Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
2. بَابُ ذِكْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يُقْتَلُ بِبَدْرٍ:
باب: بدر کی لڑائی میں فلاں فلاں مارے جائیں گے، اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کا بیان۔
حدیث نمبر: 3950
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَ صَدِيقًا لِأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ وَكَانَ أُمَيَّةُ إِذَا مَرَّ بِالْمَدِينَةِ نَزَلَ عَلَى سَعْدٍ , وَكَانَ سَعْدٌ إِذَا مَرَّ بِمَكَّةَ نَزَلَ عَلَى أُمَيَّةَ , فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ انْطَلَقَ سَعْدٌ مُعْتَمِرًا , فَنَزَلَ عَلَى أُمَيَّةَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ لِأُمَيَّةَ: انْظُرْ لِي سَاعَةَ خَلْوَةٍ لَعَلِّي أَنْ أَطُوفَ بِالْبَيْتِ , فَخَرَجَ بِهِ قَرِيبًا مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ , فَلَقِيَهُمَا أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا صَفْوَانَ مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ فَقَالَ: هَذَا سَعْدٌ، فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ: أَلَا أَرَاكَ تَطُوفُ بِمَكَّةَ آمِنًا وَقَدْ أَوَيْتُمُ الصُّبَاةَ , وَزَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ تَنْصُرُونَهُمْ وَتُعِينُونَهُمْ , أَمَا وَاللَّهِ لَوْلَا أَنَّكَ مَعَ أَبِي صَفْوَانَ مَا رَجَعْتَ إِلَى أَهْلِكَ سَالِمًا، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: وَرَفَعَ صَوْتَهُ عَلَيْهِ أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ مَنَعْتَنِي هَذَا لَأَمْنَعَنَّكَ مَا هُوَ أَشَدُّ عَلَيْكَ مِنْهُ , طَرِيقَكَ عَلَى الْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ أُمَيَّةُ: لَا تَرْفَعْ صَوْتَكَ يَا سَعْدُ عَلَى أَبِي الْحَكَمِ سَيِّدِ أَهْلِ الْوَادِي، فَقَالَ سَعْدٌ: دَعْنَا عَنْكَ يَا أُمَيَّةُ فَوَاللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّهُمْ قَاتِلُوكَ"، قَالَ: بِمَكَّةَ، قَالَ: لَا أَدْرِي , فَفَزِعَ لِذَلِكَ أُمَيَّةُ فَزَعًا شَدِيدًا , فَلَمَّا رَجَعَ أُمَيَّةُ إِلَى أَهْلِهِ، قَالَ: يَا أُمَّ صَفْوَانَ أَلَمْ تَرَيْ مَا قَالَ لِي سَعْدٌ؟ قَالَتْ: وَمَا قَالَ لَكَ؟ قَالَ: زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا أَخْبَرَهُمْ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ، فَقُلْتُ لَهُ: بِمَكَّةَ، قَالَ: لَا أَدْرِي، فَقَالَ: أُمَيَّةُ وَاللَّهِ لَا أَخْرُجُ مِنْ مَكَّةَ , فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ اسْتَنْفَرَ أَبُو جَهْلٍ النَّاسَ، قَالَ: أَدْرِكُوا عِيرَكُمْ فَكَرِهَ أُمَيَّةُ أَنْ يَخْرُجَ , فَأَتَاهُ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا صَفْوَانَ إِنَّكَ مَتَى مَا يَرَاكَ النَّاسُ قَدْ تَخَلَّفْتَ وَأَنْتَ سَيِّدُ أَهْلِ الْوَادِي تَخَلَّفُوا مَعَكَ , فَلَمْ يَزَلْ بِهِ أَبُو جَهْلٍ حَتَّى قَالَ: أَمَّا إِذْ غَلَبْتَنِي فَوَاللَّهِ لَأَشْتَرِيَنَّ أَجْوَدَ بَعِيرٍ بِمَكَّةَ، ثُمَّ قَالَ أُمَيَّةُ" يَا أُمَّ صَفْوَانَ جَهِّزِينِي، فَقَالَتْ لَهُ: يَا أَبَا صَفْوَانَ وَقَدْ نَسِيتَ مَا، قَالَ: لَكَ أَخُوكَ الْيَثْرِبِيُّ، قَالَ: لَا مَا أُرِيدُ أَنْ أَجُوزَ مَعَهُمْ إِلَّا قَرِيبًا , فَلَمَّا خَرَجَ أُمَيَّةُ أَخَذَ لَا يَنْزِلُ مَنْزِلًا إِلَّا عَقَلَ بَعِيرَهُ , فَلَمْ يَزَلْ بِذَلِكَ حَتَّى قَتَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِبَدْرٍ".
مجھ سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا کہ مجھ سے عمرو بن میمون نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ وہ امیہ بن خلف کے (جاہلیت کے زمانے سے) دوست تھے اور جب بھی امیہ مدینہ سے گزرتا تو ان کے یہاں قیام کرتا تھا۔ اسی طرح سعد رضی اللہ عنہ جب مکہ سے گزرتے تو امیہ کے یہاں قیام کرتے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو ایک مرتبہ سعد رضی اللہ عنہ مکہ عمرہ کے ارادے سے گئے اور امیہ کے پاس قیام کیا۔ انہوں نے امیہ سے کہا کہ میرے لیے کوئی تنہائی کا وقت بتاؤ تاکہ میں بیت اللہ کا طواف کروں۔ چنانچہ امیہ انہیں دوپہر کے وقت ساتھ لے کر نکلا۔ ان سے ابوجہل کی ملاقات ہو گئی۔ اس نے پوچھا، ابوصفوان! یہ تمہارے ساتھ کون ہیں؟ امیہ نے بتایا کہ یہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں۔ ابوجہل نے کہا، میں تمہیں مکہ میں امن کے ساتھ طواف کرتا ہوا نہ دیکھوں۔ تم نے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور اس خیال میں ہو کہ تم لوگ ان کی مدد کرو گے۔ خدا کی قسم! اگر اس وقت تم، ابوصفوان! امیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامتی سے نہیں جا سکتے تھے۔ اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا، اس وقت ان کی آواز بلند ہو گئی تھی کہ اللہ کی قسم! اگر آج تم نے مجھے طواف سے روکا تو میں بھی مدینہ کی طرف سے تمہارا راستہ بند کر دوں گا اور یہ تمہارے لیے بہت سی مشکلات کا باعث بن جائے گا۔ امیہ کہنے لگا، سعد! ابوالحکم (ابوجہل) کے سامنے بلند آواز سے نہ بولو۔ یہ وادی کا سردار ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا، امیہ! اس طرح کی گفتگو نہ کرو۔ اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن چکا ہوں کہ تو ان کے ہاتھوں سے مارا جائے گا۔ امیہ نے پوچھا۔ کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ اس کا مجھے علم نہیں۔ امیہ یہ سن کر بہت گھبرا گیا اور جب اپنے گھر لوٹا تو (اپنی بیوی سے) کہا، ام صفوان! دیکھا نہیں سعد میرے متعلق کیا کہہ رہے ہیں۔ اس نے پوچھا، کیا کہہ رہے ہیں؟ امیہ نے کہا کہ وہ یہ بتا رہے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے انہیں خبر دی ہے کہ کسی نہ کسی دن وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ میں نے پوچھا کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کی مجھے خبر نہیں۔ امیہ کہنے لگا: خدا کی قسم! اب مکہ سے باہر میں کبھی نہیں جاؤں گا۔ پھر بدر کی لڑائی کے موقع پر جب ابوجہل نے قریش سے لڑائی کی تیاری کے لیے کہا اور کہا کہ اپنے قافلہ کی مدد کو چلو تو امیہ نے لڑائی میں شرکت پسند نہیں کی، لیکن ابوجہل اس کے پاس آیا اور کہنے لگا، اے صفوان! تم وادی کے سردار ہو۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ تم ہی لڑائی میں نہیں نکلتے ہو تو دوسرے لوگ بھی نہیں نکلیں گے۔ ابوجہل یوں ہی برابر اس کو سمجھاتا رہا۔ آخر مجبور ہو کر امیہ نے کہا جب نہیں مانتا تو خدا کی قسم (اس لڑائی کے لیے) میں ایسا تیز رفتار اونٹ خریدوں گا جس کا ثانی مکہ میں نہ ہو۔ پھر امیہ نے (اپنی بیوی سے) کہا، ام صفوان! میرا سامان تیار کر دے۔ اس نے کہا، ابوصفوان! اپنے یثربی بھائی کی بات بھول گئے؟ امیہ بولا، میں بھولا نہیں ہوں۔ ان کے ساتھ صرف تھوڑی دور تک جاؤں گا۔ جب امیہ نکلا تو راستہ میں جس منزل پر بھی ٹھہرنا ہوتا، یہ اپنا اونٹ (اپنے پاس ہی) باندھے رکھتا۔ وہ برابر ایسا ہی احتیاط کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قتل کرا دیا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3950 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3950  
حدیث حاشیہ:
باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے امیہ کے مارے جانے سے پہلے ہی اس کے قتل کی خبر دے دی تھی۔
کرمانی نے الفاظ إنھم قاتلوك کی تفسیر یہ کی ہے کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی تجھ کو قتل کرائیں گے۔
امیہ کو اس وجہ سے تعجب ہوا کہ ابوجہل تو میرا دوست ہے وہ مجھ کو کیونکر قتل کرائے گا۔
اس صورت میں قتل کرانے کامطلب یہ ہے کہ وہ تیرے قتل کا سبب بنے گا۔
ایسا ہی ہوا۔
امیہ بدرکی لڑائی میں جانے پر راضی نہ تھا، لیکن ابوجہل زبردستی اس کو پکڑکر لے گیا۔
امیہ جانتا تھا کہ حضرت محمد ﷺ جو بات کہہ دیں وہ ہوکر رہے گی۔
اگرچہ اس نے واپس بھاگنے کے لیے تیز رفتار اونٹ ہمراہ لیا مگر وہ انٹ کچھ کام نہ آیااور امیہ بھی جنگ بدر میں قتل ہوا۔
خود حضرت بلال ؓ نے اسے قتل کیا جسے کسی زمانہ میں وہ سخت سے سخت تکلیف دیا کرتا تھا۔
حضرت سعد ؓ نے ابوجہل کو اس سے ڈرایا کہ مکہ کے لوگ شام کے لیے براستہ مدینہ جایا کرتے تھے اور ان کی تجارت کا دارومدار شام ہی کی تجارت پر تھا۔
بعض شارحین نے إنھم قاتلوك سے مسلمان مراد لیے ہیں اور کرمانی کے قول کو ان کا وہم قرار دیا ہے۔
(قسطلانی)
بہر حال حضرت سعد ؓ نے جو کچھ کہا تھا اللہ نے اسے پورا کیا اور امیہ جنگ بدر میں قتل ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3950   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3950  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح بنتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امیہ کے بارے میں بہت پہلے پیش گوئی فرمائی تھی کہ اسے قتل کردیا جائے گا، لیکن صحیح مسلم کے حوالے سے ہم نے جو حدیث بیان کی ہے وہ اس عنوان کے زیاہ حسب حال ہے کیونکہ اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کی رات نشاندہی فرمائی تھی کہ فلاں کی قتل گاہ، یہ اورفلاں کی یہ ہے۔
واللہ اعلم۔

علامہ کرمانی ؒ نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ابوجہل اور اس کے ساتھی اسے قتل کریں گے۔
اگرچہ اسے مسلمانوں نے اسے قتل کیا تھا لیکن ابوجہل اس کے قتل کا سبب بنا کیونکہ اسی نے امیہ کو مکے سے نکلنے پر مجبور کیا تھا لہذا قتل کی نسبت ابوجہل اوراس کے ساتھیوں کی طرف کرنا صحیح ہے۔
(حاشیة کرماني: 188/7)
لیکن یہ مؤقف اختیار کرنے سے اس حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں رہے گا، نیز حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس موقف کی تردید کے لیے یہ حدیث ہی کافی ہے کیونکہ اس میں اس نے بیوی سے کہا تھا کہ میرے متعلق محمدﷺ نے خبردی ہے کہ وہ میرے قاتل ہیں۔
یہاں ابوجہل کا ذکر تک نہیں ہے۔
اس بنا پر علامہ کرمانی کو وہم ہوا ہے۔
(فتح الباري: 353/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3950   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3632  
3632. حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو ابوصفوان امیہ بن خلف کے پاس ٹھہرے۔ اور امیہ جب شام جاتا اور مدینہ طیبہ سے گزرتا تو حضرت سعد ؓ کے پاس ٹھہراکرتا تھا۔ امیہ نے حضرت سعد ؓ سے کہا: کچھ انتظار کرو حتی کہ جب دوپہر ہو گی اور لوگ غافل ہو جائیں گے تو چلیں اور بیت اللہ کا طواف کر لیں۔ جس وقت حضرت سعد ؓ طواف کر رہے تھے ادھر سے اچانک ابو جہل آگیا۔ اس نے آتے ہی کہا: کعبہ کا طواف کرنے والا یہ شخص کون ہے؟حضرت سعد ؓ نے کہا: میں سعد ہوں۔ ابو جہل بولا: تو کعبہ کا طواف امن وامان سے کر رہا ہے۔ حالانکہ تم لوگوں نے محمد اور اس کے ساتھیوں کو جگہ دی ہے؟ حضرت سعد ؓ نے کہا: ہاں، اس میں کیا شک ہے، چنانچہ وہ دونوں جھگڑپڑے۔ امیہ نے حضرت سعد ؓ سے کہا: ابو حکم پرآواز بلند۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3632]
حدیث حاشیہ:
یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔
امیہ جنگ بدر میں جانانہیں چاہتا تھامگر ابوجہل زبردستی پکڑکرلے گیا۔
آخرمسلمانوں کے ہاتھوں ماراگیا علامات بنوت میں اس پیش گوئی کوبھی اہم مقام حاصل ہے۔
پیش گوئی کی صداقت ظاہر ہوکر رہی، حدیث کے لفظ ''إنه قاتلك'' میں ضمیر کا مرجع ابوجہل ہے کہ وہ تجھ کو قتل کرائے گا۔
بعض مترجم حضرات نے ''إنه'' کی ضمیر کا مرجع رسول کریم ﷺ کو قراردیا ہے لیکن روایت کے سیاق وسباق اور مقام ومحل کے لحاظ سے ہمارا ترجمہ بھی صحیح ہے۔
واللہ أعلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3632   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3632  
3632. حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو ابوصفوان امیہ بن خلف کے پاس ٹھہرے۔ اور امیہ جب شام جاتا اور مدینہ طیبہ سے گزرتا تو حضرت سعد ؓ کے پاس ٹھہراکرتا تھا۔ امیہ نے حضرت سعد ؓ سے کہا: کچھ انتظار کرو حتی کہ جب دوپہر ہو گی اور لوگ غافل ہو جائیں گے تو چلیں اور بیت اللہ کا طواف کر لیں۔ جس وقت حضرت سعد ؓ طواف کر رہے تھے ادھر سے اچانک ابو جہل آگیا۔ اس نے آتے ہی کہا: کعبہ کا طواف کرنے والا یہ شخص کون ہے؟حضرت سعد ؓ نے کہا: میں سعد ہوں۔ ابو جہل بولا: تو کعبہ کا طواف امن وامان سے کر رہا ہے۔ حالانکہ تم لوگوں نے محمد اور اس کے ساتھیوں کو جگہ دی ہے؟ حضرت سعد ؓ نے کہا: ہاں، اس میں کیا شک ہے، چنانچہ وہ دونوں جھگڑپڑے۔ امیہ نے حضرت سعد ؓ سے کہا: ابو حکم پرآواز بلند۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3632]
حدیث حاشیہ:

اُمیہ بن خلف ایک لحیم وجسیم اور اہل مکہ کا سردار تھا جبکہ حضرت سعد بن معاذ ؓ انصار کے سرادر تھے۔
ان دونوں سرداروں کے درمیان دورجاہلیت سے بھائی چارہ چلا آرہاتھا۔
جب امیہ تجارت کے لیے شام کی طرف جاتا تو مدینے میں ان کے پاس ٹھہرتا اور جب حضرت سعد ؓ مکہ تشریف لے جاتے تو اس کے پاس قیام کرتے۔

یہ حدیث نبوت کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امیہ کو قتل کی خبر دی تو وہ بدر میں موت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔
اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے قریش کے سرداروں کے خلاف بددعا بھی کی تھی جن میں امیہ بھی شامل تھا۔
حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان تمام لوگوں کو میدان بدر میں مرے ہوئے دیکھاکہ انھیں گھسیٹ کر ایک اندھے کنویں میں پھینکا جارہا تھا۔
امیہ چونکہ بھاری بھرکم تھا جب اسے گھسیٹنے لگے تو اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
چنانچہ اسے وہیں رہنے دیاگیا۔
(صحیح البخاري، الجزیة، حدیث: 3185)

حضرت سعد بن معاذ ؓ کو غزوہ خندق میں رگ اکحل پر تیر لگا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
اس کی تفصیل بھی احادیث میں موجود ہے۔

جب حضرت سعد نے امیہ کو خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ اسے قتل کریں گے تو اس نے پوچھا:
کیا مکہ میں قتل کریں گے؟حضرت سعد نے فرمایا:
مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ وہ کہاں قتل کریں گے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3950)
اس بنا پر امیہ مکہ سے نہیں نکلتا تھا۔
جب کفار قریش بدر کی طرف نکلتے تو اس نے پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ وہ کفار کے ساتھ مکہ سے باہر نہیں جائے گا۔
عقبہ بن ابی معیط نے اسے طعنہ دیاکہ سردارتو عورتوں کی طرح گھرمیں بیٹھ گیا ہے،پھر وہ بادل نخواستہ ان کے ساتھ جانے پر آمادہ ہوا۔
(فتح الباري: 355/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3632