Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
10. بَابُ فَضْلُ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا:
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3988
حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ:" إِنِّي لَفِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ إِذْ الْتَفَتُّ , فَإِذَا عَنْ يَمِينِي وَعَنْ يَسَارِي فَتَيَانِ حَدِيثَا السِّنِّ , فَكَأَنِّي لَمْ آمَنْ بِمَكَانِهِمَا إِذْ، قَالَ لِي: أَحَدُهُمَا سِرًّا مِنْ صَاحِبِهِ يَا عَمِّ أَرِنِي أَبَا جَهْلٍ، فَقُلْتُ: يَا ابْنَ أَخِي وَمَا تَصْنَعُ بِهِ، قَالَ: عَاهَدْتُ اللَّهَ إِنْ رَأَيْتُهُ أَنْ أَقْتُلَهُ أَوْ أَمُوتَ دُونَهُ، فَقَالَ لِي: الْآخَرُ سِرًّا مِنْ صَاحِبِهِ مِثْلَهُ، قَالَ: فَمَا سَرَّنِي أَنِّي بَيْنَ رَجُلَيْنِ مَكَانَهُمَا , فَأَشَرْتُ لَهُمَا إِلَيْهِ فَشَدَّا عَلَيْهِ مِثْلَ الصَّقْرَيْنِ حَتَّى ضَرَبَاهُ وَهُمَا ابْنَا عَفْرَاءَ".
مجھ سے یعقوب نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان کے دادا سے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا بدر کی لڑائی کے موقع پر میں صف میں کھڑا ہوا تھا۔ میں نے مڑ کے دیکھا تو میری داہنی اور بائیں طرف دو نوجوان کھڑے تھے۔ ابھی میں ان کے متعلق کوئی فیصلہ بھی نہ کر پایا تھا کہ ایک نے مجھ سے چپکے سے پوچھا تاکہ اس کا ساتھی سننے نہ پائے۔ چچا! مجھے ابوجہل کو دکھا دو۔ میں نے کہا بھتیجے! تم اسے دیکھ کر کیا کرو گے؟ اس نے کہا، میں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ عہد کیا ہے کہ اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو یا اسے قتل کر کے رہوں گا یا پھر خود اپنی جان دے دوں گا۔ دوسرے نوجوان نے بھی اپنے ساتھی سے چھپاتے ہوئے مجھ سے یہی بات پوچھی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ان دونوں نوجوانوں کے درمیان میں کھڑے ہو کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے اشارے سے انہیں ابوجہل دکھا دیا۔ جسے دیکھتے ہی وہ دونوں باز کی طرح اس پر جھپٹے اور فوراً ہی اسے مار گرایا۔ یہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3988 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3988  
حدیث حاشیہ:
بعض روایتوں میں ہے کہ یہ دونوں معاذبن عفراءاور معوذ بن عفراء بن جموح تھے۔
معاذ اوور معوذ کی والدہ کا نام عفراء تھا۔
ان کے باپ کا نام حارث بن رفاعہ تھا۔
ان لڑ کوں نے پہلے ہی یہ عہد کیا تھا کہ ابو جہل ہمارے رسول کریم ﷺکو گالیاں دیتا ہے ہم اس کو ختم کر کے ہی رہیں گے۔
اللہ نے ان کا عزم پورا کر دکھایا۔
وہ ابو جہل کو معلوم کر کے اس پر ایسے لپکے جیسے شکرہ پرندہ چڑیا پر لپکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3988   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3988  
حدیث حاشیہ:

ان دونوں بچوں کا نام معاذ اور معوذتھا، انھوں نے پہلے ہی یہ عہد کیا تھا کہ ابو جہل ہمارے رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے، اس لیے ہم اسے ختم کر کے ہی رہیں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے عزم کو پورا کر دیا لیکن حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے خیال کیا کہ یہ دونوں کمسن بچے ہیں جو بوقت ضرورت مجھے دشمن سے نہیں بچا سکیں گے۔

بعض حضرات نے یہ معنی کیے ہیں کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف انھیں پہچانتے نہیں تھے ڈر پیدا ہوا کہ شاید وہ دشمن ہیں لیکن یہ معنی صحیح معلوم نہیں ہوتے کیونکہ دشمن اس طرح کھڑا نہیں ہوتا پہلے معنی ہی صحیح ہیں کہ نو خیز ہونے کی وجہ سے انھیں تردو ہوا کہ اگر یہ دونوں بھاگ کھڑے ہوئے تو میں اکیلا رہ جاؤں گا یا دشمن کے حملےکے وقت میرا دفاع نہیں کر سکیں گے جیسا کہ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ کو خیال پیدا ہوا میری دونوں طرف دو بچے ہیں، اس لیے دشمن مجھ پر حملہ کردے گا اور یہ دونوں میرا دفاع نہیں کر سکیں گے۔
(صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3141 و فتح الباري: 385/7)

ان دونوں بچوں کو باز سے تشبیہ ی کیونکہ اس میں وصف شجاعت اور شکار کو جھپٹ لینا جاتا ہے، اسی طرح یہ دونوں ابو جہل پر جھپٹ پڑے حتی کہ اسے ہلاک کردیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3988