صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
کتاب: انصار کے مناقب
45. بَابُ هِجْرَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا۔
حدیث نمبر: 3912
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ يَعْنِى , عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ فَرَضَ لِلْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَرْبَعَةَ آلَافٍ فِي أَرْبَعَةٍ , وَفَرَضَ لِابْنِ عُمَرَ ثَلَاثَةَ آلَافٍ وَخَمْسَ مِائَةٍ، فَقِيلَ لَهُ: هُوَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ فَلِمَ نَقَصْتَهُ مِنْ أَرْبَعَةِ آلَافٍ، فَقَالَ: إِنَّمَا هَاجَرَ بِهِ أَبَوَاهُ، يَقُولُ: لَيْسَ هُوَ كَمَنْ هَاجَرَ بِنَفْسِهِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عمر نے خبر دی، انہیں نافع نے یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے، فرمایا آپ نے تمام مہاجرین اولین کا وظیفہ (اپنے عہد خلافت میں) چار چار ہزار چار چار قسطوں میں مقرر کر دیا تھا، لیکن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا وظیفہ چار قسطوں میں ساڑھے تین ہزار تھا اس پر ان سے پوچھا گیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی مہاجرین میں سے ہیں۔ پھر آپ انہیں چار ہزار سے کم کیوں دیتے ہیں؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہیں ان کے والدین ہجرت کر کے یہاں لائے تھے۔ اس لیے وہ ان مہاجرین کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے خود ہجرت کی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3912 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3912
حدیث حاشیہ:
مہاجرین اولین وہ صحابہ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی ہو جنگ بدر میں شریک ہوئے۔
اس سے حضرت عمر ؓ کا انصاف بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خاص اپنے بیٹے کا لحاظ کئے بغیر انصاف کو مد نظر رکھا۔
ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اسامہ بن زید ؓ کے لئے چار ہزار مقرر کیا تو صحابہ نے پوچھا کہ بھلا آپ نے عبدالله ؓ کو مہاجرین اولین سے تو کم رکھا مگر اسامہ ؓ سے کیوں کم رکھا؟ اسامہ ؓ تو عبد اللہ ؓ سے بڑھکر کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔
حضرت عمر ؓ نے کہا کہ ہاں یہ صحیح ہے مگر اسامہ ؓ کے باپ کو آنحضرت ﷺ عبد اللہ ؓ کے باپ سے زیادہ چاہتے تھے۔
آخر آنحضرت ﷺ کی محبت کو میری محبت پر کچھ ترجیح ہونی چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3912
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3912
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں حضرت عمر ؓ اور ان کے اہل خانہ کی ہجرت کا بیان ہے۔
حضرت عمر ؓ نے اپنے دورخلافت میں مہاجرین اولین کے وظائف مقررفرمائے کہ بیت المال سے انھیں چارچار ہزار درہم دیا جائے۔
مہاجرین اولین سے مراد وہ حضرات ہیں جنھوں نے دونوں قبلوں، یعنی بیت المقدس اور خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی تھی، یا وہ لوگ جنھوں نے غزوہ بدر میں شرکت کی تھی۔
2۔
ہجرت کے وقت حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی عمر گیارہ سال تھی۔
(فتح الباري: 317/7)
3۔
اس سے حضرت عمر ؓ کی انصاف پسندی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اس سلسلے میں اپنے بیٹے کا کوئی لحاظ نہیں رکھا۔
4۔
حضرت عمر ؓ نے حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کے لیے وہی وظیفہ مقرر کیا جو مہاجرین کے لیے مقرر کیا تھا۔
(عمدة القاري: 639/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3912