مختصر صحيح مسلم
ہجرت اور غزوات بیان میں
غزوہ ذی قرد کا بیان۔
حدیث نمبر: 1177
سیدنا ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد (سیدنا سلمہ بن اکوع) رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں پہنچے اور ہم چودہ سو آدمی تھے (یہی مشہور روایت ہے اور ایک روایت میں تیرہ سو اور ایک روایت میں پندرہ سو ہیں) اور وہاں پچاس بکریاں تھیں جن کو کنوئیں کا پانی سیر نہ کر سکتا تھا (یعنی ایسا کم پانی تھا)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ کر یا تو دعا کی یا کنوئیں میں دہن مبارک ڈالا، تو وہ اسی وقت ابل آیا۔ پھر ہم نے خود بھی پانی پیا اور جانوروں کو بھی پانی پلایا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیعت کے لئے درخت کی جڑ میں بلایا۔ (اسی درخت کو شجرہ رضوان کہتے ہیں اور اسی درخت کا ذکر قرآن پاک میں ہے) میں نے سب سے پہلے لوگوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لیتے رہے، یہاں تک کہ آدھے آدمی بیعت کر چکے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سلمہ! بیعت کر۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں تو اول ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دوبارہ ہی سہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہتا (بے ہتھیار دیکھا) تو ایک بڑی سی ڈھال یا چھوٹی سی ڈھال دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لینے لگے، یہاں تک کہ لوگ ختم ہونے لگے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سلمہ! مجھ سے بیعت نہیں کرتا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اول لوگوں میں بیعت کر چکا ہوں پھر درمیان کے لوگوں میں بھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سہی۔ غرض میں نے تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سلمہ! تیری وہ بڑی یا چھوٹی ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا چچا عامر مجھے ملا اور وہ نہتا تھا، تو میں نے وہ اس کو دیدی۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیری مثال اس اگلے شخص کی سی ہے جس نے دعا کی تھی کہ اے اللہ! مجھے ایسا دوست دے جس کو میں اپنی جان سے زیادہ چاہوں۔ پھر مشرکوں نے صلح کے پیغام بھیجے، یہاں تک کہ ہر ایک طرف کے آدمی دوسری طرف جانے لگے اور ہم نے صلح کر لی۔ سلمہ نے کہا کہ میں طلحہ بن عبیداللہ کی خدمت میں تھا، ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا اسی کی پیٹھ کھجاتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا اور انہی کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ اور میں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے اپنا گھربار، دھن دولت سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ جب ہماری اور مکہ والوں کی صلح ہو گئی اور ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے ملنے لگا، تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے نیچے سے کانٹے صاف کئے اور جڑ کے پاس لیٹ گیا کہ اتنے میں مکہ کے چار آدمی مشرکوں میں سے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہنے لگے۔ مجھے غصہ آیا اور (مصلحت کی بناء پر) میں دوسرے درخت کے نیچے چلا گیا انہوں نے اپنے ہتھیار لٹکائے اور لیٹ رہے۔ وہ اسی حال میں تھے کہ یکایک وادی کے نشیب سے کسی نے آواز دی کہ دوڑو اے مہاجرین ابن زنیم (صحابی) مارے گئے۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنی تلوار سونتی اور ان چاروں آدمیوں پر حملہ کیا جو سو رہے تھے۔ ان کے ہتھیار میں نے لے لئے اور ایک گٹھا بنا کر ایک ہاتھ میں رکھے، پھر کہا کہ قسم اس کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دی، تم میں سے جس نے سر اٹھایا، میں اس کا وہ عضو کہ جس میں اس کی ہیں (یعنی سر) تن سے جدا کر دوں گا۔ پھر میں ان کو ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور میرا چچا عامر عبلات (جو کہ قریش کی ایک شاخ ہے) میں سے ایک شخص کو لایا جس کو مکرز کہتے تھے۔ وہ اس کو ایسے گھوڑے پر کھینچتا ہوا لایا جس پر جھول پڑی تھی مشرکین کے ستر آدمیوں کے ساتھ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ ان کو چھوڑ دو، مشرکوں کی طرف سے عہد شکنی شروع ہونے دو، پھر دوبارہ بھی انہی کی طرف سے ہونے دو (یعنی ہم اگر ان لوگوں کو ماریں تو صلح کے بعد ہماری طرف سے عہد شکنی ہو گی یہ مناسب نہیں پہلے کافروں کی طرف سے عہد شکنی ایک بار نہیں دو بار ہو تو ہمیں بدلہ لینا برا نہیں)۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو معاف کر دیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”اس اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے (لڑائی سے) روکا مکہ کی سرحد میں جب تم کو ان پر فتح دے چکا تھا....“ (پوری آیت)۔ (الفتح: 24) پھر ہم مدینہ کو لوٹے راستے میں ایک منزل پر اترے جہاں ہمارے اور بنی لحیان کے مشرکوں کے بیچ میں ایک پہاڑ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لئے دعا کی جو رات کو اس پہاڑ پر چڑھ جائے اور آپ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا کا پہرہ دے۔ میں رات کو اس پہاڑ پر دو یا تین بار چڑھا (اور پہرہ دیتا رہا) پھر ہم مدینہ میں پہنچے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنیاں اپنے غلام رباح کو دیں اور میں بھی اس کے ساتھ تھا اور میں اس کے ساتھ طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لئے ہوئے انہیں پانی پلانے کے لئے ندی پر لانے کے لئے نکلا۔ جب صبح ہوئی تو عبدالرحمن فزاری (مشرک) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا اور سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو مار ڈالا۔ میں نے کہا کہ اے رباح! تو یہ گھوڑا لے اور طلحہ کے پاس پہنچا دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر کہ کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں لوٹ لی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پھر میں ایک ٹیلہ پر کھڑا ہوا اور مدینہ کی طرف منہ کر کے میں نے تین بار آواز دی کہ یا صباحاہ، یا صباحاہ (یہ الفاظ حملہ کے وقت اپنے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لئے بولے جاتے تھے)۔ اس کے بعد میں ان لٹیروں کے پیچھے تیر مارتا اور رجز پڑھتا ہوا روانہ ہوا۔ (رجز یہ تھا) میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ پھر میں کسی کے قریب ہوتا اور ایک تیر اس کی کاٹھی میں مارتا جو (کاٹھی کو چیر کر) اس کے کاندھے تک پہنچ جاتا اور کہتا: یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ پھر اللہ کی قسم میں ان کو برابر تیر مارتا رہا اور زخمی کرتا رہا۔ جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا، تو میں درخت کے نیچے آ کر اس کی جڑ میں بیٹھ جاتا اور ایک تیر مار کر سوار یا گھوڑے کو زخمی کر دیتا تھا، یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے تنگ راستے میں گھسے، تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں سے پتھر مارنا شروع کر دیئے اور برابر ان کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ کوئی اونٹ جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کا تھا، نہ بچا جو میرے پیچھے نہ رہ گیا ہو اور لٹیروں نے اس کو نہ چھوڑ دیا ہو (تو سب اونٹ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے چھین لئے)۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں ان کے پیچھے تیر مارتا ہوا چلا، یہاں تک کہ انہوں نے تیس سے زیادہ چادریں اور نیزے اپنے آپ کو ہلکا کرنے کے لئے پھینک دیئے۔ اور جو چیز وہ پھینکتے اس پر میں پتھر کا ایک نشان رکھ دیتا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اس کو پہچان لیں (کہ یہ غنیمت کا مال ہے اور اسے اٹھا لیں)، یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی میں آئے اور وہاں ان کو بدر فزاری کا بیٹا ملا اور وہ سب دوپہر کا کھانا کھانے بیٹھے گئے۔ اور میں ایک چھوٹی ٹیکری کی چوٹی پر بیٹھ گیا۔ فزاری نے کہا کہ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولے کہ اس شخص نے تو ہمیں تنگ کر چھوڑا ہے۔ اللہ کی قسم اندھیری رات سے ہمارے ساتھ ہے، برابر تیر مارے جاتا ہے یہاں تک کہ جو کچھ ہمارے پاس تھا سب چھین لیا۔ فزاری نے کہا کہ تم میں سے چار آدمی اس کو جا کر مار لیں۔ یہ سن کر چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے، جب وہ اتنی دور آ گئے کہ میری بات سن سکیں، تو میں نے کہا کہ تم مجھے جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ میں سلمہ ہوں، اکوع کا بیٹا (اکوع ان کے دادا تھے لیکن اپنے آپ کو بوجہ شہرت کے دادا کی طرف منسوب کیا) قسم اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بزرگی دی کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں گا (تیر سے) مار ڈالوں گا اور تم میں سے کوئی مجھے نہیں مار سکتا۔ ان میں سے ایک شخص بولا کہ یہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ پھر وہ سب لوٹے اور میں وہاں سے چلا نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار نظر آئے جو درختوں میں گھس رہے تھے سب سے آگے سیدنا اخرم اسدی تھے۔ ان کے پیچھے سیدنا ابوقتادہ ان کے پیچھے مقداد بن اسود کندی رضی اللہ عنہ تھے نے سیدنا اخرم کے گھوڑے کی باگ تھام لی۔ یہ دیکھ کر وہ لٹیرے بھاگے۔ میں نے کہا کہ اے اخرم جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نہ آ جائیں تم ان سے بچے رہنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں مار ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ اے سلمہ! اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کا اور آخرت کے دن کا یقین ہے اور تو جانتا ہے کہ جنت اور جہنم حق ہیں، تو مجھ کو شہادت سے مت روک (یعنی بہت ہو گا تو یہی کہ میں ان لوگوں کے ہاتھ سے شہید ہوں گا تو اس سے بہتر کیا ہے؟) میں نے ان کو چھوڑ دیا ان کا مقابلہ عبدالرحمن فزاری سے ہوا۔ اخرم نے اس کے گھوڑے کو زخمی کیا اور عبدالرحمن نے برچھی سے اخرم کو شہید کر دیا۔ اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا کہ اتنے میں سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوار آن پہنچے اور انہوں نے عبدالرحمن کو برچھا مار کر قتل کر دیا۔ تو قسم اس کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بزرگی دی کہ میں ان کے پیچھے گیا۔ میں اپنے پاؤں سے ایسا دوڑ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی دکھلائی دیا نہ ان کا غبار، یہاں تک کہ وہ لٹیرے آفتاب ڈوبنے سے پہلے ایک گھاٹی میں پہنچے جہاں پانی تھا اور اس کا نام ذی قرد تھا۔ وہ پیاسے تھے اور پانی پینے کو اترے۔ پھر مجھے دیکھا کہ میں ان کے پیچھے دوڑتا چلا آتا تھا، تو آخر میں نے ان کو پانی پر سے ہٹا دیا کہ وہ ایک قطرہ بھی نہ پی سکے۔ اب وہ کسی گھاٹی کی طرف دوڑتے تو میں بھی دوڑا اور ان میں سے کسی کو پا کر ایک تیر اس کے شانے کی ہڈی میں مارا اور میں نے کہا کہ یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ وہ بولا اس کی ماں اس پر روئے (اللہ کرے اکوع کا بیٹا مرے) کیا وہی اکوع ہے جو صبح کو میرے ساتھ تھا؟ میں نے کہا کہ ہاں اے اپنی جان کے دشمن! وہی اکوع ہے جو صبح کو تیرے ساتھ تھا۔ سلمہ ابن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان لٹیروں کے دو گھوڑے (دوڑتے دوڑتے تھک گئے تو) انہوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ تو میں ان گھوڑوں کو ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک گھاٹی میں لایا۔ وہاں مجھے عامر رضی اللہ عنہ ملے۔ جن کے پاس ایک برتن میں دودھ اور ایک میں پانی تھا۔ میں نے وضو کیا اور اور دودھ پیا (اللہ اکبر! سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی ہمت کہ صبح سویرے سے دوڑتے دوڑتے رات ہو گئی گھوڑے تھک گئے، اونٹ تھک گئے، لوگ مر گئے مال رہ گئے لیکن سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نہ تھکے اور دن بھر میں کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا۔ یہ اللہ جل جلالہ کی خاص مدد تھی جو اس کی راہ میں ہمت و استقامت کے ساتھ چلنے والوں کو ملتی ہے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے اونٹ لے لئے ہیں اور وہ سب چیزیں (بھی) جو میں نے مشرکوں سے چھینی تھیں اور وہ نیزے اور چادریں۔ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ نحر (ذبح) کیا جو میں نے چھینے تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس کی تلی اور کوہان کا گوشت بھون رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے لشکر میں سے سو آدمی لینے کی اجازت دیجئیے میں ان لٹیروں کا پیچھا کرتا ہوں اور ان میں سے کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جو (اپنی قوم کو) جا کر خبر دے سکے یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں آگ کی روشنی میں ظاہر ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سلمہ تو یہ کر سکتا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بزرگی دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تو اب غطفان کی سرحد میں پہنچ گئے اور وہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔ اتنے میں غطفان میں سے ایک شخص آیا اور وہ بولا کہ فلاں شخص نے ان کے لئے ایک اونٹ کاٹا تھا اور وہ اس کی کھال نکال رہے تھے کہ اتنے میں ان کو گرد معلوم ہوئی، تو وہ کہنے لگے کہ لوگ آ گئے اور وہاں سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کے دن ہمارے سواروں میں بہتر ابوقتادہ (رضی اللہ عنہ) ہیں اور پیادوں (پیدل فوج) میں سب سے بڑھ کر سلمہ بن اکوع (رضی اللہ عنہ) ہیں۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو حصے دئیے ایک حصہ سوار کا اور ایک پیادے (پیدل) کا اور دونوں میرے لئے جمع کر دیئے۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو لوٹتے وقت مجھے اپنے ساتھ عضباء پر بٹھا لیا۔ ہم چل رہے تھے کہ ایک انصاری جو دوڑنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا تھا کہنے لگا کہ کوئی ہے جو مدینہ کو مجھ سے آگے دوڑ جائے اور باربار یہی کہتا تھا۔ جب میں نے اس کا کہنا سنا تو اس سے کہا کہ تو بزرگ کی بزرگی کا خیال نہیں کرتا۔ اور بزرگ سے نہیں ڈرتا؟ اس نے کہا نہیں البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی کرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں مجھے چھوڑ دیجئیے میں اس مرد سے دوڑ میں آگے بڑھوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اگر تیرا جی چاہے۔ تب میں نے کہا کہ میں تیری طرف آتا ہوں اور میں اپنا پاؤں ٹیڑھا کر کے کود پڑا پھر میں دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہ گئے تو میں نے اپنا سانس بحال کیا پھر اس کے پیچھے دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہ گئے تو پھر جو دوڑا تو اس سے مل گیا یہاں تک کہ میں نے اس کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک گھونسا مارا اور کہا کہ اللہ کی قسم اب میں آگے بڑھا۔ پھر اس سے آگے مدینہ کو پہنچا (تو معلوم ہوا کہ بغیر کسی لالچ و انعام کے مقابلہ بازی درست ہے اور انعام وغیرہ کی شکل میں اختلاف ہے۔ اکثر انعام وغیرہ کی شکل میں دھوکے بازی، سٹے بازی وغیرہ کا معمول بن چکا ہے) پھر اللہ کی قسم ہم صرف تین رات ٹھہرے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے اور میرے چچا عامر رضی اللہ عنہ نے رجز پڑھنا شروع کیا۔ ”اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے اور ہم تیرے فضل سے بےپرواہ نہیں ہوئے تو ہمارے پاؤں کو جمائے رکھ اگر ہم کافروں سے ملیں اور اپنی رحمت اور تسکین ہمارے اوپر اتار“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ عامر رضی اللہ عنہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو بخشے۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لئے خاص طور پر استغفار کرتے، تو وہ ضرور شہید ہوتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پکارا اور وہ اپنے اونٹ پر تھے کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عامر سے فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا؟ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر جب ہم خیبر میں آئے تو اس کا بادشاہ مرحب تلوار لہراتا ہوا نکلا اور یہ رجز پڑھ رہا تھا کہ ”خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، پورا ہتھیار بند بہادر، آزمودہ کار، جب لڑائیاں شعلے اڑاتی ہوئی آئیں“ یہ سن کر میرے چچا عامر اس سے مقابلے کو نکلے اور انہوں نے یہ رجز پڑھا کہ ”میں عامر ہوں پورا ہتھیار بند، لڑائی میں گھسنے والا“ پھر دونوں کا ایک ایک وار ہوا تو مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کی ڈھال پر پڑی اور عامر رضی اللہ عنہ نے نیچے سے وار کرنا چاہا تو ان کی تلوار انہی کو آ لگی اور شہ رگ کٹ گئی اور وہ اسی سے شہید ہو گئے۔ سلمہ نے کہا کہ پھر میں نکلا اور اصحاب رسول کو دیکھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ عامر کا عمل لغو ہو گیا اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا۔ یہ سن کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتا ہوا آیا اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! عامر کا عمل لغو ہو گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون کہتا ہے؟ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب کہتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کہا جھوٹ کہا۔ نہیں! بلکہ اس کو دوہرا ثواب ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے یا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اس کو دوست رکھتے ہیں (ابن ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں پر فتح دے گا اور وہ بھاگنے والا نہیں ہے)۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان کو کھینچتا ہوا لایا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا اور وہ اسی وقت ٹھیک ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جھنڈا دیا۔ مرحب وہی رجز پڑھتے ہوئے ”خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، پورا ہتھیار بند، بہادر، آزمودہ کار، جب لڑائیاں شعلے اڑاتی ہوئی آئیں“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں کہا کہ ”میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا، مثل اس شیر کے جو جنگلوں میں ہوتا ہے، نہایت ڈراؤنی صورت (کہ اس کے دیکھنے سے خوف پیدا ہو) میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلے سندرہ دیتا ہوں (سندرہ صاع سے بڑا پیمانہ ہے یعنی وہ تو میرے اوپر ایک خفیف حملہ کرتے ہیں اور میں ان کا کام ہی تمام کر دیتا ہوں)“ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی اور اسے جہنم رسید کر دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر فتح دی۔