاگردوں میں سے کوئی تو اپنے استاد حضرت نافع سے یہی روایت بیان کرتے ہوئے عمومتہ کے الفاظ بیان کرتا ہے‘ اور کوئی بعض عمومتہ کے‘ جب کہ کوئی ان الفاظ کے بغیر ہی یہ روایت بیان کرتا ہے۔
(2) یہ صورتیں تو قطعاً منع ہیں کیونکہ ایسی شرائط صریح ظلم ہیں اور ان میں مزارع کا واضح طور پر نقصان ہے جسے شریعت جائز قرار نہیں دے سکتی تھی‘ البتہ زمین عام بٹائی پر دینا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3938   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3942  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے کھیت کرایہ پر اٹھاتے تھے، یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں انہیں معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت نقل کرتے ہیں تو وہ ان کے پاس آئے، میں ان کے ساتھ تھا، انہوں نے رافع سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھیتوں کو کرائے پر دینے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3942]
اردو حاشہ:
مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایوب نے حضرت رافع رضی اللہ عنہ کے کسی چچا کا ذکر نہیں کیا اسی طرح اس کی موافقت کرتے ہوئے مذکورہ تین حضرات نے بھی چچا کا ذکر نہیں کیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3942   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3943  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کھیتوں کو کرائیے پر دیتے تھے، ان سے کہا گیا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے۔ نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما مقام بلاط کی طرف نکلے، میں ان کے ساتھ تھا، تو آپ نے رافع رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرا [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3943]
اردو حاشہ:
(1) کرائے کی دوصورتیں ہیں: ایک زمین کی پیداوار کا حصہ‘ دوسری رقم۔ اگر زمین پیداوار کے حصے کے عوض دی جائے تو اسے بٹائی کہتے ہیں اور اگر رقم کے عوض کاشت کے لیے دی جائے تو اسے ٹھیکہ کہتے ہیں۔ عربی زبان میں دونوں کو کراء کہتے ہیں۔
(2) بلاط، مسجد نبوی اور بازار کے درمیان ایک جگہ کا نام تھا اور جہاں لوگ اکٹھے ہوتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3943   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3947  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور (اس روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت کرنے والے) عمرو بن دینار سے روایت میں ان کے شاگردوں نے اختلاف کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3947]
اردو حاشہ:
عمروبن دینار سے یہ حدیث بیان کرنے والے اس سے کئی ایک شاگرد ہیں‘ مثلاً: سفیان بن عینیہ‘ ابن جریح‘ حماد بن زید اور محمد بن مسلم۔ کسی شاگرد نے حدیث بیان کرتے ہوئے عمرو بن دینار عن ابن عمر کہا ہے‘ کسی نے عمرو بن دینار عن جابر کہا ہے اور کسی نے دونوں حدیثوں کو ملادیا ہے۔ اور عمروبن دینار عن ابن عمرو جابر کہہ دیا ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3947   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3949  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار کو کہتے سنا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو سنا اور وہ مخابرہ کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ ہمیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے (خلافت یزید کے) پہلے سال ۱؎ میں خبر دی کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخابرہ سے منع فرماتے سنا ہے۔ ان دونوں ([سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3949]
اردو حاشہ:
(1) موافقت کی ہے۔ وہ موافقت اس طرح سے ہے کہ جس طرح حضرت سفیان بن عینیہ اور ابن جریج نے اپنی روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بجاے کہا ہے کہ عمرو بن دینار نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیاہے‘ اسی طرح حماد بن زید نے بھی‘ اس راویت میں جابر کے بجائے کہا ہے کہ عمروبن دینار نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔
(2) پہلے سال حدیث:3942 میں گزر چکا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خَافت کے آخری دنوں کی یہ بات ہے‘ لہٰذا یہاں پہلے سال سے مراد یہ ہوسکتا ہے کہ یزید کی حکومت کا پہلا سال ہو یا حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی حکومت کا۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3949   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3950  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا: ہم مخابرہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب پہلا سال ہوا تو رافع رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے۔ «عارم» محمد بن فضل نے یحییٰ بن عربی کی مخالفت کی ہے۔ اور اسے بسند «عن حماد عن عمرو عن جابر» روایت کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3950]
اردو حاشہ:
اس کی وضاحت یہ ہے کہ اس سے پہلے یہ بات بیان ہوئی تھی کہ حماد بن زید نے اپنی روایت میں سفیان اور ابن جریج کی موافقت کی ہے اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بجائے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہا ہے‘ جبکہ اس روایت میں حضرت جابر کا ذکر کیا گیا ہے۔ دراصل یہ اختلاف حماد کے شاگردوں میں ہے۔ یحییٰ بن حبیب اور عارم دونوں حماد کے شاگرد ہیں۔ یحیٰ بن حبیب بیان کرتا ہے تو ابن عمر کا ذکر کرتا ہے‘ اور عارم‘ ابن عمر کے بجائے حضرت جابر کا ذکر کرتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3950   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3394  
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔`
سالم بن عبداللہ بن عمر نے خبر دی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی زمین بٹائی پر دیا کرتے تھے، پھر جب انہیں یہ خبر پہنچی کہ رافع بن خدیج انصاری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو بٹائی پر دینے سے روکتے تھے، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان سے ملے، اور کہنے لگے: ابن خدیج! زمین کو بٹائی پر دینے کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کیا حدیث بیان کرتے ہیں؟ رافع رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر سے کہا: میں نے اپنے دونوں چچاؤں سے سنا ہے اور وہ دونوں جنگ بدر میں شریک تھے، وہ گھر والوں سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ رسول ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3394]
فوائد ومسائل:

حق یہی ہے کہ دور نبوت خلافت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایام عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں یہودیوں کو خیبر سے نکالے جانے کے وقت تک خیبر کی زمینیں اور باٖغات بٹائی پر ان یہودیوں ہی کو دیے جاتے رہے تھے۔


مزارعت سے ممانعت کی احادیث تنزیہ اور استحباب پر محمول ہیں۔
یا ان ممنوعہ صورتوں سے متعلق ہیں۔
جن کا ذکر پیچھے ہوا ہے۔
علی الاطلاق مزارعت ممنوع ہوتی تو جلیل لقدر معروف صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمیعن یہ معاملہ ہرگز نہ کرتے۔


حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن سے مزارعت کی اجمالی ممانعت مروی ہے۔
خود انہی سے یہ وضاحت بھی مروی ہے۔
کہ نقدی کے عوض زمین کرائے پر دینے کی ممانعت نہیں۔


حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس عمل سے باز آجانا احتیاط وتقویٰ کی بنا پر تھا۔
اور انہیں حضرت رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجمل حدیث کا علم حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہوا تھا۔


بعض محدثین کا ان روایات کو مضطرب کہنا محل نظر ہے۔
احادیث واضح کردیتی ہیں کہ یہ اضطراب نہیں محض اجمال اورتفصیل کا فرق ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے۔
(إرواء الغلیل، بحث، حدیث: 1478)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3394   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3401  
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔`
عثمان بن سہل بن رافع بن خدیج کہتے ہیں میں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش ایک یتیم تھا، میں نے ان کے ساتھ حج کیا تو میرے بھائی عمران بن سہل ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم نے اپنی زمین دو سو درہم کے بدلے فلاں شخص کو کرایہ پر دی ہے، تو انہوں نے (رافع نے) کہا: اسے چھوڑ دو (یعنی یہ معاملہ ختم کر لو) کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3401]
فوائد ومسائل:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
خود حضرت رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزارعت کی جس صورت کے ممنوع ہونے کی خبر دی ہے۔
یہ ایسی ہی صورت پردی گئی ہوگی، اس لئے اسے منسوخ کرا دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3401   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2449  
´تہائی یا چوتھائی پیداوار پر کھیت کو بٹائی پر دینے کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ بیع و مزابنہ سے منع کیا، اور فرمایا: کھیتی تین آدمی کریں: ایک وہ جس کی خود زمین ہو، وہ اپنی زمین میں کھیتی کرے، دوسرے وہ جس کو زمین (ہبہ یا مستعار) دی گئی ہو، تو وہ اس دی گئی زمین میں کھیتی کرے، تیسرے وہ جو سونا یا چاندی (نقد) دے کر زمین ٹھیکے پر لے لے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2449]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
محاقلہ اورمزابنہ کی تشریح کےلیےدیکھیےحدیث: 2265 کا فائدہ نمبر: 2۔

(2)
جس طرح غریب آدمی کی مدد کےلیے نقد رقم دی جاسکتی ہے اسی طرح اسے زمین کا ٹکڑا بھی دیا جا سکتا ہے تاکہ وہ کاشت کر کے رزق حلال حاصل کرے اوریہ اس کےلیے آمدنی کا مستقل ذریعہ بن جائے۔

(3)
زمین بٹائی پرلینا یا دینا جائز ہے اس میں رقم اورمدت کا تعین وضاحت سے ہو جانا چاہیے تاکہ بعد میں اختلاف نہ ہو۔

(4)
سونے چاندی سے مراد نقد رقم ہے کیونکہ اُس دورمیں سونے کا سکہ (دینار)
اورچاندی کا سکہ(درہم)
رائج تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2449   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2450  
´تہائی یا چوتھائی پیداوار پر کھیت کو بٹائی پر دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم مزارعت (بٹائی کھیتی) کیا کرتے تھے، اور اس میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے تھے، یہاں تک کہ ہم نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے تو پھر ہم نے ان کے کہنے سے اسے چھوڑ دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2450]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (مخابرہ)
کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی كى زمین ہو اوردوسرا اس میں کاشت کاری کرے اوران کے درمیان یہ معاہدہ ہو جائے کہ پیداوار میں سے اتنا حصہ کاشت کارکا ہے اوراتنا حصہ زمیں دار کا۔
اس کی جائز صورت یہ ہے کہ کل پیداوار میں سے حصہ مقرر کیا جائے مثلاً کل پیداوار کا نصف کاشت کارکا ہوگا ورنصف زمین کےمالک کا، یا ایک حصہ مزارع کا ہوگا اوردوحصے زمیندار کے۔
ممنوع صورت یہ ہے کہ کھیت کے فلاں حصے کے پیداوار مزارع کی ہوگی اورفلاں حصے کی پیداوار زمیندار کی۔ (دیکھیے حدیث: 2458)

(2)
ضرورت سے زائد زمین بغیر کسی معاوضے کے کسی ضرورت مند کو کاشت کےلیے دے دینا افضل ہے یعنی مالک اس کی پیداوار میں سے کچھ نہ لے۔
یہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہے۔

(3)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبئ اکرم ﷺکے ارشادات کی تعمیل میں کوتاہی نہیں کرتےتھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2450   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2453  
´زمین کرایہ پر دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ اپنی زمین کرایہ پر کھیتی کے لیے دیا کرتے تھے، ان کے پاس ایک شخص آیا اور انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ والی حدیث کی خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرائیے پر دینے سے منع کیا ہے، یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنہما چلے اور میں بھی ان کے ساتھ چلا یہاں تک کہ بلاط میں رافع رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور ان سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرائیے پر دینے سے منع کیا ہے، اس پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان زمینوں کو کرایہ پر دینا چھوڑ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2453]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کرائے پر دینے کا مطلب یہ ہے کہ کاشتکار سےایک مقررہ رقم پرمعاہدہ ہوجائے۔
وہ کاشت کرے اورپیداوار حاصل ہونے پرمقررہ رقم زمین کے مالک کو دے دے باقی اس کی اپنی آمدنی ہے۔

(2)
کرایہ نہ لینا اورکاشتکار کو بلا معاوضہ کاشت کرنے دینا افضل ہے رسول اللہ کی ممانعت افضل صورت کی ترغیب کےلیے ہے ویسے زمین کا کرایہ لینا جائزہے۔ (دیکھیے حدیث: 2456)
زمانہ جاہلیت میں مزارعت کی بعض ایسی صورتیں رائج تھیں جواسلام میں ممنوع ہیں۔
ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔ (دیکھیےحدیث: 2458، 2460)

(3)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مشکوک معاملات میں احتیاط سےکام لیتےتھے اورایسے کام سے پرہیز کرتےتھے جس میں کسی قسم کا شبہ ہو۔
نبی اکرمﷺ نےفرمایا جوشخص شبہ والی چیزوں سےبچ گیا اس نےاپنے دین اوراپنی عزت کوبچا لیا۔ (صحیح البخاري، الإیمان، باب فضل من استبرالدینه حدیث: 52، وصحیح مسلم، المساقاۃ، باب أخذ الحلال وترک الشبھات حدیث: 1599)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2453   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3938  
حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما، اپنی زمینوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہم کے دور خلافت میں اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے ابتدائی دور میں، بٹائی پر دیا کرتے تھے، حتی کہ حضرت معاویہ کی خلافت کے آخر میں انہیں یہ بات پہنچی کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت نقل کرتے ہیں، تو ابن عمر رضی اللہ تعالی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3938]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور کا تذکرہ نہیں کیا،
کیونکہ ان کی خلافت پر اتفاق نہیں ہو سکا۔
اس لیے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے ان کی بیعت نہیں کی تھی۔
ان کا موقف یہ تھا بیعت اس خلیفہ کی ہو سکتی ہے،
جس پر سب لوگ متفق ہو جائیں۔
اس لیے انہوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت تو کر لی تھی لیکن اس کی وفات کے بعد،
حضرت عبداللہ بن زبیر یا مروان کی بیعت نہیں کی۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد عبدالملک کی بیعت کر لی،
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی میں اس کی بیعت بھی نہیں کی تھی،
نیز اتنا طویل عرصہ تک ان کا مزارعت پر زمین دینا کسی صحابہ کا ان پر اعتراض نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مزارعت کی ہر صورت ناجائز نہیں ہے۔
اس لیے وہ یہ کہتے تھے کہ یہ رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ کا زعم یا گمان ہے۔
اس لیے وہ بعض دفعہ فرماتے کہ رافع نے ہمیں،
ہماری زمینوں کے نفع سے محروم کر دیا ہے۔
لیکن آخر کار انہوں نے احتیاط کے طور پر اس کو چھوڑ دیا اور دوسرے طریقہ سے فائدہ اٹھایا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3938   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3940  
نافع بیان کرتے ہیں، میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے ساتھ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا، وہ انہیں مسجد نبوی کے پاس فرش (بلاط) پر ملے، اور انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بٹائی پر زمین دینے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3940]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
بلاط:
اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پتھر بچھائے گئے ہوں،
یا اینٹیں لگائی گئی ہوں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3940   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3944  
حضرت سالم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ (میرے والد) عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اپنی زمینیں بٹائی پر دیتے تھے۔ حتی کہ انہیں پتہ چلا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ زمین بٹائی پر دینے سے منع کرتے ہیں۔ تو عبداللہ اسے ملے اور پوچھا، اے ابن خدیج! آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زمین کی بٹائی کے بارے میں کیا بیان کرتے ہیں؟ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ نے عبداللہ کو جواب دیا، میں نے جنگ بدر میں شرکت کرنے والے اپنے دو چچوں سے سنا، وہ محلہ والوں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3944]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت رافع بن خدیج کے دو چچاؤں میں سے ایک کا نام آگے ظہیر بن رافع آ رہا ہے،
اور دوسرے کا نام بقول ابن حجر رحمہ اللہ مُهير بروزن ظہیر ہے (تصغیر کا وزن ہے)
بعض نے نام مظہر لکھا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3944   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3945  
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہم زمین بٹائی پر دیتے تھے، ہم اس کا کرایہ، تہائی یا چوتھائی اور متعین مقدار اناج لیتے تھے، تو ایک دن ہمارے پاس میرے چچاؤں میں سے ایک آدمی آیا، تو اس نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے معاملہ سے روک دیا ہے جو ہمارے لیے نفع بخش تھا، اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہمارے لیے زیادہ نفع بخش ہے، آپﷺ نے ہمیں اس سے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3945]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث کی صحیح صورت حال،
آگے رافع رضی اللہ عنہ کے چچا ظُهَير کی روایت سے معلوم ہو جائے گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3945   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2332  
2332. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ ہم مدینہ طیبہ میں سب سے بڑے زمیندار تھے۔ ہم میں سے ایک شخص اپنی زمین اس شرط پر بٹائی کے لیے دیتا تھا کہ زمین کایہ قطعہ میرے لیے اور اس ٹکڑے اور قطعے کی پیداوار تیرے لیے ہوگی۔ بسااوقات یہ قطعہ پیداوار دیتا اور دوسرے میں نہ ہوتی۔ تو نبی کریم ﷺ نے انھیں اس سے منع فرمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2332]
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ یہ ایک فاسد شرط ہے کہ یہاں کے پیداوار میں لوں گا وہاں کا تو لے، یہ سراسر نزاع کی صورت ہے۔
اسی لیے ایسی شرطیں لگانا مکروہ قرار دیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2332   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2722  
2722. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: انصار مدینہ میں سے ہم لوگ سب سے زیادہ کھیتی باڑی کرنے والے تھے اور ہم زمین بٹائی پر دیتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ کھیت کے ایک حصے میں پیداوار ہوتی اور دوسرےمیں نہ ہوتی، اس لیے ہمیں اس سے منع کر دیا گیا لیکن نقدی کے عوض کرائے پر دینے سے منع نہیں کیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2722]
حدیث حاشیہ:
یعنی وہ مزارعت منع ہے جس میں یہ قرار داد ہو کہ اس قطعہ کی پیداوار ہم لیں گے، اس قطعہ کی تم لینا، کیوں کہ اس میں دھوکہ ہے۔
شاید اس قطعہ میں کچھ پیدا نہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2722   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2346  
2346. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ میرے دونوں چچا (ظہیر اور مہیر رضوان اللہ عنھم اجمعین) نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں زمین اس پیداوار کے عوض کا شت پر دیتے تھے جو کھالوں کے آس پاس اگتی یا اسی چیز کے عوض جسے مالک زمین مستثنیٰ کرلیتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ (راوی حدیث حضرت حنظلہ کہتے ہیں:)میں نے حضرت رافع ؓ سے دریافت کیا کہ درہم ودینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا کیسا ہے؟تو انھوں نے فرمایا: درہم ودینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے میں کوئی قباحت نہیں (ایک اور راوی حدیث) حضرت لیث کہتے ہیں: جس بٹائی سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس میں حلال وحرام سمجھنے والے غوروفکر کریں تو اس میں دھوکے کی وجہ سے اسے جائز قرار نہ دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2346]
حدیث حاشیہ:
اس سے جمہور کے قول کی تائید ہوتی ہے کہ جس مزارعت میں دھوکہ نہ ہو مثلاً روپیہ وغیرہ کے بدل ہو یا پیداوار کے نصف یا ربع پر ہو تو وہ جائز ہے۔
منع وہی مزارعت ہے جس میں دھوکہ ہو مثلاً کسی خاص مقام کی پیداوار پر۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2346   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2347  
2347 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2347]
حدیث حاشیہ:
اس سے جمہور کے قول کی تائید ہوتی ہے کہ جس مزارعت میں دھوکہ نہ ہو مثلاً روپیہ وغیرہ کے بدل ہو یا پیداوار کے نصف یا ربع پر ہو تو وہ جائز ہے۔
منع وہی مزارعت ہے جس میں دھوکہ ہو مثلاً کسی خاص مقام کی پیداوار پر۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2347   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2332  
2332. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ ہم مدینہ طیبہ میں سب سے بڑے زمیندار تھے۔ ہم میں سے ایک شخص اپنی زمین اس شرط پر بٹائی کے لیے دیتا تھا کہ زمین کایہ قطعہ میرے لیے اور اس ٹکڑے اور قطعے کی پیداوار تیرے لیے ہوگی۔ بسااوقات یہ قطعہ پیداوار دیتا اور دوسرے میں نہ ہوتی۔ تو نبی کریم ﷺ نے انھیں اس سے منع فرمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2332]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر معاملے میں کوئی شرط فاسد ہو یا نقصان اور دھوکے کا باعث ہو تو ایسا معاملہ ناجائز قرار پاتا ہے جیسا کہ مزارعت کی مذکورہ صورت میں ہے کہ آپ زمین کا ایک حصہ مخصوص کر لیں اور دوسرا حصہ مزارع کے لیے مخصوص کر دیں، یعنی اس کی پیداوار وہ لے گا۔
یہ شرط جھگڑے کا باعث تھی کیونکہ بسا اوقات ایک حصے میں فصل ہوتی اور دوسرے حصے میں کچھ نہ ہوتا، جب رسول اللہ ﷺ کے پاس بکثرت اس قسم کے مقدمات آنے لگے تو آپ نے اس سے منع فرما دیا۔
(2)
ہمارے نزدیک مزارعت کی شرائط یہ ہیں:
٭ معاملہ کرنے والے دونوں عاقل ہوں، اپنی مرضی سے یہ عقد کریں اور ان کا بالغ ہونا ضروری نہیں۔
٭ جو زمین مزارعت کے لیے دی جائے وہ بنجر نہ ہو بلکہ قابل کاشت ہو کیونکہ بنجر زمین کا معاملہ دوسری نوعیت کا ہے۔
٭ مالک اور مزارع دونوں اپنا اپنا حصہ طے کر لیں کہ کس کو کتنا ملے گا؟ دونوں میں سے کوئی بھی اپنے لیے وزن یا کھیت مخصوص نہ کرے۔
٭ زمین، ہل، بیل، بیج اور پانی کے بارے میں روز اول سے طے ہونا چاہیے کہ کون سی چیز کس کے ذمے ہو گی۔
٭ زمین خالی کر کے کاشتکار کے حوالے کی جائے، کھڑی فصل والی زمین مزارعت کے لیے دینا محل نظر ہے۔
٭ بٹائی پر دینے کے بعد فریقین کو طے شدہ حصے کے مطابق پیداوار میں شریک رہنا ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2332   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2346  
2346. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ میرے دونوں چچا (ظہیر اور مہیر رضوان اللہ عنھم اجمعین) نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں زمین اس پیداوار کے عوض کا شت پر دیتے تھے جو کھالوں کے آس پاس اگتی یا اسی چیز کے عوض جسے مالک زمین مستثنیٰ کرلیتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ (راوی حدیث حضرت حنظلہ کہتے ہیں:)میں نے حضرت رافع ؓ سے دریافت کیا کہ درہم ودینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا کیسا ہے؟تو انھوں نے فرمایا: درہم ودینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے میں کوئی قباحت نہیں (ایک اور راوی حدیث) حضرت لیث کہتے ہیں: جس بٹائی سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس میں حلال وحرام سمجھنے والے غوروفکر کریں تو اس میں دھوکے کی وجہ سے اسے جائز قرار نہ دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2346]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات نے نقدی کے عوض زمین کو ٹھیکے پر دینا بھی منع قرار دیا ہے۔
ان کی دلیل جامع ترمذی کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کی کچھ پیداوار یا دراہم کے عوض زمین اجرت پر دینے سے منع فرمایا۔
(جامع الترمذي، الأحکام، حدیث: 1384)
لیکن امام ترمذی ؒ نے خود اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے۔
امام نسائی ؒ نے بھی اسے معلول قرار دیا ہے کہ اس روایت میں حضرت مجاہد کا سماع حضرت رافع ؓ سے ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒنے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 32/5) (2)
ہمارے ہاں پٹے پر زمین لینے دینے کی مروجہ صورت جائز اور صحیح ہے۔
جس بٹائی کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ وہی ہے جس میں کسی خاص رقبے کی پیداوار کو مالک یا کاشتکار کے لیے نامزد کر دیا جاتا ہے یا متعین مقدار غلہ پر معاملہ طے ہوتا ہے۔
اس میں نقصان اور دھوکا دونوں خرابیاں ہیں۔
حضرت لیث نے بھی صراحت کی ہے کہ مزارعت کی وہ صورت ممنوع ہے جس میں دھوکا وغیرہ ہو۔
یہ بات اگرچہ کسی نص سے ثابت نہیں لیکن اہل فہم اپنی فہم سے اس کی حرمت کا ادراک کر سکتے ہیں۔
بہرحال جمہور کے نزدیک کراء الارض کی نص اس بات پر محمول ہے کہ جس میں دھوکا اور جہالت ہو، مطلق طور پر مزارعت منع نہیں ہے اور نہ درہم و دینار، یعنی نقدی ہی کے عوض زمین لینا دینا ممنوع ہے۔
اس سلسلے میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ زمین تو تین آدمی ہی کاشت کر سکتے ہیں:
ایک وہ جس کی اپنی زمین ہو، دوسرا وہ جسے بطور عطیہ یا عاریتاً ملی ہو، تیسرا وہ جس نے سونے چاندی کے عوض ٹھیکے پر لی ہو۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3400)
لیکن امام نسائی ؒ نے وضاحت کی ہے کہ مرفوع حدیث میں صرف محاقلہ اور مزابنہ کی ممانعت ہے، اس کے بعد والا مذکورہ کلام مدرج ہے اور انہوں نے اسے سعید بن مسیب کا کلام قرار دیا ہے۔
(سنن النسائي، البیوع، حدیث: 3921)
امام مالک نے بھی مؤطا میں اسے سعید بن مسیب کا کلام کہا ہے۔
(فتح الباري: 33/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2346   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2347  
2347 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2347]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات نے نقدی کے عوض زمین کو ٹھیکے پر دینا بھی منع قرار دیا ہے۔
ان کی دلیل جامع ترمذی کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کی کچھ پیداوار یا دراہم کے عوض زمین اجرت پر دینے سے منع فرمایا۔
(جامع الترمذي، الأحکام، حدیث: 1384)
لیکن امام ترمذی ؒ نے خود اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے۔
امام نسائی ؒ نے بھی اسے معلول قرار دیا ہے کہ اس روایت میں حضرت مجاہد کا سماع حضرت رافع ؓ سے ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 32/5)
(2)
ہمارے ہاں پٹے پر زمین لینے دینے کی مروجہ صورت جائز اور صحیح ہے۔
جس بٹائی کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ وہی ہے جس میں کسی خاص رقبے کی پیداوار کو مالک یا کاشتکار کے لیے نامزد کر دیا جاتا ہے یا متعین مقدار غلہ پر معاملہ طے ہوتا ہے۔
اس میں نقصان اور دھوکا دونوں خرابیاں ہیں۔
حضرت لیث نے بھی صراحت کی ہے کہ مزارعت کی وہ صورت ممنوع ہے جس میں دھوکا وغیرہ ہو۔
یہ بات اگرچہ کسی نص سے ثابت نہیں لیکن اہل فہم اپنی فہم سے اس کی حرمت کا ادراک کر سکتے ہیں۔
بہرحال جمہور کے نزدیک کراء الارض کی نص اس بات پر محمول ہے کہ جس میں دھوکا اور جہالت ہو، مطلق طور پر مزارعت منع نہیں ہے اور نہ درہم و دینار، یعنی نقدی ہی کے عوض زمین لینا دینا ممنوع ہے۔
اس سلسلے میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ زمین تو تین آدمی ہی کاشت کر سکتے ہیں:
ایک وہ جس کی اپنی زمین ہو، دوسرا وہ جسے بطور عطیہ یا عاریتاً ملی ہو، تیسرا وہ جس نے سونے چاندی کے عوض ٹھیکے پر لی ہو۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3400)
لیکن امام نسائی ؒ نے وضاحت کی ہے کہ مرفوع حدیث میں صرف محاقلہ اور مزابنہ کی ممانعت ہے، اس کے بعد والا مذکورہ کلام مدرج ہے اور انہوں نے اسے سعید بن مسیب کا کلام قرار دیا ہے۔
(سنن النسائي، البیوع، حدیث: 3921)
امام مالک نے بھی مؤطا میں اسے سعید بن مسیب کا کلام کہا ہے۔
(فتح الباري: 33/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2347   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2722  
2722. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: انصار مدینہ میں سے ہم لوگ سب سے زیادہ کھیتی باڑی کرنے والے تھے اور ہم زمین بٹائی پر دیتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ کھیت کے ایک حصے میں پیداوار ہوتی اور دوسرےمیں نہ ہوتی، اس لیے ہمیں اس سے منع کر دیا گیا لیکن نقدی کے عوض کرائے پر دینے سے منع نہیں کیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2722]
حدیث حاشیہ:
(1)
مزارعت میں یہ شرط منع ہے کہ فلاں ٹکڑے کی پیداوار ہم لیں گے اور دوسرے ٹکڑے کی پیداوار سے تم فائدہ اٹھاؤ کیونکہ اس میں دھوکے کا امکان ہے۔
شاید اس ٹکڑے میں پیداوار نہ ہو جو مزارع کو دیا گیا ہے۔
ایسی شرط جس کی رو سے زمین کے ایک حصے کی پیداوار مالک لے اور مزارع محروم رہے، ناجائز ہے۔
(2)
مزارعت کی دو صورتیں جائز ہیں:
ایک یہ کہ سونے چاندی یا روپے کے عوض اسے ٹھیکے پر دے دیا جائے۔
دوسرا یہ کہ نصف یا ثلث پیداوار پر کاشت کے لیے دی جائے کہ اس زمین سے جو بھی پیداوار ہو طے شدہ حصے کے مطابق اسے تقسیم کر لیا جائے گا۔
کسی خاص ٹکڑے کی پیداوار کا تعین نہ کیا جائے تو ایسا کرنا جائز ہے۔
جس شرط کے مطابق مالک اور مزارع میں سے کسی ایک کو نقصان اٹھانا پڑے وہ شرعاً جائز نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2722