صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
8. بَابُ قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ:
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
حدیث نمبر: 3968
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" يُقْسِمُ لَنَزَلَتْ هَؤُلَاءِ الْآيَاتُ فِي هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ السِّتَّةِ يَوْمَ بَدْرٍ" نَحْوَهُ.
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں سفیان نے، انہیں ابوہاشم نے، انہیں ابومجلز نے، انہیں قیس بن عباد نے اور انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ قسمیہ بیان کرتے تھے کہ یہ آیت ( «هذان خصمان اختصموا في ربهم») انہیں چھ آدمیوں کے بارے میں، بدر کی لڑائی کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ پہلی حدیث کی طرح راوی نے اسے بھی بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3968 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3968
حدیث حاشیہ:
ان روایات میں حضرت ابوذرؓ راوی کا نام باربار آیا ہے۔
یہ مشہور صحابی ابوذر غفاری ؓ ہیں جن کا نام جندب اور لقب مسیح الاسلام ہے۔
قبیلہ غفار سے ہیں۔
یہ عہد جاہلیت ہی میں موحد تھے۔
اسلام لانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے۔
آنحضرت ﷺ کی خبر لینے کے لیے انہوں نے اپنے بھائی کوبھیجا تھا۔
بعد میں خود گئے اور بڑی مشکلات کے بعد دربار رسالت میں باریابی ہوئی۔
تفصیل سے ان کے حالات پیچھے بیان کئے جا چکے ہیں۔
31ھ میں بمقام ربذہ ان کاانتقال ہوا، جہاں یہ تنہا رہا کرتے تھے۔
جب یہ قریب المرگ ہوئے تو ان کی زوجہ محترمہ رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ آپ ایک صحرا میں اس حالت میں سفر آخرت کررہے ہیں کہ آپ کے کفن کے لیے یہاں کوئی کپڑا بھی نہیں ہے۔
فرمایا، رونا موقوف کرو اور سنو! رسول کریم ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میں صحرا میں انتقال کروں گا۔
میری موت کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت صحرا میں میرے پاس پہنچ جائے گی۔
لہذا تم راستے پر کھڑی ہو کر اب اس جماعت کا انتظار کرو۔
یہ غیبی امداد حسب ارشاد نبوی ﷺ ضرور آرہی ہوگی۔
چنانچہ ان کی اہلیہ صاحبہ ؓ گزرگاہ پر کھڑی ہوگئیں۔
تھوڑے ہی انتظار کے بعد دور سے کچھ سوار آتے دکھائی دیئے۔
انہوں نے اشارہ کیا وہ ٹھہر گئے اور معلوم ہونے پر یہ سب حضرت ابوذر ؓ کی عیادت کو گئے جن کو دیکھ کر حضرت ابوذر ؓ کو بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے ان کو حضور ﷺ کی مذکورہ بالا پیش گوئی سنائی، پھر وصیت کی کہ اگر میری بیوی کے پاس میرے کفن کے لیے کپڑا نکلے تو اسی کپڑے میں مجھ کو کفنانا اورقسم دلائی کی تم میں جو شخص حکومت کا ادنی عہدیدار بھی ہو وہ مجھ کونہ کفنائے۔
چنانچہ اس جماعت میں صرف ایک انصاری نوجوان ایسا ہی نکلا اور وہ بولا کہ چچا جان! میرے پاس ایک چادر ہے اس کے علاوہ دوکپڑے اور ہیں جو خاص میری والدہ کے ہاتھ کے کتے ہوئے ہیں۔
ان ہی میں آپ کو کفناؤں گا۔
حضرت ابوذر ؓ نے خوش ہو کرفرمایا کہ ہاں تم ہی مجھ کو ان ہی کپڑوں میں کفن پہنانا۔
اس وصیت کے بعد ان کی روح پاک عالم بالا کو پرواز کر گئی۔
اس جماعت صحابہ ؓ نے ان کو کفنایا دفنایا۔
کفن اس انصاری نوجوان نے پہنایا اور جنازہ کی نماز حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے پڑھائی۔
پھر سب نے مل کر اس صحرا کے ایک گوشہ میں ان کو سپر خاد کردیا۔
رضي اللہ عنهم (مستدرك حاکم، ج: 3، ص: 346)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3968
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3968
حدیث حاشیہ:
پہلے لڑائی کا یہ قاعدہ ہوتا تھا کہ ایک آدمی میدان میں نکلتا اور فریق مخالف کو للکار تا ہواکہتا:
کوئی ہے مقابلہ کرنے والا۔
پھر دوسرے فریق کی طرف سے ایک آدمی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سامنے آتا۔
اسے مبارزت کہتے ہیں۔
ان کے درمیان مقابلہ ہوتا، باقی صفیں تماشائی کے طور پردیکھتی رہتیں۔
کبھی تو اسی پر فیصلہ ہوجاتا کبھی ہلہ بول دیا جاتا۔
قریش مکہ نے بھی ایسا ہی کیا۔
ان کی طرف سے تین شخص میدان میں نکلے:
عتبہ، شیبہ، اورولید کہنے لگے:
اے محمد ﷺ! ہم سے لڑنے کے لیے کسی کو میدان میں بھیجیں۔
ادھر سے انصار کی طرف سے تین نوجوان نکلے تو انہوں نے کہا:
ہم تم سے لڑنا نہیں چاہتے۔
ہم تو اپنی برادری، یعنی قریشیوں سے لڑنا چاہتے ہیں۔
اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اے حمزہ ؓ!اٹھو، اے علی ؓ! تم بھی میدان میں اترو اور اے عبیدہؓ! تم بھی مقابلے کے لیے آجاؤ۔
“ حضرت حمزہ ؓ شیبہ کے مقابلے میں اورحضرت علی ؓ ولید کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔
حمزہ ؓ نے شیبہ کو پہلے ہی وار میں قتل کردیا اور حضرت علی ؓ نے بھی اپنے مدمقابل ولید بن عتبہ کو جھٹ مارلیا، لیکن حضرت عبیدہؓ اور ان کے مدمقابل عتبہ بن ربیعہ کے درمیان ایک ایک وار کا مقابلہ ہوا اور دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے پر گہرا زخم لگایا۔
اتنے میں حضرت علی ؓ اور حضرت حمزہ ؓ اپنے اپنے شکار سے فارغ ہوکر آگئے، آتے ہی عتبہ پر ٹوٹ پڑے اور اس کا کام تمام کردیا اور حضرت عبیدہ ؓ کو اٹھا لائے۔
ان کا پاؤں کٹ گیا تھا اور جنگ سے واپسی پر وادی صفراء میں ان کا انتقال ہوگیا۔
(فتح الباري: 372/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3968