صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
10. بَابُ فَضْلُ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا:
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3989
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ حَلِيفُ بَنِي زُهْرَةَ , وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةً عَيْنًا , وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْهَدَةِ بَيْنَ عَسْفَانَ وَمَكَّةَ ذُكِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ، يُقَالُ لَهُمْ: بَنُو لِحْيَانَ فَنَفَرُوا لَهُمْ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ رَجُلٍ رَامٍ , فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمُ التَّمْرَ فِي مَنْزِلٍ نَزَلُوهُ، فَقَالُوا: تَمْرُ يَثْرِبَ فَاتَّبَعُوا آثَارَهُمْ , فَلَمَّا حَسَّ بِهِمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى مَوْضِعٍ فَأَحَاطَ بِهِمُ الْقَوْمُ، فَقَالُوا لَهُمْ: انْزِلُوا فَأَعْطُوا بِأَيْدِيكُمْ وَلَكُمُ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْكُمْ أَحَدًا، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ: أَيُّهَا الْقَوْمُ أَمَّا أَنَا فَلَا أَنْزِلُ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ , فَقَتَلُوا عَاصِمًا وَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ عَلَى الْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ , وَزَيْدُ بْنُ الدَّثِنَةِ وَرَجُلٌ آخَرُ , فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَرَبَطُوهُمْ بِهَا، قَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ: هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ , وَاللَّهِ لَا أَصْحَبُكُمْ إِنَّ لِي بِهَؤُلَاءِ أُسْوَةً يُرِيدُ الْقَتْلَى فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ , فَأَبَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَانْطُلِقَ بِخُبَيْبٍ , وَزَيْدِ بْنِ الدَّثِنَةِ حَتَّى بَاعُوهُمَا بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَابْتَاعَ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ خُبَيْبًا وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا حَتَّى أَجْمَعُوا قَتْلَهُ , فَاسْتَعَارَ مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ مُوسًى يَسْتَحِدُّ بِهَا , فَأَعَارَتْهُ فَدَرَجَ بُنَيٌّ لَهَا وَهِيَ غَافِلَةٌ حَتَّى أَتَاهُ , فَوَجَدَتْهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالْمُوسَى بِيَدِهِ، قَالَتْ: فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ، فَقَالَ: أَتَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ , وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ فِي يَدِهِ وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ بِالْحَدِيدِ , وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرَةٍ , وَكَانَتْ تَقُولُ إِنَّهُ لَرِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ خُبَيْبًا , فَلَمَّا خَرَجُوا بِهِ مِنَ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ، قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ: دَعُونِي أُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ , فَتَرَكُوهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ تَحْسِبُوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَزِدْتُ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا , وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْهُمْ أَحَدًا" , ثُمَّ أَنْشَأَ يَقُولُ: فَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ جَنْبٍ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ أَبُو سِرْوَعَةَ عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَهُ، وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ لِكُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصَّلَاةَ , وَأَخْبَرَ أَصْحَابَهُ يَوْمَ أُصِيبُوا خَبَرَهُمْ , وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَى عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ أَنْ يُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْهُ يُعْرَفُ , وَكَانَ قَتَلَ رَجُلًا عَظِيمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ , فَبَعَثَ اللَّهُ لِعَاصِمٍ مِثْلَ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ فَحَمَتْهُ مِنْ رُسُلِهِمْ، فَلَمْ يَقْدِرُوا أَنْ يَقْطَعُوا مِنْهُ شَيْئًا، وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: ذَكَرُوا مَرَارَةَ بْنَ الرَّبِيعِ الْعَمْرِيَّ وَهِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيَّ رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، انہیں ابن شہاب نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمر بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی جو بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں شامل تھے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس جاسوس بھیجے اور ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا جو عاصم بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نانا ہوتے ہیں۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان مقام ہدہ پر پہنچے تو بنی ہذیل کے ایک قبیلہ کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی۔ اس قبیلہ کا نام بنی لحیان تھا۔ اس کے سو تیرانداز ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی تلاش میں نکلے اور ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے۔ آخر اس جگہ پہنچ گئے جہاں بیٹھ کر ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے کھجور کھائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ یثرب (مدینہ) کی کھجور (کی گٹھلیاں) ہیں۔ اب پھر وہ ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے۔ جب عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ان کے آنے کو معلوم کر لیا تو ایک (محفوظ) جگہ پناہ لی۔ قبیلہ والوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہا کہ نیچے اتر آؤ اور ہماری پناہ خود قبول کر لو تو تم سے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے کسی آدمی کو بھی ہم قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا۔ مسلمانو! میں کسی کافر کی پناہ میں نہیں اتر سکتا۔ پھر انہوں نے دعا کی، اے اللہ! ہمارے حالات کی خبر اپنے نبی کو کر دے آخر قبیلہ والوں نے مسلمانوں پر تیر اندازی کی اور عاصم رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ بعد میں ان کے وعدہ پر تین صحابہ اتر آئے۔ یہ حضرات خبیب، زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابی تھے۔ قبیلہ والوں نے جب ان تینوں صحابیوں پر قابو پا لیا تو ان کی کمان سے تانت نکال کر اسی سے انہیں باندھ دیا۔ تیسرے صحابی نے کہا، یہ تمہاری پہلی دغا بازی ہے میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جا سکتا۔ میرے لیے تو انہیں کی زندگی نمونہ ہے۔ آپ کا اشارہ ان صحابہ کی طرف تھا جو ابھی شہید کئے جا چکے تھے۔ کفار نے انہیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے۔ (تو انہوں نے ان کو بھی شہید کر دیا) اور خبیب رضی اللہ عنہ اور زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے گئے اور (مکہ میں لے جا کر) انہیں بیچ دیا۔ یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے خبیب رضی اللہ کو خرید لیا۔ انہوں ہی نے بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو وہ ان کے یہاں قید رہے آخر انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا۔ انہیں دنوں حارث کی کسی لڑکی سے انہوں نے زیر ناف بال صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا۔ اس نے دے دیا۔ اس وقت اس کا ایک چھوٹا سا بچہ ان کے پاس (کھیلتا ہوا) اس عورت کی بےخبری میں چلا گیا۔ پھر جب وہ ان کی طرف آئی تو دیکھا کہ بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے۔ اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے انہوں نے بیان کیا کہ یہ دیکھتے ہی وہ اس درجہ گھبرا گئی کہ خبیب رضی اللہ عنہ نے اس کی گھبراہٹ کو دیکھ لیا اور بولے، کیا تمہیں اس کا خوف ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ یقین رکھو کہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ ان خاتون نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی قیدی خبیب رضی اللہ عنہ سے بہتر نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن انگور کے ایک خوشہ سے انہیں انگور کھاتے دیکھا جو ان کے ہاتھ میں تھا حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں اس وقت کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی روزی تھی جو اس نے خبیب رضی اللہ عنہ کے لیے بھیجی تھی۔ پھر بنو حارثہ انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے جانے لگے تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دے دو۔ انہوں نے اس کی اجازت دی تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تمہیں یہ خیال نہ ہونے لگتا کہ مجھے گھبراہٹ ہے (موت سے) تو اور زیادہ دیر تک پڑھتا۔ پھر انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ اور یہ اشعار پڑھے ”جب میں اسلام پر قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا اور یہ تو صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو میرے جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے گا۔“ اس کے بعد ابوسروعہ عقبہ بن حارث ان کی طرف بڑھا اور اس نے انہیں شہید کر دیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل حسن سے ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے (قتل سے پہلے دو رکعت) نماز کی سنت قائم کی ہے۔ ادھر جس دن ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر مصیبت آئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسی دن اس کی خبر دے دی تھی۔ قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے ہیں تو ان کے پاس اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کوئی ایسا حصہ لائیں جس سے انہیں پہچانا جا سکے۔ کیونکہ انہوں نے بھی (بدر میں) ان کے ایک سردار (عقبہ بن ابی معیط) کو قتل کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی لاش پر بادل کی طرح بھڑوں کی ایک فوج بھیج دی اور انہوں نے آپ کی لاش کو کفار قریش کے ان آدمیوں سے بچا لیا اور وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نہ کاٹ سکے اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے سامنے لوگوں نے مرارہ بن ربیع عمری رضی اللہ عنہ اور ہلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا۔ (جو غزوہ تبوک میں نہیں جا سکے تھے) کہ وہ صالح صحابیوں میں سے ہیں اور بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3989 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3989
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث میں جن دس آ دمیوں کا ذکر ہے، ان میں سات کے نام یہ ہیں۔
مر ثد غنوی، خالد بن بکیر، خبیب بن عدی، زید بن دثنہ، عبد اللہ بن طارق، معتب بن عبید ؓ ان کے امیر عاصم بن ثابت ؓ تھے۔
باقی تینوں کے نام مذکور نہیں ہیں۔
راستے میں کفار بنو لحیان ان کے پیچھے لگ گئے۔
آخر ان کو پالیا اور ان میں سے سردار سمیت سات مسلمانوں کو ان کافروں نے شہید کر دیا اور تین مسلمانوں کو گرفتار کر لیا، جن کے نام یہ ہیں، خبیب بن عدی، زید بن دثنہ اور عبد اللہ بن طارق ؓ۔
راستے میں حضرت حضرت عبد اللہ کو بھی شہید کر دیا اور پچھلے دو کو مکہ میں لے جاکر غلام بناکر فروخت کر دیا۔
زید بن دثنہ ؓ کو صفوان بن امیہ نے خریدا اور حضرت خبیب ؓ کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے۔
خبیب ؓ نے بدر کے دن حارث مذکور کو قتل کیا تھا۔
اب ا س کے بیٹوں نے مفت میں بدلہ لینے کی غرض سے حضرت خبیب ؓ کو خرید لیا اورپر حرمت کے مہینے کو گزار کر ان کو شہید کرڈالنے کا فیصلہ کر لیا ان ایام میں حضرت خبیب ؓ کے کرامات کو ان لوگوں نے دیکھا کہ بے موسم کے پھل اللہ تعالی غیب سے ان کو کھلا رہا ہے جیسے حضرت مریم ؑ کو بے موسم کے پھل ملا کرتے تھے۔
آخری دنوں میں شہادت کی تیاری کے واسطے صفائی ستھرائی حاصل کرنے کے لیے حضرت خبیب ؓ نے ان کی ایک لڑکی سے استرہ مانگا مگر جب کہ ان کا ایک شیر خوار بچہ حضرت خبیب ؓ کے پاس جاکر کھیلنے لگا تو اس عورت کو خطرہ ہوا کہ شاید خبیب ؓ اس استرہ سے اس معصوم بچے کو ذبح نہ کر ڈالیں جس پر حضرت خبیب ؓ نے خود بڑھ کر اس عورت کو اطمینان دلایا کہ ایک سچے مسلمان سے ایسا قتل ناحق ہو نانا ممکن ہے۔
آ خر میں دو رکعت نماز کے بعد جب ان کو قتل گاہ میں لایا گیا تو انہوں نے یہ اشعار پڑھے جنکا یہاں ذکر موجود ہے۔
حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے ان شعروں کا شعروں ہی میں ترجمہ کیا ہے۔
جب مسلماں ہو کے دنیا سے چلوں مجھ کو کیا غم کون سی کرو ٹ گروں میر ا مر نا ہے خدا کی ذات میں وہ اگر چا ہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جا ئے گا اس کے جوڑوں پر وہ برکت دے فزوںبیہقی نے روایت کی ہے کہ خبیب ؓ نے مرتے وقت دعا کی تھی کہ یا اللہ! ہما رے حال کی خبر اپنے حبیب ﷺ کو پہنچا دے۔
اسی وقت حضرت جبرئیل ؑ آ نحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے اور سارے حالات کی خبر دے دی۔
روایت کے آ خر میں دو بدری صحابیوں کا ذکر ہے جس سے دمیا طی کا رد ہوا۔
جس نے ان ہردو کے بدری ہونے کا انکار کیا ہے۔
اثبات نفی پر مقدم ہے۔
یہ مضمون ایک حدیث کا ٹکڑا ہے جسے حضرت امام بخاری ؒ نے غزوئہ تبوک میں ذکر کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3989
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3989
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے جن دس آدمیوں کو بطور جاسوس بھیجا ان میں سے سات کے نام یہ ہیں:
مرثد بن ابو مرثد غنوی، خالد بن بکیر، معتب بن عبید خبیب بن عدی زید بن دثنہ عبد اللہ بن طارق اور ان کے امیر حضرت عاصم بن ثابت ؓ باقی تین حضرات کے نام معلوم نہیں ہو سکے۔
شاید وہ ان کے خدمت گزار ہوں گے، اس لیے ان ناموں کے متعلق توجہ نہیں دی گئی۔
(فتح الباري: 445/7)
ان میں سے سات تو وہیں شہید ہو گئے اور باقی دو مکہ مکرمہ میں فروخت کردیا گیا۔
زید بن دثنہ کو صفوان بن امیہ نے خرید ااوراپنے باپ کے بدلے میں انھیں شہید کیا اور حضرت خبیب ؓ کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا کیونکہ ان کے باپ حارث کو حضرت خبیب ؓ نے بدر کے دن قتل کیا تھا انھوں نے اپنے باپ کے بدلے میں انھیں شہید کیا۔
(فتح الباري: 447/7)
2۔
چونکہ امام بخاری ؒ کا مقصد شہدائے بدر کے فضائل بیان کرنا ہے اور اس روایت میں ہے کہ حضرت عاصم ؓ نے قریش کے بڑے سرداروں میں سے ایک سردار کو قتل کیا تھا، اس لیے کفار قریش نے ان سے انتقام لیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں محفوظ رکھا۔
ایک روایت میں صراحت ہے کہ بدر کے دن ایک بڑے سردار کوقتل کیا تھا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4086)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے عقبہ بن ابی معیط کو گرفتا رکر کے قتل کیا تھا۔
(فتح الباري: 387/7)
3۔
حدیث کے آخر میں حضرت کعب بن مالک ؓ کا ذکر خیر ہے اگرچہ اس حصے کا حضرت خبیب ؓ کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں تاہم حدیث کے اس حصے سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت مرارہ اور حضرت بلال ؓ بدری صحابی نہیں۔
سب سے پہلے جس نے انکار کیا وہ امام احمد بن حنبل ؒ کے شاگرد حضرت اثرم ہیں۔
حافظ ابن قیم ؒ نے بھی اس بنا پر انکار کیا ہے کہ اگر یہ دونوں بدری صحابی ہوتے تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کی طرح ان سے چشم پوشی کی جاتی لیکن یہ نص کے مقابلے میں قیاس کو پیش کرنا ہے بہرحال اس حدیث میں صراحت ہے کہ وہ نیک اور بزرگ آدمی تھےجنھوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی تھی۔
اس سے ان کی مدح اور منقبت مقصود ہے۔
(فتح الباري: 388/7)
حضرت خبیب ؓ کے متعلق دیگر تفصیلات ہم آئندہ بیان کریں گے۔
ان شاء اللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3989