مختصر صحيح مسلم
حج کے مسائل
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا بیان۔
حدیث نمبر: 707
جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر گئے تو انہوں نے سب لوگوں کا (حال) پوچھا یہاں تک کہ جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ میں محمد بن علی ہوں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا پوتا تو انہوں نے میری طرف (شفقت سے) ہاتھ بڑھایا اور میرے سر پر ہاتھ رکھا اور میرے اوپر کا بٹن کھولا، پھر نیچے کا بٹن کھولا (یعنی شلوکے وغیرہ کے) اور پھر اپنی ہتھیلی میرے سینے پر دونوں چھاتیوں کے درمیان میں رکھی، میں ان دنوں نوجوان لڑکا تھا۔ پھر کہا کہ شاباش خوش آمدید، اے میرے بھتیجے! مجھ سے جو چاہو پوچھو پھر میں نے ان سے پوچھا اور وہ نہ نابینا تھے اور اتنے میں نماز کا وقت آ گیا تو وہ ایک چادر اوڑھ کر کھڑے ہوئے کہ جب اس کے دونوں کناروں کو دونوں کندھوں پر رکھتے تھے تو وہ اس چادر کے چھوٹے ہونے کے سبب سے نیچے گر جاتے تھے اور ان کی بڑی چادر ایک طرف تپائی پر رکھی ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی (یعنی امامت کی) پھر میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں خبر دیجئیے (یعنی حجۃ الوداع سے) تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے نو 9 کا اشارہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو برس تک مدینہ منورہ میں رہے اور حج نہیں کیا پھر لوگوں میں دسویں سال اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو جانے والے ہیں تو مدینہ میں بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی چاہتے تھے اور ویسا ہی کام کریں (حج کرنے میں) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کریں۔ غرض ہم لوگ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ذوالحلیفہ پہنچے تو وہاں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو جنا۔ اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلا بھیجا کہ (نفاس کی حالت میں) اب کیا کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غسل کر کے ایک کپڑے کا لنگوٹ باندھ کر احرام باندھ لو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں دو رکعت پڑھیں اور قصوا اونٹنی پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر سیدھی ہوئی (مقام) بیداء پر تو میں نے آگے کی طرف دیکھا کہ جہاں تک میری نظر گئی سوار اور پیدل لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے اور اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف اور پیچھے بھی لوگوں کی ایسی ہی بھیڑ تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف اترتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کی حقیقت کو خوب جانتے تھے۔ اور جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہی ہم نے بھی کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے ساتھ لبیک پکاری اور لوگوں نے بھی وہی لبیک پکاری جو اب لوگ پکارتے ہیں (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لبیک میں کچھ لفظ بڑھا کر پکارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روکا نہیں) اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل لبیک ہی پکارتے ہی رہے۔ اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم حج کے سوا اور کچھ ارادہ نہیں رکھتے اور عمرہ کو پہچانتے ہی نہ تھے بلکہ ایام حج میں عمرہ بجا لانا ایام جاہلیت سے برا جانتے تھے یہاں تک کہ جب ہم بیت اللہ میں آپ کے ساتھ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکن (یعنی حجراسود) کو چھوا اور طواف میں تین بار رمل کیا (یعنی اچھل اچھل کر چھوٹے چھوٹے ڈگ رکھ کر اور شانے اچھال اچھال کر چلے) اور چار بار عادت کے موافق چلتے ہوئے طواف پورا کیا۔ پھر مقام ابراہیم پر آئے اور یہ آیت پڑھی کہ ”مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ مقرر کرو“ اور مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان میں کیا پھر میرے باپ کہتے تھے اور میں نہیں جانتا کہ انہوں نے ذکر کیا ہو (اپنی طرف سے) مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ذکر کیا ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور ان میں سورۃ ”اخلاص“ اور سورۃ ”کافرون“ پڑھیں۔ پھر حجراسود کے پاس لوٹ کر گئے اور اس کو بوسہ دیا اور اس دروازہ سے نکلے جو صفا کی طرف ہے پھر جب صفا کے قریب پہنچے (صفا ایک پہاڑی کا نام ہے جو کعبہ کے دروازے سے بیس پچیس قدم پر ہے) تو یہ آیت پڑھی کہ ”صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم شروع کرتے ہیں جس سے اللہ نے شروع کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پر چڑھے، یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھا اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی بڑائی بیان کی (یعنی لا الٰہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہا) اور کہا کہ ”کوئی معبود لائق عبادت نہیں سوا اللہ تعالیٰ کے وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا (یعنی دین کے پھیلانے کا او اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کا) اور اس نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد کی اور اس اکیلے نے سب لشکروں کو شکت دی پھر اس کے بعد دعا کی، پھر ایسا ہی کہا، پھر دعا کی۔ غرض تین بار ایسا ہی کیا۔ پھر اترے اور مروہ کی طرف چلے، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم میدان کے بیچ میں اترے تو دوڑے یہاں تک کہ مروہ پر پہنچے۔ مروہ پر بھی ویسا ہی کیا جیسے کہ صفا پر کیا تھا یعنی وہ کلمات کہے اور قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعا کی یہاں تک کہ جب مروہ پر آخری چکر مکمل ہو گیا (یعنی سات چکر ہو چکے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے پہلے سے اپنا کام معلوم ہوتا جو بعد میں معلوم ہوا تو میں قربانی ساتھ نہ لاتا (اور مکہ ہی میں خرید لیتا) اور اپنے اس احرام حج کو عمرہ کر ڈالتا۔ پس تم میں سے جس کے ساتھ قربانی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے (یعنی طواف و سعی ہو چکی اور عمرہ کے افعال پورے ہو گئے) اور اس کو عمرہ کر لے۔ (یہ سن کر) سراقہ بن جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ حج کو عمرہ کر ڈالنا ہمارے اسی سال کے لئے خاص ہے یا ہمیشہ کے لئے اس کی اجازت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں ڈالیں اور دو مرتبہ فرمایا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اجازت ہے۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لے کر آئے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ ان میں سے ہیں جنہوں نے احرام کھول ڈالا تھا اور وہ رنگین کپڑے پہنے ہوئی تھیں اور سرمہ لگائے ہوئے تھیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے برا مانا تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ راوی نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ عراق میں کہتے تھے کہ میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر اس احرام کے کھولنے کے سبب سے غصہ کرتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے اس کو برا جانا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا (یعنی میں نے ہی ان کو احرام کھولنے کا حکم دیا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے حج کا ارادہ کرتے ہوئے کیا نیت کی تھی؟ تو میں نے عرض کیا کہ میں نے کہا کہ اے اللہ! میں اسی کا احرام باندھتا ہوں جس کا تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے ساتھ قربانی ہے (اس لئے میں نے احرام نہیں کھولا) اب تم بھی احرام نہ کھولو۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر وہ اونٹ جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے اور وہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لائے تھے سب مل کر سو اونٹ ہو گئے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر سب لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور بال کترائے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور جن کے ساتھ قربانی تھی (محرم ہی رہے) پھر جب ترویہ کا دن ہوا (یعنی ذوالحجہ کی آٹھویں تاریخ) تو سب لوگ منیٰ کو چلے اور حج کی لبیک پکاری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار ہوئے اور منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء اور فجر (پانچ نمازیں) پڑھیں۔ پھر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے، وہ خیمہ جو بالوں کا بنا ہوا تھا (مقام) نمرہ میں لگانے کا حکم دیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور قریش یقین کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشعر الحرام میں وقوف کریں گے جیسے سب قریش کے لوگوں کی ایام جاہلیت میں عادت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ عرفات پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خیمہ نمرہ میں لگا ہوا پایا تو اس میں اترے یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قصواء اونٹنی تیار کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی کے درمیان میں پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر خطبہ پڑھا۔ فرمایا: تمہارے خون اور اموال ایک دوسرے پر (ایسے) حرام ہیں جیسے آج کے دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے اور زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے دونوں پیروں کے نیچے رکھ دی گئی (یعنی ان چیزوں کا اعتبار نہ رہا) اور جاہلیت کے خون بے اعتبار ہو گئے اور پہلا خون جو میں اپنے خونوں میں سے معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ کا خون ہے کہ وہ بنی سعد میں دودھ پیتا تھا اور اس کو ہذیل نے قتل کر ڈالا (غرض میں اس کا بدلہ نہیں لیتا) اور اسی طرح زمانہ جاہلیت کا سود سب چھوڑ دیا گیا (یعنی اس وقت کا چڑھا سود کوئی نہ لے) اور پہلے جو سود ہم اپنے یہاں کے سود میں سے چھوڑتے ہیں (اور طلب نہیں کرتے) وہ عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کا سود ہے اس لئے کہ وہ سب چھوڑ دیا گیا اور تم لوگ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اس لئے کہ ان کو تم نے اللہ تعالیٰ کی امان سے لیا ہے اور تم نے ان کے ستر کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے حلال کیا ہے۔ اور تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ تمہارے بچھونے پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں (یعنی تمہارے گھر میں) جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو پھر اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسا مارو کہ ان کو سخت چوٹ نہ لگے (یعنی ہڈی وغیرہ نہ ٹوٹے، کوئی عضو ضائع نہ ہو، حسن صورت میں فرق نہ آئے کہ تمہاری کھیتی اجڑ جائے) اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ ان کی روٹی اور ان کا کپڑا دستور کے موافق تمہارے ذمہ ہے اور میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو گے (وہ ہے) اللہ تعالیٰ کی کتاب۔ اور تم سے (قیامت میں) میرے بارے میں سوال ہو گا تو پھر تم کیا کہو گے؟ ان سب نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیرخواہی کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشت شہادت (شہادت کی انگلی) آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا۔ تین بار (یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا) پھر اذان اور تکبیر ہوئی تو ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر اقامت کہی اور عصر پڑھائی اور ان دونوں کے درمیان میں کچھ نہیں پڑھا (یعنی سنت و نفل وغیرہ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار کر موقف میں آئے اونٹنی کا پیٹ پتھروں کی طرف کر دیا اور پگڈنڈی کو اپنے آگے کر لیا اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور غروب آفتاب تک وہیں ٹھہرے رہے۔ زردی تھوڑی تھوڑی جاتی رہی اور سورج کی ٹکیا ڈوب گئی تب (سوار ہوئے) سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیچھے بٹھا لیا اور واپس (مزدلفہ کی طرف) لوٹے اور قصواء کی مہار اس قدر کھینچی ہوئی تھی کہ اس کا سر کجاوہ کے (اگلے حصے) مورک سے لگ گیا تھا (مورک وہ جگہ ہے جہاں سوار بعض وقت تھک کر اپنا پیر جو لٹکا ہوا ہوتا ہے اس جگہ رکھتا ہے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے کہ اے لوگو! آہستہ آہستہ آرام سے چلو اور جب کسی ریت کی ڈھیری پر آ جاتے (جہاں بھیڑ کم پاتے) تو ذرا مہار ڈھیلی کر دیتے یہاں تک کہ اونٹنی چڑھ جاتی (آخر مزدلفہ پہنچ گئے اور وہاں مغرب اور عشاء ایک اذان اور دو تکبیروں سے پھڑیں اور ان دونوں فرضوں کے بیچ میں نفل کچھ نہیں پڑھے (یعنی سنت وغیرہ نہیں پڑھی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ رہے۔ (سبحان اللہ کیسے کیسے خادم ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ دن رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے بیٹھنے، اٹھنے جاگنے، کھانے پینے پر نظر ہے اور ہر فعل مبارک کی یادداشت و حفاظت ہے اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کرے) یہاں تک کہ صبح ہوئی جب فجر ظاہر ہو گئی تو اذان اور تکبیر کے ساتھ نماز فجر پڑھی پھر قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے یہاں تک کہ مشعر الحرام میں آئے اور وہاں قبلہ کی طرف منہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ اکبر کہا اور لا الٰہ الا اللہ کہا اور اس کی توحید پکاری اور وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ بخوبی روشنی ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے طلوع آفتاب سے قبل لوٹے اور سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور فضل رضی اللہ عنہ ایک نوجوان اچھے بالوں والا گورا چٹا خوبصورت جوان تھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو عورتوں کا ایک ایسا گروہ چلا جاتا تھا کہ ایک اونٹ پر ایک عورت سوار تھی اور سب چلی جاتی تھیں اور سیدنا فضل صان کی طرف دیکھنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کے چہرے پر ہاتھ رکھ دیا (اور زبان سے کچھ نہ فرمایا۔ سبحان اللہ یہ اخلاق کی بات تھی اور نہی عن المنکر کس خوبی سے ادا کیا) اور فضل رضی اللہ عنہ نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا اور دیکھنے لگے (یہ ان کے کمال اطمینان کی وجہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا ہاتھ ادھر پھیر کر ان کے منہ پر رکھ دیا تو فضل دوسری طرف منہ پھیر کر پھر دیکھنے لگے یہاں تک کہ بطن محسر میں پہنچے تب اونٹنی کو ذرا تیز چلایا اور بیچ کی راہ لی جو جمرہ کبریٰ پر جا نکلتی ہے، یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے (اور اسی کو جمرہ عقبہ کہتے ہیں) اور سات کنکریاں اس کو ماریں۔ ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے، ایسی کنکریاں جو چٹکی سے ماری جاتی ہیں (اور دانہ باقلا کے برابر ہوں) اور وادی کے بیچ میں کھڑے ہو کر ماریں (کہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ داہنی طرف اور مکہ بائیں طرف رہا) پھر نحر کی جگہ آئے اور تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر (یعنی قربان) کئے، باقی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دئیے کہ انہوں نے نحر کئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی قربانی میں شریک کیا اور پھر ہر اونٹ سے گوشت ایک ٹکڑا لینے کا حکم فرمایا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق لے کر) ایک ہانڈی میں ڈالا اور پکایا گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور اس کا شوربا پیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف آئے اور طواف افاضہ کیا اور ظہر مکہ میں پڑھی۔ پھر بنی عبدالمطلب کے پاس آئے کہ وہ لوگ زمزم پر پانی پلا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی بھرو اے عبدالمطلب کی اولاد! اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ لوگ بھیڑ کر کے تمہیں پانی نہ بھرنے دیں گے تو میں بھی تمہارا شریک ہو کر پانی بھرتا (یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھرتے تو سنت ہو جاتا تو پھر ساری امت بھرنے لگتی اور ان کی سقایت جاتی رہتی) پھر ان لوگوں نے ایک ڈول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پیا۔