صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
کتاب: انصار کے مناقب
42. بَابُ الْمِعْرَاجِ:
باب: معراج کا بیان۔
حدیث نمبر: 3887
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ قال:" بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ , وَرُبَّمَا قال: فِي الْحِجْرِ , مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَقَدَّ، قَالَ: وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ، فَقُلْتُ لِلْجَارُودِ وَهُوَ إِلَى جَنْبِي: مَا يَعْنِي بِهِ، قَالَ: مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ , وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: مِنْ قَصِّهِ إِلَى شِعْرَتِهِ فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي , ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءَةٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي , ثُمَّ حُشِيَ , ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ، فَقَالَ لَهُ الْجَارُودُ: هُوَ الْبُرَاقُ يَا أَبَا حَمْزَةَ، قَالَ أَنَسٌ: نَعَمْ يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ , فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ , قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ، فَقَالَ: هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ، ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ , وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ فَاسْتَفْتَحَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ , قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ , قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ , جَاءَ فَفَتَحَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى , وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا الْخَالَةِ، قَالَ: هَذَا يَحْيَى , وَعِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا , فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا، ثُمَّ قَالَا: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ , قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ، قَالَ: هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ، ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: أَوَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ إِلَى إِدْرِيسَ، قَالَ: هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ، ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ، قَالَ: هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ، ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى، قَالَ: هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ، ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , فَلَمَّا تَجَاوَزْتُ بَكَى، قِيلَ: لَهُ مَا يُبْكِيكَ، قَالَ: أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي , ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ، قَالَ: هَذَا أَبُوكَ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ، قَالَ: مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , ثُمَّ رُفِعَتْ إِلَيَّ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى , فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ، قَالَ: هَذِهِ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى وَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ: نَهْرَانِ بَاطِنَانِ , وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، فَقُلْتُ: مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ، قَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ , وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ , وَالْفُرَاتُ , ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ , ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ , وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ , وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ , فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ، فَقَالَ: هِيَ الْفِطْرَةُ الَّتِي أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ , ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ , فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ، قَالَ: أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ , وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ , فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ , فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ , فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ , فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: مِثْلَهُ , فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ , فَرَجَعْتُ فَقَالَ مِثْلَهُ , فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ , فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: بِمَ أُمِرْتَ، قُلْتُ: أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ , فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ، قَالَ: سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ، قَالَ: فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي".
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شب معراج کا واقعہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا۔ بعض دفعہ قتادہ نے حطیم کے بجائے حجر بیان کیا کہ میرے پاس ایک صاحب (جبرائیل علیہ السلام) آئے اور میرا سینہ چاک کیا۔ قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ یہاں سے یہاں تک۔ میں نے جارود سے سنا جو میرے قریب ہی بیٹھے تھے۔ پوچھا کہ انس رضی اللہ عنہ کی اس لفظ سے کیا مراد تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ حلق سے ناف تک چاک کیا (قتادہ نے بیان کیا کہ) میں نے انس سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کے اوپر سے ناف تک چاک کیا، پھر میرا دل نکالا اور ایک سونے کا طشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہوا تھا، اس سے میرا دل دھویا گیا اور پہلے کی طرح رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد ایک جانور لایا گیا جو گھوڑے سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا اور سفید! جارود نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ابوحمزہ! کیا وہ براق تھا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس کا ہر قدم اس کے منتہائے نظر پر پڑتا تھا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) مجھے اس پر سوار کیا گیا اور جبرائیل مجھے لے کر چلے آسمان دنیا پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون صاحب ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ آپ نے بتایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ پوچھا گیا، کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس پر آواز آئی (انہیں) خوش آمدید! کیا ہی مبارک آنے والے ہیں وہ، اور دروازہ کھول دیا۔ جب میں اندر گیا تو میں نے وہاں آدم علیہ السلام کو دیکھا، جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کے جد امجد آدم علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا: خوش آمدید نیک بیٹے اور نیک نبی! جبرائیل علیہ السلام اوپر چڑھے اور دوسرے آسمان پر آئے وہاں بھی دروازہ کھلوایا آواز آئی کون صاحب آئے ہیں؟ بتایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) پوچھا گیا آپ کے ساتھ اور کوئی صاحب بھی ہیں؟ کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ پوچھا گیا کیا آپ کو انہیں بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر آواز آئی انہیں خوش آمدید۔ کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ۔ پھر دروازہ کھلا اور میں اندر گیا تو وہاں یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام موجود تھے۔ یہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے سلام کیا اور ان حضرات نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی! یہاں سے جبرائیل علیہ السلام مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے کر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل۔ پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ پوچھا گیا کیا انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ جواب دیا کہ ہاں۔ اس پر آواز آئی انہیں خوش آمدید۔ کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ، دروازہ کھلا اور جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں یوسف علیہ السلام موجود تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ یوسف ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایا: خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی! پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر اوپر چڑھے اور چوتھے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا کون صاحب ہیں؟ بتایا کہ جبرائیل! پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ پوچھا گیا کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ جواب دیا کہ ہاں کہا کہ انہیں خوش آمدید۔ کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ! اب دروازہ کھلا جب میں وہاں ادریس علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ ادریس علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید پاک بھائی اور نیک نبی۔ پھر مجھے لے کر پانچویں آسمان پر آئے اور دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون صاحب ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ پوچھا گیا کہ انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ جواب دیا کہ ہاں اب آواز آئی خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ، یہاں جب میں ہارون علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ہارون ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب کے بعد فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی! یہاں سے لے کر مجھے آگے بڑھے اور چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں؟ بتایا کہ جبرائیل، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کوئی دوسرے صاحب بھی آئے ہیں؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ پوچھا گیا کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ جواب دیا کہ ہاں۔ پھر کہا انہیں خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ۔ میں جب وہاں موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے، میں نے سلام کیا اور انہوں نے جواب کے بعد فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی! جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا آپ رو کیوں رہے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا میں اس پر رو رہا ہوں کہ یہ لڑکا میرے بعد نبی بنا کر بھیجا گیا لیکن جنت میں اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ ہوں گے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر ساتویں آسمان کی طرف گئے اور دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ پوچھا گیا کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ جواب دیا کہ ہاں۔ کہا کہ انہیں خوش آمدید۔ کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ، میں جب اندر گیا تو ابراہیم علیہ السلام تشریف رکھتے تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آپ کے جد امجد ہیں، انہیں سلام کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے! پھر سدرۃ المنتہیٰ کو میرے سامنے کر دیا گیا میں نے دیکھا کہ اس کے پھل مقام حجر کے مٹکوں کی طرح (بڑے بڑے) تھے اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کان کی طرح تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ وہاں میں نے چار نہریں دیکھیں دو باطنی اور دو ظاہری۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل! یہ کیا ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جو دو باطنی نہریں ہیں وہ جنت سے تعلق رکھتی ہیں اور دو ظاہری نہریں، نیل اور فرات ہیں۔ پھر میرے سامنے بیت المعمور کو لایا گیا، وہاں میرے سامنے ایک گلاس میں شراب ایک میں دودھ اور ایک میں شہد لایا گیا۔ میں نے دودھ کا گلاس لے لیا تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہی فطرت ہے اور آپ اس پر قائم ہیں اور آپ کی امت بھی! پھر مجھ پر روزانہ پچاس نمازیں فرض کی گئیں میں واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کس چیز کا آپ کو حکم ہوا؟ میں نے کہا کہ روزانہ پچاس وقت کی نمازوں کا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا لیکن آپ کی امت میں اتنی طاقت نہیں ہے۔ اس سے پہلے میرا واسطہ لوگوں سے پڑ چکا ہے اور بنی اسرائیل کا مجھے تلخ تجربہ ہے۔ اس لیے آپ اپنے رب کے حضور میں دوبارہ جائیے اور اپنی امت پر تخفیف کے لیے عرض کیجئے۔ چنانچہ میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں دوبارہ حاضر ہوا اور تخفیف کے لیے عرض کی تو دس وقت کی نمازیں کم کر دی گئیں۔ پھر میں جب واپسی میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پھر وہی سوال کیا میں دوبارہ بارگاہ رب تعالیٰ میں حاضر ہوا اور اس مرتبہ بھی دس وقت کی نمازیں کم ہوئیں۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا اور تو انہوں نے وہی مطالبہ کیا میں نے اس مرتبہ بھی بارگاہ رب تعالیٰ میں حاضر ہو کر دس وقت کی نمازیں کم کرائیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے پھر گزرا انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا پھر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا تو مجھے دس وقت کی نمازوں کا حکم ہوا میں واپس ہونے لگا تو آپ نے پھر وہی کہا اب بارگاہ الٰہی میں حاضرہوا تو روزانہ صرف پانچ وقت کی نمازوں کا حکم باقی رہا۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو آپ نے دریافت فرمایا اب کیا حکم ہوا؟ میں نے موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ روزانہ پانچ وقت کی نمازوں کا حکم ہوا ہے۔ فرمایا کہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی میرا واسطہ آپ سے پہلے لوگوں سے پڑ چکا ہے اور بنی اسرائیل کا مجھے تلخ تجربہ ہے۔ اپنے رب کے دربار میں پھر حاضر ہو کر تخفیف کے لیے عرض کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رب تعالیٰ سے میں بہت سوال کر چکا اور اب مجھے شرم آتی ہے۔ اب میں بس اسی پر راضی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جب میں وہاں سے گزرنے لگا تو ندا آئی ”میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف کر چکا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3887 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3887
حدیث حاشیہ:
روایت میں لفظ براق ضمہ با کے ساتھ ہے اور برق سے مشتق ہے جو بجلی کے معنوں میں ہے وہ ایک خچر یا گھوڑے کی شکل کا جانورہے جو آنحضرت ﷺ کی سواری کے لئے لایا گیا تھا جس کی رفتار بجلی سے بھی تیز تھی، اسی لئے اسے براق کہا گیا۔
حضرت جبریل ؑ پہلے آپ کو بیت المقدس میں لے گئے وربطه البراق بالحلقة التي یربط بھا الأنبیاءبباب المسجد (توشیح)
یعنی وہاں براق کو اس مسجد کے دروازے پر اس حلقہ سے باندھا جس سے پہلے انبیاء اپنی سواریوں کو باندھاکرتے تھے۔
پھر وہاں دورکعت نمازاداکی اس کے بعد آسمان کا سفر شروع ہوا۔
روایت میں حضرت موسیٰ ؑ کے رونے کا ذکر ہے، یہ رونا محض پنی امت کے لئے رحمت کے طور پر تھا:
قال العلماءلم یکن بکاءموسیٰ حسدا معاذاللہ فإن الحسد في ذالك العالم منزوع من آحاد المؤمنین فکیف بمن اصطفاہ اللہ تعالیٰ۔
(تو شیح)
یعنی علماء نے کہا ان کا یہ رونا معاذ اللہ حسد کی بنا پر نہیں تھا عالم آخرت میں حسد کا مادہ تو ہر معمولی مؤمن کے دل سے بھی دور کردیا جائے گا لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ جیسا برگزیدہ نبی کر ے۔
حضرت موسیٰ نے انحضرت ﷺ کو لفظ غلام سے تعبیر کیا جو آپ کی تعظیم کے طور پر تھا وقد یطلق الغلام ویراد به الطري الشاب یعنی کبھی لفظ غلام کا اطلاق طاقتور شہ زور نوجوان مرد پر بھی کیا جاتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے لمعات، حضرت شیخ ملا علی قاری ؒ نے فرمایا کہ ھذ الترتیب الذي وقع في ھذ االحدیث ھو أصح الروایات و أرجحھا یعنی انبیاءکرام کی ملاقات جس ترتیب کے ساتھ اس روایت میں مذکور ہوئی ہے یہی زیادہ صحیح ہے اور اسی کو توجیح حاصل ہے۔
ترتیب کو مکرر شائقین حدیث یاد فرمالیں کہ پہلے آسمان پر حضرت آدم ؑ سے ملاقات ہوئی، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور عیسیٰ ؑ سے ملاقت ہوئی، تیسرے پر حضرت یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی، چوتھے پر حضرت ادریس ؑ سے پانچویں پر حضرت ہارون ؑ سے چھٹے پر حضرت موسیٰ ؑ سے ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم ؑ سے شرف ملاقات حاصل ہوا۔
روایت میں لفظ سدرة المنتهیٰ مذکور ہواہے۔
لفظ سدرۃ بیری کے درخت کو کہتےہیں وسمیت بھا لأن علم الملائکة ینتهي إلیھاولم یتجاوز ھا أحد إلارسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وحکي عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنه أنھا سمیت بذالك لکون ینتهي إلیھا ما یھبط من فوقھا ومایصعدھا من تحتھا۔
(مرقات)
یعنی اس کا یہ نام اس لئے ہوا کہ فرشتوں کی معلومات اس پر ختم ہوجاتی ہیں اور اس جگہ سے آگے کسی کاگزر نہیں ہوسکا ہے یہ شرف صرف سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہواکہ آپ اس سے بھی آگے گزر گئے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ اس کایہ نام اس لئے رکھا گیا کہ اوپر سے نیچے آنے والی اور نیچے سے اوپر جانے والی ہر چیز کی انتہا یہاں ختم ہوجاتی ہے۔
روایت میں لفظ بیت المعمور آیا ہے، جو کعبہ مکرمہ کے مقابل ساتوآسمان پر آسمان والوں کا قبلہ ہے اور جیسی زمین پر کعبہ شریف کی حرمت ہے۔
ایسے ہی آسمانوں پر بیت المعمور کی حرمت ہے۔
لفظ فطرت سے مراد اسلام اور اس پر استقامت ہے۔
آپ کے سامنے نہروں کا ذکر آیا۔
وفي شرح مسلم قال ابن مقاتل الباطنان ھو السلسبیل والکوثر والظاهر أن النیل والفرات یخرجان من أصلھا ثم یسیران حیث أراد اللہ تعالیٰ ثم یخرجان من الأرض ویسیران فیھا وھذا لایمنعه شرع ولاعقل وھو ظاهر الحدیث فوجب المصیر إلیه۔
(مرقات)
یعنی دو باطنی نہروں سے مراد سلسبیل اور کوثر ہیں اور دو ظاہری نہروں سے مراد نیل وفرات ہیں جو اس کی جڑسے نکلتی ہیں پھر اللہ تعالیٰ جہا ں چاہتا ہے وہاں وہاں وہ پھیلتی ہیں پھر نیل وفرات زمین پر ظاہر ہوکر چلتی ہیں۔
یہ نہ عقل کے خلاف ہے نہ شرع کے اور حدیث کا ظاہر مفہوم یہی ہے جس کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔
نماز کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی بمشورہ حضرت موسیٰ ؑ بار بار مراجعت تخفیف کے لئے تھی۔
اللہ پاک نے شروع میں پچاس وقت کی نماز وں کا حکم فرمایا، مگر اس باربار درخواست پر اللہ نے رحم فرما کر صرف پانچ وقت کی نمازوں کو رکھا مگر ثواب کے لئے وہی پچاس کا حکم قائم رہا اس لئے کہ امت محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے کہ اس کو ایک نیکی کرنے پر دس نیکیوں کا ثواب ملتاہے۔
واقعہ معراج کے بہت سے اسرار وحکم ہیں جن کو حجۃ الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اپنی مشہورکتاب ”حجة اللہ البالغة“ میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
اہل علم کو ان کامطالعہ ضروری ہے اس مختصر میں اس تطویل کی گنجائش نہیں ہے۔
اللہ پاک قیامت کے دن مجھ حقیر فقیر از سر تا پا گنہگار خادم مترجم کو اورجملہ قدر دانان کلام حبیب پاک ﷺ کو اپنے دیدار سے مشرف فرماکر اپنے حبیب ﷺ کے لواء حمد کے نیچے جمع فرمائے۔
آمین یارب العالمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3887
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3887
حدیث حاشیہ: رسول اللہ ﷺ پہلے بیت المقدس تشریف لے گئے پھر آسمانوں کی طرف چلے۔
اس میں مخالفین کے لیے اظہار حق مقصود تھا کیونکہ اگر سیدھے مکے ہی سے آسمانوں کی طرف جاتے تو مخالفین کے لیے بیان ووضاحت کی کوئی صورت نہ پائی جاتی لیکن جب آپ نے فرمایا کہ میں رات کے ایک حصے میں بیت المقدس گیا ہوں تو انھوں نے آپ سے بیت المقدس کی جزئیات پوچھیں جو انھوں نے بھی دیکھ رکھی تھیں اور انھیں اس بات کا بھی علم تھا کہ رسول اللہ ﷺ اس سے پہلے کبھی بیت المقدس نہیں گئے ہیں۔
جب آپ نے انھیں بیت المقدس کی جزئیات بیان فرمائیں جو انھوں نے پوچھی تھیں تو آپ کی سچائی واضح ہو گئی اور مشرکین مکہ کو یقین ہو گیا کہ واقعی آپ رات کے تھوڑے سے حصے میں وہاں گئے ہیں جب بیت المقدس جانے کی تصدیق ہوگئی تو باقی سفر کی تصدیق کے لیے بھی راہ ہموار ہو گئی۔
اس سے اہم ایمان کے ایمان میں پختگی اور منکرین کی بد بختی میں اور اضافہ ہوا۔
(فتح الباري: 252/7) واضح رہے کہ انبیاء ؑ سے ملاقات کی جو ترتیب اس حدیث میں ہے یہی زیادہ صحیح اور قابل ترجیح ہے یعنی پہلے آسمان پر حضرت آدم ؑ، دوسرے پر حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ تیسرے پر حضرت یوسف ؑ، چوتھےپر حضرت ادریس ؑ، پانچویں پر حضرت ہارون ؑ، چھٹے پر حضرت موسیٰ ؑ اور ساتویں پر حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی۔
واللہ أعلم۔
رسول اللہ ﷺ نے سدرۃ المنتہی کے بعد کچھ مشاہدات کیے جن کا ذکر اس حدیث میں نہیں ہے۔
ان میں سے چند حسب ذیل ہیں۔
سدرۃ المنتہی کے بعد ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں قضا وقدر کے فرشتوں کے قلم حرکت میں تھے۔
آپ نے ان کی آواز سنی۔
رسول اللہ ﷺ جنت میں داخل ہوئے تو وہاں موتیوں کے گنبد دیکھے۔
جنت کی مٹی کستوری کی تھی جس سے خوشبو مہک رہی تھی۔
جنت میں آپ نے نہر کو ثر دیکھی جس کے کناروں پر خولدارموتیوں کے قبے تھے۔
اس کے اندر بھی کستوری کا گارا تھا۔
جو مہک رہا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے وہاں ایک درخت دیکھا جس پر رنگ برنگی روشنی تھی۔
حضرت جبرئیل ؑ ایک طرف ہٹ گئے تو رسول اللہ ﷺ وہاں سجدہ ریز ہوگئے۔
رسول اللہ ﷺ کو وہاں پانچ نمازوں اور سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کا تحفہ ملا۔
نیز بشارت ملی کہ آپ کی امت میں سے جس نے شرک نہیں کیا ہو گا اس کے تمام کبیرہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
رسول ا للہ ﷺ کو دیکھ کر تمام اہل آسمان مارے خوشی کے مسکرارہے تھے لیکن جہنم کے داروغہ مالک کے چہرے پر مسکراہٹ کے نشانات نہ تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے وہاں جنت کا مشاہدہ کیا تو اس کے انار مٹکوں کی طرح بڑے بڑے اور پرندے بختی اونٹوں کی طرح قد آور تھے اور جہنم کی آگ اتنی شدید تھی کہ اگر پتھر اور لوہا اس میں پھینک دیا جائے تو فوراً پگھل جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے وہاں حورعین کو دیکھا انھیں سلام کیا انھوں نے جواب دیا اور اپنے متعلق بتایا کہ ہم خیرات حسان ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کو حضرت ابراہیم ؑ نے کہا تھا کہ بیٹے! آج تمھاری رب سے ملاقات ہوگی چونکہ تیری امت آخری امت اور تمام امتوں سے زیادہ ہے۔
اس کے لیے اپنے رب سے ان کی ضروریات ضرور طلب کریں۔
(فتح الباري: 271/7) هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3887
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 349
´واقعہ معراج قرآن کریم کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فُرِجَ عَنْ سَقْفِ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفَرَجَ صَدْرِي . . .»
”. . . ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انہوں نے میرا سینہ چاک کیا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 349]
� تخريج الحديث:
[102۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 1 باب كيف فرضت الصلاة فى الإسراء 349 مسلم 163 أبوعوانة 133/1]
لغوی توضیح:
«سَقْف» چھت۔
«طَسْت» برتن۔
«فَفَرَجَ» کھل گیا، پھٹ گیا۔
«اَسْوِدَة» اشخاص۔
«نَسَم» جمع ہے «نَسَمَة» کی، معنی ہے ارواح۔
«ظَهَرْتُ» میں بلند ہوا۔
«صَرِيْفَ الْاَقْلَامِ» قلموں کے لکھنے کی آواز، یہ فرشتوں کے لکھنے کی آواز تھی جو اللہ کے فیصلے اور وحی لکھتے ہیں۔
«الْجَنَابِذ» جمع ہے «جنبذه» کی، معنی ہے قبے، خیمے۔
فھم الحدیث:
واقعہ معراج قرآن کریم کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے کہ ساتوں آسمانوں کا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہو گیا۔ یہ معجزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے جو دوسرے کسی نبی کو عطا نہیں ہوا۔ اہل السنہ و ائمہ سلف کا عقیدہ ہے کہ یہ کوئی خواب یا روحانی سیر نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم و روح سمیت بیداری کی حالت میں آسمانوں پر لے جایا گیا جہاں آپ نے انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں کیں اور بارگاہ الٰہی سے پانچ نمازوں کا تحفہ لائے۔ [الوجيز فى عقيدة السلف 66/1 تفسير احسن البيان ص: 765 الرحيق المختوم ص: 198]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 102
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 449
´نماز کی فرضیت اور اس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس (کے متن) میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر۔`
انس بن مالک، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کعبہ کے پاس نیم خواب اور نیم بیداری میں تھا کہ اسی دوران میرے پاس تین (فرشتے) آئے، ان تینوں میں سے ایک جو دو کے بیچ میں تھا میری طرف آیا، اور میرے پاس حکمت و ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا، تو اس نے میرا سینہ حلقوم سے پیٹ کے نچلے حصہ تک چاک کیا، اور دل کو آب زمزم سے دھویا، پھر وہ حکمت و ایمان سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا ایک جانور لایا گیا، میں جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ چلا، تو ہم آسمان دنیا پر آئے، تو پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، پوچھا گیا: کیا بلائے گئے ہیں؟ مرحبا مبارک ہو ان کی تشریف آوری، پھر میں آدم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر ہم دوسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا: کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے ان دونوں کو سلام کیا، ان دونوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں یوسف علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم چوتھے آسمان پر آئے، وہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں ادریس علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم پانچویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، میں ہارون علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی، اور نبی! پھر ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! تو جب میں ان سے آگے بڑھا، تو وہ رونے لگے ۱؎، ان سے پوچھا گیا آپ کو کون سی چیز رلا رہی ہے؟ انہوں نے کہا: پروردگار! یہ لڑکا جسے تو نے میرے بعد بھیجا ہے اس کی امت سے جنت میں داخل ہونے والے لوگ میری امت کے داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ اور افضل ہوں گے، پھر ہم ساتویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر بیت معمور ۲؎ میرے قریب کر دیا گیا، میں نے (اس کے متعلق) جبرائیل سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ بیت معمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں، جب وہ اس سے نکلتے ہیں تو پھر دوبارہ اس میں واپس نہیں ہوتے، یہی ان کا آخری داخلہ ہوتا ہے، پھر سدرۃ المنتھی میرے قریب کر دیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے، اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے، اور اس کی جڑ سے چار نہریں نکلی ہوئی تھی، دو نہریں باطنی ہیں، اور دو ظاہری، میں نے جبرائیل سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: باطنی نہریں تو جنت میں ہیں، اور ظاہری نہریں فرات اور نیل ہیں، پھر میرے اوپر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں، میں لوٹ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میرے اوپر پچاس نمازیں فرض کی گئیں ہیں، انہوں نے کہا: میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں، میں بنی اسرائیل کو خوب جھیل چکا ہوں، آپ کی امت اس کی طاقت بالکل نہیں رکھتی، اپنے رب کے پاس واپس جایئے، اور اس سے گزارش کیجئیے کہ اس میں تخفیف کر دے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اللہ تعالیٰ نے چالیس نمازیں کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس کر دی ہیں، پھر انہوں نے مجھ سے وہی بات کہی جو پہلی بار کہی تھی، تو میں پھر اپنے رب عزوجل کے پاس واپس آیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تیس کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے انہیں بیس پھر دس اور پھر پانچ کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں نے کہا: (اب مجھے) اپنے رب عزوجل کے پاس (باربار) جانے سے شرم آ رہی ہے، تو آواز آئی: میں نے اپنا فریضہ نافذ کر دیا ہے، اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی ہے، اور میں نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔“ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 449]
449 ۔ اردو حاشیہ:
➊ «عِنْدَ الْبَيْتِ» سے بیت اللہ مراد ہے۔ آپ بیت اللہ کے ایک حصے ”حجر“ میں لیٹے ہوئے تھے۔ اسے حطیم بھی کہتے ہیں۔ بعض روایات میں ام ہانی کے گھر کا ذکر ہے۔ [تفسیر طبری: 9؍5]
ممکن ہے وہیں سوئے ہوں، پھر حطیم میں آگئے ہوں۔
➋”جاگنے سونے کے درمیان“ آپ کی عمومی نیند ایسی ہی تھی اور یہاں اس کا مطلب گہری نیند کی نفی ہے، یعنی آپ نیند کے ابتدائی مرحلے میں تھے، اسے جاگنے اور سونے کے درمیان سے تعبیر کیا گیا ہے۔
➌ ”تین آدمی آئے“ ظاہر صورت کے لحاظ سے آدمی کہا: ورنہ وہ فرشتے تھے۔ دو کا نام بعض روایات میں ہے: جبریل اور میکائیل علیہما السلام۔
➍آپ کے سینۂ اطہر کا چیرا جانا، پھر زمزم سے دھویا جانا اور ایمان وحکمت سے بھرا جانا، یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ترین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا باہمی راز ہے جس کی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی، ممکن ہے یہ آسمانوں پر جانے کی تیاری کا ابتدائی مرحلہ ہو۔
➎ استدلال کیا گیا ہے کہ زم زم کا پانی جنت کے پانی سے افضل ہے۔ تبھی آپ کے قلب اقدس کو اس سے دھویا گیا۔
➏”جانور“ کا نام روایات میں ”براق“ آیا ہے۔ [صحیح البخاری، مناقب الانصار، حدیث: 3887، وصحیح مسلم، الایمان، حدیث: 164]
مگر یہ بھی وصفی نام ہے جو برق سے لیا گیا ہے۔
➐”میں جبریل کے ساتھ چلا۔“ آنے والے تین ہمراہیوں میں سے ایک جبریل علیہ السلام ہی تھے۔ اس کے بعد باقی دو کا ذکر نہیں۔ ظاہر ہے وہ خالی تھال لے کر اور آپ کے دیدار سے مشرف ہو کر واپس چلے گئے۔
➑”ہم آسمان دنیا کے پاس آئے۔“ روایت مختصر ہے۔ بعض روایات میں مدینہ منورہ، طورسینا، بیت اللحم اور بیت المقدس جانے کا بھی ذکر ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 451) لیکن اس اضافے کے ساتھ یہ روایت منکر ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: [الاسراء والمعراج للالبانی، ص: 44]
➒ساتوں آسمانوں پر مختلف انبیاء علیہم السلام سے آپ کی ملاقات، ممکن ہے ان کو آپ کے استقبال و ملاقات کے لیے خصوصی طور پر لایا گیا ہو۔ اور یہی انسب ہے۔
➓ حضرت آدم اور ابراہیم علیہما السلام کا آپ کو بیٹا کہنا اس لیے ہے کہ وہ آپ کے اجداد میں شامل ہیںَ۔ نسب میں ان کا ذکر ہوتا ہے، جب کہ دوسرے انبیاء علیہم السلام آپ کے نسب میں نہیں آتے، لہٰذا وہ آپ کے چچازاد بھائیوں کے رتبے میں ہیں، تبھی انہوں نے آپ کو بھائی کہا:۔ (11)موسیٰ علیہ السلام کا رونا آپ یا آپ کی امت پر حسد کے طور پر نہیں تھا۔ حاشاوکلا۔ انبیاء علیہم السلام اس بیماری سے معصوم ہوتے ہیں، بلکہ یہ اپنی امت پر افسوس کی بنا پر تھا کہ میں نے اتنی محنت کی، اتنا عرصہ گزارا مگر میں یہ رتبہ حاصل نہ کرسکا کیونکہ جس نبی کے جتنے زیادہ پیروکار ہوں گے اسے اتنا ہی اجروثواب سے نوازا جائے گا۔ اگر حسد ہوتا تو واپسی کے وقت امت مسلمہ کے خیرخواہی کیوں کرتے اور پچاس(50) سے پانچ(5) نمازیں رہ جانے کا سبب کیوں بنتے؟ شاید اسی شبہے کے ازالے کے لیے یہ باتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بجائے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہلوائی گئیں، ورنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ساتویں آسمان پر تھے۔ واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے ملاقات پہلے ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام تو چھٹے آسمان پر تھے۔ بعض محدثین نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ واپسی کے وقت انبیاء علیہم السلام کی ترتیب بدل گئی ہو گی۔ (12)”بیت المعمور“ بیت اللہ کے عین اوپر ساتویں آسمان پر ہے جس میں فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔ جو ایک دفعہ آتا ہے اس کی دوبارہ باری نہیں آتی۔ اور داخل بھی روزانہ سترہزار ہوتے ہیں۔ اس سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ فرشتے دیگر تمام مخلوقات سے تعداد میں زیادہ ہیں۔ واللہ اعلم۔ [صحیح البخاری، بدء الخلق، حدیث: 3207]
(13) سدرۃ المنتہیٰ بیری کا درخت ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟ قطعیت سے کچھ نہیں کہا: جا سکتا۔ صوفیاء نے اسے اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کا تمثل قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ ”سدرہ“ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں۔ ”المنتہیٰ“ کے معنی ہیں: آخری، یعنی یہ مخلوقات کی انتہا ہے، یہاں عالم خلق ختم ہو جاتا ہے۔ بقول صوفیاء اس سے اوپر عالم امر ہے جہاں کسی مخلوق کی رسائی نہیں خواہ وہ کوئی انسان ہو یا فرشتہ۔ اس حدیث میں اسے ساتویں آسمان سے اوپر قرار دیا گیا ہے۔ آگے ایک حدیث میں اسے چھٹے آسمان پر بتلایا گیا ہے۔ تطبیق یوں ہے کہ جڑ چھٹے آسمان پر ہو گی اور شاخیں ساتویں آسمان پر پہنچی ہوئی ہوں گی۔ واللہ اعلم۔ (14)سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں چار نہروں (یادریاؤں) کا جو ذکر ہے ان میں سے دو پوشیدہ بتلایا گیا ہے، نیز یہ کہ وہ جنت میں ہیں۔ اور دو کو ظاہر کیا گیا ہے جو نیل اور فرات ہیں۔ صحیح مسلم کی روایت میں جنت کی دو باطنی نہروں کے نام ”سیحان“ اور ”جیجان“ بتلائے گئے ہیں۔ (صحیح مسلم، الحنۃ وتیمھا، حدیث: 2839) علاوہ ازیں ان چاروں نہروں کو جنت کی نہریں قرار دیا گیا ہے۔ دریائے نیل و فرات تو مشہور اور ان کے علاقے بھی معلوم ہیں اور سیحان و جیجان کی بابت مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں کہ یہ دونوں نہریں بہت بڑی ہیں اور ترکی میں ہیں۔ جیجان کی گزرگاہ مصیصہ ہے سیحان کی گزرگاہ اذنہ ہے۔ اور یہ دونوں نہریں بحرروم میں گرتی ہیں۔ ان کے علاوہ دو نہریں اور ہیں جن کے نام ان سے ملتے جلتے ہیں، یعنی جوجون اور سیحون۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا کہ حدیث میں مذکور ”جیجان اور سیحان“ سے یہی مراد ہیں۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تردید کی ہے اور مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی۔ اور مولانا موصوف نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ دریائے جیجون وہی ہے جسے آج کل دریائے آمو کہا جاتا ہے اور یہ افغانستان اور ازبکستان کے درمیان حد ہے۔ یہ بلخ، ترمذ اور آمل ودرغان سے گزرتا ہوا بحیرۂ خوارزم میں جاگرتا ہے۔ اور سیحون، جیجون کے ماور اء ہے جو خجندہ اور خوقند کے قریب اور تاشقند سے پہلے گزرتا ہے۔ اسے آج کل سیردریا کہا جاتا ہے۔ ان چاروں دریائوں کے جنت سے ہونے کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ان کی اصل جنت ہے اور وہاں سے یہ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان نہروں کے جنت ہے اور وہاں سے یہ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ان نہروں کے جنت سے ہونے سے مراد شاید یہ ہے کہ ان کی اصل جنت سے ہے، جیسے انسان کی اصل جنت سے ہے۔ چنانچہ یہ حدیث اس بات کے منافی نہیں ہے جو ان نہروں کی بابت مشہورومعلوم ہے کہ یہ نہریں زمین کے معروف سرچشموں سے پھوٹتی ہیں۔ اور اگر اس کے یہ یا اس سے ملتے جلتے معنی نہیں ہیں تو یہ حدیث امورغیب سے متعلق ہے جن پر ایمان رکھنا اور جو خبر دی گئی ہے، اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔۔۔“ [سلسلة الاحادیث الصحیحة، 1؍177، 178]
بعض لوگوں نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن علاقوں میں یہ نہریں بہتی ہیں، ان میں اسلام کا پھیلاؤ اور غلبہ ہو گا۔ یا یہ مطلب ہے کہ ان نہروں کے پانی سے پیدا ہونے والی خوراک جو لوگ استعمال کریں گے وہ جنتی ہوں گے۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں تاویلوں کے مقابلے میں اس کا پہلا ظاہری معنیٰ ہی زیادہ صحیح ہے۔ [شرح صحیح مسلم للنووي، الجنة حدیث: 2839، ومنة المنعم: 4؍322، مطبوعة دارالسلام، الریاض]
(15)واپسی کے موقع پر موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نبی کا ذکر نہیں۔ ممکن ہے واپسی پردیگر انبیاء سے ملاقات ہی نہ ہوئی ہو، یعنی جہاں سے ان کو لایا گیا تھا، وہیں بھیج دیا گیا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کوئی خصوصی بات نہ ہوئی ہو، اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ (16)حضرت موسیٰ علیہ السلام کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس اللہ عزوجل کے پاس جانا شاید اس شبہے کو دور کرنے کے لیے تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو آپ کی امت پر حسد ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کے الزام سے بچانے کے لیے دنیا میں پتھر والا واقعہ پیش آیا تھا۔ [صحیح البخاری، الغسل، حدیث: 278، وصحیح مسلم، الحیض، حدیث: 339]
(17) نمازوں کی تخفیف بعض روایات کے مطابق پانچ(5) پانچ(5) سے ہوئی۔ [صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 162]
گویا اس روایت میں اختصار ہے۔ آخر میں پانچ (5) کا رہ جانا بھی اس کا مؤید ہے۔ (18) «امضیت فریضتی» ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل فریضہ پانچ(5) نمازیں ہی تھیں۔ پچاس نمازوں کا مقرر ہونا گویا ان کے ثواب کے اظہار کے لیے تھا، باربار آنے جانے سے یہ عقدہ حل ہو گیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 449
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 451
´نماز کی فرضیت اور اس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس (کے متن) میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر۔`
یزید بن ابی مالک کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی، تو میں سوار ہو گیا، اور میرے ہمراہ جبرائیل علیہ السلام تھے، میں چلا، پھر جبرائیل نے کہا: اتر کر نماز پڑھ لیجئیے، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طیبہ میں نماز پڑھی ہے، اور اسی کی طرف ہجرت ہو گی، پھر انہوں نے کہا: اتر کر نماز پڑھئے، تو میں نے نماز پڑھی، انہوں نے کہا: کیا جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طور سینا پر نماز پڑھی ہے، جہاں اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا، پھر کہا: اتر کر نماز پڑھئے، میں نے اتر کر نماز پڑھی، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز پڑھی ہے، جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی، پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا، تو وہاں میرے لیے انبیاء علیہم السلام کو اکٹھا کیا گیا، جبرائیل نے مجھے آگے بڑھایا یہاں تک کہ میں نے ان کی امامت کی، پھر مجھے لے کر جبرائیل آسمان دنیا پر چڑھے، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں آدم علیہ السلام موجود ہیں، پھر وہ مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں دونوں خالہ زاد بھائی عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام موجود ہیں، پھر تیسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں یوسف علیہ السلام موجود ہیں، پھر چوتھے آسمان پر چڑھے تو وہاں ہارون علیہ السلام ملے، پھر پانچویں آسمان پر چڑھے تو وہاں ادریس علیہ السلام موجود تھے، پھر چھٹے آسمان پر چڑھے وہاں موسیٰ علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان پر چڑھے وہاں ابراہیم علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر چڑھے اور ہم سدرۃ المنتہیٰ تک آئے، وہاں مجھے بدلی نے ڈھانپ لیا، اور میں سجدے میں گر پڑا، تو مجھ سے کہا گیا: جس دن میں نے زمین و آسمان کی تخلیق کی تم پر اور تمہاری امت پر میں نے پچاس نمازیں فرض کیں، تو تم اور تمہاری امت انہیں ادا کرو، پھر میں لوٹ کر ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا، میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: تم پر اور تمہاری امت پر کتنی (نمازیں) فرض کی گئیں؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں، تو انہوں نے کہا: نہ آپ اسے انجام دے سکیں گے اور نہ ہی آپ کی امت، تو اپنے رب کے پاس واپس جایئے اور اس سے تخفیف کی درخواست کیجئے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے دس نمازیں تخفیف کر دیں، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں پھر واپس گیا تو اس نے (پھر) دس نمازیں تخفیف کر دیں، میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں واپس گیا، تو اس نے مجھ سے دس نمازیں تخفیف کر دیں، پھر (باربار درخواست کرنے سے) پانچ نمازیں کر دی گئیں، (اس پر بھی) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اپنے رب کے حضور واپس جایئے اور تخفیف کی گزارش کیجئے، اس لیے کہ بنی اسرائیل پر دو نمازیں فرض کی گئیں تھیں، تو وہ اسے ادا نہیں کر سکے، چنانچہ میں اپنے رب کے حضور واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اس نے فرمایا: جس دن میں نے زمین و آسمان پیدا کیا، اسی دن میں نے تم پر اور تمہاری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، تو اب یہ پانچ پچاس کے برابر ہیں، انہیں تم ادا کرو، اور تمہاری امت (بھی)، تو میں نے جان لیا کہ یہ اللہ عزوجل کا قطعی حکم ہے، چنانچہ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا: پھر جایئے، لیکن میں نے جان لیا تھا کہ یہ اللہ کا قطعی یعنی حتمی فیصلہ ہے، چنانچہ میں پھر واپس نہیں گیا۔“ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 451]
451 ۔ اردو حاشیہ: شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت اس سیاق سے منکر ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس روایت کے طریق کے متعلق فرماتے ہیں: «فیھا عرابة ونکارة جدا» ”اس طریق میں سخت غرابت و نکارت ہے۔“ اس کی سند میں ایک تو یزید بن عبدالرحمٰن بن ابی مالک دمشقی ہے جو صدوق ہے لیکن کبھی کبھار وہم کا شکار ہو جاتا تھا، دوسرے اس سے روایت کرنے والے سعید بن عبدالعزیز تنوخی ہیں، اگرچہ ثقہ ہیں لیکن آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ (تقریب) لہٰذا اس روایت میں مدینہ طیبہ، طورسینا اور بیت اللحم میں اترنے اور وہاں نماز پڑھنے کا واقعہ درست نہیں۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [الإسراء والمعراج للالباني، ص: 44]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 451
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3346
´سورۃ الم نشرح سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ اپنی قوم کے ایک شخص مالک بن صعصہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کے عالم میں تھا (کچھ سو رہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا) اچانک میں نے ایک بولنے والے کی آواز سنی، وہ کہہ رہا تھا تین آدمیوں میں سے ایک (محمد ہیں) ۱؎، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں زمزم کا پانی تھا، اس نے میرے سینے کو چاک کیا یہاں سے یہاں تک“، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس رضی الله عنہ سے کہا: کہاں تک؟ انہوں نے کہا: آپ نے فرمایا: ”پیٹ کے نیچے تک“، پھر آپ نے فرمایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3346]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان تین میں ایک جعفر،
ایک حمزہ اور ایک نبیﷺتھے۔
2؎:
شق صدر کا واقعہ کئی بار ہوا ہے،
انہی میں سے ایک یہ واقعہ ہے۔
3؎:
یہ قصہ اسراء اورمعراج کا ہے جو بہت معروف ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3346
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 411
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بتایا: ”میرے پاس برّاق لایا گیا (وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ تھا۔ گدھے سے اونچا اور خچر سے کم (چھوٹا)، اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں اس کی نظر پہنچتی) میں اس پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچا اور اس کو اس حلقہ (کنڈے) سے باندھ دیا جس سے انبیاء علیہم السلام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں نکلا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس ایک شراب کا برتن اور دوسرا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:411]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
بُرَاقٌ:
یہ وہ تیز رفتار (برق رفتار)
سواری ہے،
جس پر سوار ہو کر آپ بیت المقدس پہنچے۔
(2)
مُقَدَّسٌ:
اگر اس کو تقدیس سے مفعول کا صیغہ بنائیں تو معنی ہو گا،
”پاک کیا گیا“،
اور اگر اس کو مصدر میمی بنا کر "مقدس" پڑھیں تو معنی ہو گا ”طہارت و پاکیزگی کا گھر“ کہ وہاں انسان گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔
اور اگر اس کو ظرف مکان بنائیں تو معنی ہو گا ”وہ گھر جو خود پاک ہے“ کیونکہ وہ بتوں کی آلودگی سے پاک ہے۔
(3)
فِطْرَةٌ:
اس سے مراد،
اسلام اور استقامت ہے،
کیونکہ دودھ انسان کی طبعی و فطرتی غذا ہے،
جو انسان کی نشوونما کا باعث ہے،
اسی طرح اللہ کی ربوبیت و الوہیت کا اقرار،
انسان کی فطرت اور سرشت میں رکھ دیا گیا ہے۔
(4)
بَيْتُ الْمَعْمُورِ:
آباد گھر،
کعبہ کے محاذات میں ساتویں آسمان پر عبادت گاہ ہے،
جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت کے لیے آتے ہیں اور ایک دفعہ آ جانے والوں کو دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔
(5)
سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى:
فرشتوں کے جانے کی سرحد پر واقع بیری ہے،
فرشتے اس سے اوپر کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتے،
کیونکہ وہ اوپر نہیں جا سکتے،
یا اس لیے کہ اوپر سے جو کچھ اترتا ہے وہ یہاں آ کر رک جاتا ہے،
اور نیچے سے جو کچھ چڑھتا ہے وہ بھی یہیں رک جاتا ہے۔
(6)
فِيْلَةٌ:
فِيْلٌ کی جمع ہے،
ہاتھی۔
قِلَالٌ:
قُلَّةٌ کی جمع ہے،
بڑا مٹکا،
جس میں دو یا اس سے زائد مشکیں ڈالی جا سکتی ہیں۔
فوائد ومسائل:
(1)
واقعہ اسرا اور معراج مکہ معظمہ میں پیش آیا اور بیداری میں،
آپ ﷺ کے جسد اطہر کو براق کے ذریعہ بیت المقدس لے جایا گیا،
یہاں تک کے سفر کو اسرا کا نام دیا جاتا ہے،
اور پھر بیت المقدس سے آسمانوں پر معراج (سیڑھی،
لفٹ)
کے ذریعہ سے لے جایا گیا،
اس کو معراج کا نام دیا جاتا ہے،
اگر چہ بعض ائمہ نے دونوں کو اسرا یا معراج سے تعبیر کیا ہے،
اور سائنس کی ترقی کے موجودہ دور میں اس پر کسی قسم کے اعتراض اور شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہی۔
انسان جو انتہائی محدود طاقت اور علم کا مالک ہے وہ انتہائی حیرت انگیز فضائی سفر کر رہا ہے،
تو خالق کائنات جس کی قوت اور علم کی کوئی حد نہیں،
اس کے کسی فعل پر کیسے تعجب یا اعتراض کیا جاسکتا ہے؟ (2)
آسمانوں کا وجود ہے وہ محض حد نظر کا نام نہیں ہے،
اور کوئی انسان بغیر اجازت کے آسمان پر نہیں جا سکتا،
ان پر فرشتوں کی صورت میں چوکس پہرے دار موجود ہیں،
کوئی ان کی نظر سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔
(3)
اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر عرش پر موجود ہے،
اور اگر وہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے تو پھر نبی اکرم ﷺ کو اوپر لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ کہ وہاں جا کر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے کلام کیا۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں حروف وآواز ہے،
جس کا آپ نے سماع کیا،
اور بار بار اپنی درخواست کا جواب سنا۔
(4)
نماز اتنا اہم فریضہ ہے کہ اس کو معراج کا تحفہ قرار دیا جاسکتا ہے،
اور یہ اللہ تعالیٰ کا امت محمدیہ پر احسان ہے،
اور آپ ﷺ کی شفقت ورحمت کا مظہر ہے کہ نمازیں پچاس سے پانچ کر دی گئیں،
لیکن اجر وثواب پچاس کا برقرار رہا،
اس میں کمی واقع نہیں ہوئی۔
(5)
آخری بار جب موسیٰ علیہ السلام نے پھر جانے کا کہا،
تو آپ ﷺ نے فرمایا:
”اب میں شرم محسوس کرتا ہوں“ کیونکہ ایک تو آپ کو فرمایا جا چکا تھا کہ اب تبدیلی نہیں ہوگی۔
اور پھر چونکہ ہر دفعہ پانچ کی تخفیف ہوئی تھی اب جانے کا معنی یہ تھا کہ ایک نماز نہیں پڑھ سکتے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 411
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 412
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے پاس فرشتے آئے اور مجھے زمزم کے پاس لے گئے، میرا سینہ چاک کیا گیا، پھر زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر مجھے چھوڑ دیا گیا یعنی جس جگہ سے اٹھایا تھا وہیں چھوڑ دیا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:412]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
شُرِحَ عَنْ صَدْرِي:
میرا سینہ چاک کیا گیا۔
(2)
أُنْزِلْتُ:
مجھے چھوڑ دیا گیا۔
(تُرِكْتُ)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 412
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 415
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بتایا: مکہ میں میرے گھر کی چھت کھولی گئی، جبریل ؑ اترے اور میرا سینہ چاک کیا، پھراسے زمزم کے پانی سے دھویا، پھر سونے کا طشت لا کر جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا اسے میرے سینے میں خالی کر دیا، پھر سینہ کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آسمان کی طرف لے کر چڑھا۔ جب ہم آسمانِ دنیا پر پہنچے تو جبریلؑ نے پہلے آسمان کے دربان سے کہا: دروازہ کھولو! اس نے پوچھا: یہ کون ہے؟ کہا: جبریل ہے۔ پوچھا: کیا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:415]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
أَسْوِدَةٌ:
سواد کی جمع ہے،
شکل و صورت،
ہیولا،
بہت بڑی تعداد۔
(2)
نَسَمٌ:
نَسْمَةٌ کی جمع ہے،
روح،
سانس۔
(3)
ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى:
میں ایک بلند اور ہموار جگہ پر چڑھ گیا۔
(4)
صَرِيفَ الْأَقْلَامِ:
قلموں کے لکھنے کی آواز۔
(5)
شَطْرٌ:
آدھا حصہ،
یا مطلقاً حصہ یا ایک اہم حصہ۔
فوائد ومسائل:
(1)
انسان کے سینہ کو چاک کر کے دل کو صاف کرنا،
آج سائنس کی ترقی کے دور میں کوئی خلاف عقل چیز نہیں رہی،
اس لیے جبریلؑ کا زمزم کے پانی سے آپ کے دل مبارک کو دھونا اور پھر اس میں ایمان وحکمت بھرنا،
کوئی قابل تعجب چیز نہیں رہا۔
ایمان اور حکمت اگرچہ ہمارے لیے کوئی محسوس اور مادی چیز نہیں ہے،
لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے ان کا وجود ہے،
جیسا کہ ہوا،
بجلی اور روشنی کا ہمارے سامنے وجود نہیں ہے،
لیکن جدید آلات کے ذریعہ ان کی مقدار معلوم کر لی جاتی ہے،
اس لیے ان کو طشت میں ڈالنا اور اس کا ان سے بھر جانا قابل اعتراض نہیں ہے،
اور نہ ہی اس کی تاویل کی ضرورت ہے،
کہ اس سے مراد کوئی ایسی چیز ہے،
جس سے ایمان وحکمت پیدا ہوتے ہیں۔
(2)
جنت حضرت آدمؑ کے دائیں طرف ہے،
اس لیے جنتی ارواح دائیں طرف نظر آتی ہیں،
اور جہنم بائیں طرف ہے اور دوزخیوں کی ارواح بائیں طرف نظر آتی ہیں۔
(3)
اس حدیث میں آیا ہے کہ حضرت ابو ذرؓ نے انبیاء کے مقامات کا تعین نہیں فرمایا،
پھر آگے ثمّ کے ذریعہ ان کی ملاقات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ثمّ ترتیب وقوعی پر دلالت نہیں کرتا،
کہ واقعتا ایسا ہے،
محض ترتیب ذکر ہی کے لیے ہے،
کہ ان سب کا تذکرہ کیا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ﴾ (البلد: 17)
تو یہاں یہ معنی نہیں ہے:
کہ پہلے گردن آزاد کی،
بھوک کے دن یتیموں کو کھلایا یا محتاج مسکینوں کو کھلایا،
اس کے بعد ایمان لایا،
اور ایک دوسرے کو صبر ورحمت کی تلقین کی۔
بلکہ مقصد یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ،
یہ صفات بھی موجود ہیں،
حدیث میں صرف یہی مقصو د ہے کہ ان سب انبیاءؑ سے مختلف مقامات پر ملاقات ہوئی۔
یہ بیان کرنا مقصد نہیں ہے،
کہ پہلے کس سے ملاقات ہوئی،
پھر کس سے،
کیونکہ اس کی نفی تو پہلے کر دی گئی ہے۔
(4)
حضرت ابراہیمؑ کی ملاقات چھٹے آسمان پر،
استقبال یا الواداع کے وقت ہے،
ان کا اصل ٹھکانا ساتویں آسمان پر ہے۔
(5)
نمازوں کی تخفیف کا مسئلہ اس حدیث میں انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے،
فی الواقع آپ باربار اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔
اس طرح نو دفعہ حاضری میں،
پانچ،
پانچ کرکے پینتالیس نمازوں کی تخفیف ہوئی ہے،
لیکن اجر وثواب میں فرق نہیں پڑا،
اس لیے پانچ کو پچاس کے برابر ٹھہرایا گیا ہے۔
(6)
اسرا ومعراج کو صحیح طور سمجھنے کے لیے ضروری ہے،
کہ اس کے بارے میں جس قدر احادیث مختلف کتب حدیث میں آئی ہیں سب کو جمع کیا جائے،
اور ان کی روشنی میں معانی کا تعین کیا جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 415
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 416
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے شاید اپنی قوم کے ایک آدمی حضرت مالک بن صعصعہ ؓ سے نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کہ میں بیت اللہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا، اس اثناء میں، میں نے ایک کہنے والے کو کہتے سنا: کہ تین آدمیوں میں سے دو کے درمیان والا ہے۔ پھر میرے پاس آئے اور مجھے لے جایا گیا۔ پھر میرے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں زمزم کا پانی تھا اور یہاں سے لے کر یہاں تک میرا سینہ کھولا گیا۔“ قتادہؒ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:416]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت موسیٰؑ کا رونا اس بنا پر تھا کہ انہوں نے بنو اسرائیل کی تعلیم وتربیت کے لیے بہت جتن کیے،
لیکن وہ ان کی محنت کے مطابق درست نہ ہوئے،
اور اپنی کثرت کے باوجود ان میں کم لوگ جنتی ہوں گے،
اس پر انہیں رنج اور افسوس ہوا۔
(2)
حضرت موسیؑ نے آپ کو غلام (نوجوان)
قرار دیا،
کیونکہ آپ ﷺ اس عمر میں بھی نوجوانوں والا جذبہ اور قوت رکھتے تھے،
اور اپنی امت کی تعلیم اور دین کے فروغ کے لیے مسلسل اور پیہم کوشش فرما رہے تھے،
اس عمر میں اتنی تگ ودو اور محنت عام طور پر ممکن نہیں ہے۔
(3)
نیل،
مصر میں بہنے والا دریا ہے اور فرات عراق میں ان دونوں دریاؤں کا اصل منبع سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ ہے،
پھر ان کا ظہور دنیا میں ہوا،
اس لیے ان کا پانی،
انتہائی شیریں،
صاف زور ہضم اور سرسبزی وشادابی کا باعث ہے۔
البینات عاصم حداد میں کچھ دلائل کی روشنی میں ایک اور معنی بیان کیا گیا ہے،
تفصیل کے لیے دیکھئے:
ص: 192 تا 194۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 416
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3430
3430. حضرت مالک بن صعصعہ ؓسے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین کو شب معراج کا واقعہ بیان فرمایا: ”جب حضرت جبرئیل ؑ اوپر چڑھے حتیٰ کہ وہ دوسرے آسمان پر آئے، پھر دروازہ کھولنے کے لیے کہا گیا تو پوچھا گیا: یہ کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ پھر پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: حضرت محمد ﷺ ہیں۔ دریافت کیا گیا: کیا انھیں (آپ ﷺ کو) بلایا گیا تھا؟ کہا: جی ہاں۔ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:)پھر جب میں وہاں پہنچا تو حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ وہاں موجود تھے۔ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حضرت جبریل ؑ نے بتایا کہ یہ یحییٰ اور عیسیٰ ؑ ہیں، آپ انھیں سلام کریں۔ میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے جواب دیا۔ پھر ان دونوں نے فرمایا: ”اے نیک سیرت بھائی اور خوش خصال نبی! خوش آمدید۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3430]
حدیث حاشیہ:
روایت میں حضرت یحیی ؑ کاذکر ہے یہی باب سے وجہ مناسبت ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ کےوالدہ حضرت مریم ؑ اور حضرت یحیی ؑ کی والدہ حضرت ایشاع دونوں ماں جائی تھیں جن کی ماں کا نام ہے۔
مریم سریانی لفظ ہےجس کےمعنی خادمہ کےہیں کرمانی و فتح وغیرہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3430
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 349
349. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”جب میں مکے میں تھا تو ایک شب میرے گھر کی چھت پھٹی۔ حضرت جبریل ؑ اترے، انھوں نے پہلے میرے سینے کو چاک کر کے اسے آب زم زم سے دھویا، پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا، بعد میں سینہ بند کر دیا، پھر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان دنیا کی طرف لے چڑھے۔ جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبریل ؑ نے داروغہ آسمان سے کہا: دروازہ کھول۔ اس نے کہا: کون ہے؟ بولے: میں جبریل ہوں۔ پھر اس نے پوچھا: تمہارے ہمراہ بھی کوئی ہے؟ حضرت جبریل نے کہا: ہاں، میرے ساتھ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اس نے پھر دریافت کیا: انھیں دعوت دی گئی ہے؟ حضرت جبریل ؑ نے کہا: ہاں۔ اس نے جب دروازہ کھول دیا تو ہم آسمان دنیا پر چڑھے، وہاں ہم نے ایک ایسے شخص کو بیٹھے دیکھا جس کی دائیں جانب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:349]
حدیث حاشیہ:
معراج کا واقعہ قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ نجم کے شروع میں بیان ہوا ہے اور احادیث میں اس کثرت کے ساتھ اس کا ذکر ہے کہ اسے تواتر کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔
سلف امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج جاگتے میں بدن اور روح ہر دو کے ساتھ ہوا۔
سینہ مبارک کا چاک کرکے آبِ زمزم سے دھوکر حکمت اور ایمان سے بھرکر آپ کوعالم ملکوت کی سیر کرنے کے قابل بنادیاگیا۔
یہ شق صدردوبارہ ہے۔
ایک بارپہلے حالت رضاعت میں بھی آپ کا سینہ چاک کرکے علم وحکمت و انوارِ تجلیات سے بھردیاگیا تھا۔
دوسری روایات کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے، تیسرے پر حضرت یوسف علیہ السلام سے، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام سے اور پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں پر سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے ملاقات فرمائی۔
جب آپ مقام اعلیٰ پر پہنچ گئے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں فرشتوں کی قلموں کی آوازیں سنیں اور مطابق آیت شریفہ لقدرای من آیات ربہ الکبریٰ (النجم: 18)
آپ نے ملااعلیٰ میں بہت سی چیزیں دیکھیں، وہاں اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔
پھر آپ کے نوبارآنے جانے کے صدقے میں صرف پنچ وقت نماز باقی رہ گئی، مگرثواب میں وہ پچاس کے برابر ہیں۔
ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ نماز معراج کی رات میں اس تفصیل کے ساتھ فرض ہوئی۔
سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان پر ایک بیری کا درخت ہے جس کی جڑیں چھٹے آسمان تک ہیں۔
فرشتے وہیں تک جاسکتے ہیں آگے جانے کی ان کو بھی مجال نہیں ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ منتہیٰ اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ اوپر سے جو احکام آتے ہیں وہ وہاں آکر ٹھہرجاتے ہیں اور نیچے سے جو کچھ جاتا ہے وہ بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
معراج کی اور تفصیلات اپنے مقام پر بیان کی جائیں گی۔
آسمانوں کا وجود ہے جس پر جملہ کتب سماویہ اور تمام انبیاءکرام کا اتفاق ہے، مگر اس کی کیفیت اور حقیقت اللہ ہی بہترجانتا ہے۔
جس قدر بتلادیا گیا ہے اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور فلاسفہ وملاحدہ اور آج کل کے سائنس والے جو آسمان کا انکار کرتے ہیں۔
ان کے قول باطل پر ہرگز کان نہ لگانے چاہئیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 349
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3570
3570. شریک بن عبداللہ بن ابو نمرہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا، انھوں نے ہمیں اس رات کاحال بیان کیا جس میں نبی کریم ﷺ کو مسجدحرام(بیت اللہ شریف) سے سیرکرائی گئی تھی۔ آپ کے پاس وحی آنے سے پہلے تین شخص آئے جبکہ آپ مسجد حرام میں محو استراحت تھے۔ ان تینوں میں سے ایک نے کہا: وہ کون شخص ہیں؟دوسرے نے کہا: وہی جو ان سب سے بہتر ہیں۔ تیسرے نے کہا، جو آخر میں تھا: ان سب سےبہتر کو لے چلو۔ اس رات اتنی ہی باتیں ہوئیں۔ آپ نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسری رات پھر آئے بایں۔ حالت کہ آپ کا دل بیدار تھا کیونکہ نبی کریم ﷺ کی آنکھیں سو جاتی تھیں لیکن آپ کا دل نہیں سوتا تھا بلکہ تمام انبیاء ؑ کا ہی حال تھا کہ ان کی آنکھیں سوجاتی تھیں لیکن ان کے دل نہیں سوتے تھے۔ پھر حضرت جبرئیل ؑ نے اپنے ذمہ یہ کام لیا اور وہ آپ ﷺ کو آسمان کی طرف چڑھا کرلے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3570]
حدیث حاشیہ:
اس کے بعد وہی قصہ گزرا جو معراج والی حدیث میں اوپر گزرچکا ہے۔
اس روایت سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو کہتے ہیں کہ معراج سوتے میں ہوا تھا۔
مگر یہ روایت شاذ ہے، صرف شریک نے یہ روایت کیا ہے کہ آپ اس وقت سورہے تھے۔
عبدالحق نے کہا کہ شریک کی روایت منفرد و مجہول ہے اور اکثر اہل حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ معراج بیداری میں ہوا تھا۔
(وحیدی)
مترجم کہتا ہے کہ اس حدیث سے معراج جسمانی کا انکار ثابت کرنا کج فہمی ہے۔
روایت کے آخر میں صاف موجود ہے ”ثم عرج به إ_x0004__x0008_لی السماء“ یعنی جبرئیل ؑ آپ کو جسمانی طور سے اپنے ساتھ لے کر آسمان کی طرف چڑھے۔
، ہاں اس واقعہ کا آغاز ایسے وقت میں ہوا کہ آپ مسجد حرام میں سورہے تھے۔
بہر حال معراج جسمانی حق ہے جس کے قرآن وحدیث میں بہت سے دلائل ہیں۔
اس کا انکار کرنا سورج کے وجود کا انکار کرنا ہے جب کہ وہ نصف النہار میں چمک رہا ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3570
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:349
349. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”جب میں مکے میں تھا تو ایک شب میرے گھر کی چھت پھٹی۔ حضرت جبریل ؑ اترے، انھوں نے پہلے میرے سینے کو چاک کر کے اسے آب زم زم سے دھویا، پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا، بعد میں سینہ بند کر دیا، پھر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان دنیا کی طرف لے چڑھے۔ جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبریل ؑ نے داروغہ آسمان سے کہا: دروازہ کھول۔ اس نے کہا: کون ہے؟ بولے: میں جبریل ہوں۔ پھر اس نے پوچھا: تمہارے ہمراہ بھی کوئی ہے؟ حضرت جبریل نے کہا: ہاں، میرے ساتھ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اس نے پھر دریافت کیا: انھیں دعوت دی گئی ہے؟ حضرت جبریل ؑ نے کہا: ہاں۔ اس نے جب دروازہ کھول دیا تو ہم آسمان دنیا پر چڑھے، وہاں ہم نے ایک ایسے شخص کو بیٹھے دیکھا جس کی دائیں جانب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:349]
حدیث حاشیہ:
1۔
شب معراج میں فرضیت نماز کی یہ حکمت تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رات فرشتوں کی مختلف عبادات کو دیکھا، ان میں جو حالت قیام میں تھے وہ بیٹھتے نہیں تھے اورجو رکوع میں تھے وہ سجدے میں نہ جاتے تھے اور بہت سے فرشتے حالت سجدے میں پڑے اپنا سر نہیں اٹھا رہے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تمام انواع عبادت کو ایک رکعت نماز میں جمع کردیا، نیز اس میں نماز کی عظمت اور اس کے شرف کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس کی فرضیت میں یہ خصوصیت رکھی گئی کہ اس کی فرضیت بلاواطہ فرشتہ ہوئی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ مزید لکھتے ہیں کہ شب معراج میں فرضیت نماز کی حکمت تھی کہ معراج سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو ظاہری اور باطنی طہارت سے آراستہ کیا گیا کہ آپ کے قلب مبارک کو آب زم زم سے دھوکر اس میں ایمان وحکمت کوبھردیا گیا کہ آپ اپنے رب سے مناجات کے لیے مستعد ہوجائیں۔
اسی طرح نماز میں بھی بندہ اپنے رب سے رازونیاز کی باتیں کرنے کےلیے پہلے خود کو طہارت ونظافت سے مزین کرتا ہے، اس لیے مناسب ہواکہ معراج کی مناسبت سے اس امت پر نماز کو فرض کردیا جائے، نیز اس سے ملاء اعلیٰ پر رسول اللہ ﷺ کا شرف ظاہرکرنا بھی مقصود تھا تاکہ ساکنان حریم قدس ملائکہ اورحضرات انبیائے کرام علیہ السلام کی امامت کروائیں اور اپنے رب سے مناجات کریں، اس مناسبت سے نمازی بھی دوران نماز میں اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔
(فتح الباري: 596/1)
2۔
اس روایت میں بیت المقدس تک اسراء کا تذکرہ نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ معراج اسراء کے بغیر ہے، بلکہ کسی راوی نے واقعہ مختصر کردیا ہے۔
امام بخاری ؒ اس بات کے قائل ہیں کہ جس رات میں نماز فرض ہوئی اس رات میں بیت المقدس تک اسراء بھی ہے اورعالم بالا تک معراج بھی ہواہے۔
اگرچہ اسرا اورمعراج دوالگ الگ چیزیں ہیں، یعنی مکے سے بیت المقدس تک کاسفر اسراکہلاتا ہے اور بیت المقدس سے عالم بالا کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔
امام بخاری ؒ کی تحقیق یہ ہے کہ دونوں سفر ایک ہی رات سے متعلق ہیں، چنانچہ عنوان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسراء کی رات نماز کیسے فرض ہوئی؟ حالانکہ روایت میں اسراء کا ذکر نہیں ہے، لیکن اسراء کا واقعہ بھی اسی رات میں بحالت بیداری پیش آیا۔
واللہ أعلم۔
3۔
اس روایت سے امام بخاریؒ کامقصود صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو امت پر پچاس نمازیں فرض فرمادیں جو بندے اور آقا کے درمیان مناجات کا ذریعہ ہیں، چنانچہ آپ بے چون چرا اس تحفے کو لے کر واپس ہوئے۔
آپ نے یہ خیال نہیں کیا کہ پچاس نمازیں کی طرح ادا ہوں گی، کیونکہ آپ مقام عبدیت میں ہیں، عبودیت کامل تھی جس کا تقاضا تھا کہ جو چیز آقا کی طرف سے عطا کی جائے، اسے بلاچون وچرا قبول کیاجائے۔
ان پچاس نمازوں کی فرضیت میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت کی طرف بھی اشارہ ہے، کیونکہ بندوں پر اللہ کی سب سے بڑی نعمت نماز ہے۔
جس قدر یہ نعمت زیادہ ہوگی، اس قدر شان نمایاں ہوگی۔
دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نوبار اپنے رب کے حضور آمدروفت سے پچاس نمازوں میں سے پانچ رہ گئیں۔
ایک مرتبہ میں ہی تخفیف کرکے پانچ کی جاسکتی تھیں، مگر اس صورت میں آپ کی شان محبوبیت کا اظہار نہ ہوتا۔
بار بار حاضری کا موقع دیا جارہا ہے، آخر میں فرمادیا کہ اب نمازیں پانچ ہیں۔
وہ پانچ رہتے ہوئے بھی پچاس ہی ہیں۔
چونکہ قرآنی ضابطے کے مطابق ایک نیکی کااجر دس گنا ہے، اس لیے پانچ نمازیں اداکرنے سے پچاس ہی کا ثواب لکھاجاتاہے۔
(فتح الباري: 600/1)
4۔
آخری مرتبہ پانچ نمازیں رہ جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے واپس جانے کی جو وجہ ظاہر کی ہے وہ یہ کہ اب مجھے اپنے رب سے درخواست پیش کرنے میں شرم آرہی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ پانچ کی تخفیف سے یہ اندازہ لگالیاتھا کہ اگر پانچ رہ جانے کے بعد بھی درخواست کریں گے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ باقی ماندہ پانچ نمازیں بھی بالکل معاف کردی جائیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطیے کو واپس کیا جارہا ہے جو کسی حال میں مناسب نہیں تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے پسند نہ کیا۔
اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کو یقین ہوگیا تھا کہ ہربار میں جو باقی حکم رہ گیا ہے وہ حتمی اور آخری فیصلہ نہیں، لیکن آخری بار میں پانچ نمازوں کے ساتھ فرمادیاتھا کہ میرے ہاں قول وفیصلہ کی الٹ پلٹ نہیں ہوتی، اس سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اب آخری اور حتمی فیصلہ ہوچکاہے، اب تخفیف کی درخواست کرنا مناسب نہیں۔
(فتح الباري: 600/1)
5۔
حدیث میں ہے کہ معراج میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں:
پانچ نمازیں، سورہ بقرہ کی آخری آیات اوربشرط عدم شرک کبائر کی مغفرت۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 431 (173)
پانچ نمازوں کی عطا سے مراد ان کی فرضیت ہے۔
سورہ بقرہ کی آخری آیات (آمَنَ الرَّسُولُ)
سے ختم سورت تک ان آیات میں اس اُمت کے لیے اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت، تخفیف احکام، بشارت مغفرت اور کافروں کے مقابلے میں نصرت کابیان ہے۔
اس عطا سے مراد عطائے مضمون ہے، کیونکہ نزول کے لحاظ سے تو تمام سورہ بقرہ مدنی ہے اور معراج مکرمہ میں ہوئی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ شب معراج میں بلاواسطہ یہ آیات رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہوں، پھر جب حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں تومصحف میں لکھی گئیں۔
کبائر معاصی کی مغفرت کا مطلب یہ نہیں کہ موحدین اہل کبائر کو قیامت کے دن عذاب ہی نہیں ہوگا، کیونکہ یہ بات تو اجماع اہل سنت کےخلاف ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار ومشرکین کی طرح امت کے اہل کبائر ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے، بلکہ انھیں آخر کار جہنم سے نکال لیا جائےگا۔
واللہ أعلم۔
نوٹ:
۔
اسراء اورمعراج کے متعلق دیگرمباحث کتاب احادیث الانبیاء حدیث: 3342۔
میں بیان ہوں گے۔
بإذن اللہ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 349
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3430
3430. حضرت مالک بن صعصعہ ؓسے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین کو شب معراج کا واقعہ بیان فرمایا: ”جب حضرت جبرئیل ؑ اوپر چڑھے حتیٰ کہ وہ دوسرے آسمان پر آئے، پھر دروازہ کھولنے کے لیے کہا گیا تو پوچھا گیا: یہ کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ پھر پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: حضرت محمد ﷺ ہیں۔ دریافت کیا گیا: کیا انھیں (آپ ﷺ کو) بلایا گیا تھا؟ کہا: جی ہاں۔ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:)پھر جب میں وہاں پہنچا تو حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ وہاں موجود تھے۔ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حضرت جبریل ؑ نے بتایا کہ یہ یحییٰ اور عیسیٰ ؑ ہیں، آپ انھیں سلام کریں۔ میں نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے جواب دیا۔ پھر ان دونوں نے فرمایا: ”اے نیک سیرت بھائی اور خوش خصال نبی! خوش آمدید۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3430]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں حضرت یحییٰ ؑ کا ذکر خیر ہے۔
اسی منابت سے امام بخاری ؒنے اسے بیان کیا ہے۔
2۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ حضرت مریم ؑ اورحضرت یحییٰ کی والدہ حضرت ایشاع بنت حنا ہیں۔
یہ دونوں مادری بہنیں ہیں، اس بنا پر یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔
یہ قرابت ہی ان دونوں کے دوسرے آسمان میں اکٹھے رہنے کا سبب بنی ہے۔
حضرت زکریا ؑ نے حضرت مریم ؑ کی کفالت کی تھی، قرابت داری کے علاوہ روحانی تعلق بھی تھا، اس لیے حضرت ذکریا، ان کے لخت جگر حضرت یحییٰ ؑ نیز حضرت مریم ؑ اور ان کے جگرگوشے حضرت عیسیٰ ؑ کا قرآن میں یکجا ذکر آتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3430
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3570
3570. شریک بن عبداللہ بن ابو نمرہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا، انھوں نے ہمیں اس رات کاحال بیان کیا جس میں نبی کریم ﷺ کو مسجدحرام(بیت اللہ شریف) سے سیرکرائی گئی تھی۔ آپ کے پاس وحی آنے سے پہلے تین شخص آئے جبکہ آپ مسجد حرام میں محو استراحت تھے۔ ان تینوں میں سے ایک نے کہا: وہ کون شخص ہیں؟دوسرے نے کہا: وہی جو ان سب سے بہتر ہیں۔ تیسرے نے کہا، جو آخر میں تھا: ان سب سےبہتر کو لے چلو۔ اس رات اتنی ہی باتیں ہوئیں۔ آپ نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسری رات پھر آئے بایں۔ حالت کہ آپ کا دل بیدار تھا کیونکہ نبی کریم ﷺ کی آنکھیں سو جاتی تھیں لیکن آپ کا دل نہیں سوتا تھا بلکہ تمام انبیاء ؑ کا ہی حال تھا کہ ان کی آنکھیں سوجاتی تھیں لیکن ان کے دل نہیں سوتے تھے۔ پھر حضرت جبرئیل ؑ نے اپنے ذمہ یہ کام لیا اور وہ آپ ﷺ کو آسمان کی طرف چڑھا کرلے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3570]
حدیث حاشیہ: 1۔
اس حدیث سے مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک وصف ثابت کرنا ہے جو آپ کو عام لوگوں سے ممتاز کرتا ہے۔
وہ وصف یہ ہے کہ آپ کی آنکھیں سوجاتی تھیں لیکن دل بیدار رہتا تھا۔
اس وصف میں دوسرے انبیائے کرام ؑ آپ کے شریک ہیں،یعنی ان کی آنکھیں سوجاتی تھیں لیکن دل بیداررہتے تھے جیسا کہ دوسری حدیث میں اس بات کی صراحت ہے۔
2۔
اس وصف پر ایک مشہور اعتراض ہے کہ اگر نیند کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بیدار رہتا تھا تو لیلة التعریس میں آپ کی نماز فجر کیوں قضا ہوگئی تھی؟اس کا جواب حسب ذیل ہے:
۔
طلوع شمس کا تعلق آنکھ سے ہے کیونکہ یہ محسوسات سے ہےمعقولات کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل محسوسات کا ادراک نہیں کرتا، اس لیے طلوع آفتاب کاآپ کو پتہ نہ چل سکا۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امور شرعیہ کے اجراء کے لیے نسیان طاری ہوتا تھا جیسا کہ آپ متعدد مرتبہ نماز میں بھولے تھے۔
لیلۃ تعریس میں صبح کی نماز کا فوت ہونا بھولنے کے باعث تھا جیسا کہ بیداری کی حالت میں بھولنے سے نماز فوت ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو نیند کی حالت میں بھی بھلوادیا تاکہ قضا کا حکم جاری ہو۔
اس سے معلوم ہواکہ لیلۃ التعریس میں نماز صبح کے فوت ہوجانے میں یہ حکمت تھی کہ نماز کی قضا کا حکم مشروع ہو۔
نسیان کا طاری ہونا اس کا سبب تھا۔
واللہ اعلم۔
3۔
واضح رہے کہ لیلۃ التعریس سے مراد وہ رات ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈیوٹی لگا کر سوگئے لیکن حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی نیند نے آلیا،وہ بھی بیدارنہ ہوسکے۔
جب دن چڑھ آیا تودھوپ کی شدت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی تو آپ نے وہاں سے کچھ آگے جاکر نماز فجر ادا کی۔
(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 595)
۔
قند مکرر:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن وجمال کی جھلک دیکھنے والوں نے آپ کے خنداں رخ انور،حسین وجمیل قدوقامت،بے مثال خدوخال،بے نظیر چال ڈھال،باوقار وپرکشش وجاہت،وشخصیت کا جو عکس الفاظ کے پیرائے میں ہم تک پہنچایا ہے وہ ایک ایسے انسان کا تصور دلاتاہے جو ذہانت وفطانت،صبرواستقامت،شجاعت وسخاوت،امانت ودیانت،فصاحت وبلاغت،جمال ووقار،انکسار وتواضع اورعالی ظرفی وفرض شناسی جیسے اوصاف حمیدہ سے متصف تھا۔
ہم چاہتے ہیں کہ حضرت ام مبعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل پذیر حلیہ مبارک جن الفاظ سے بیان کیا ہے ان کا ترجمہ صاحب"الرحیق المختوم" کی زبانی قدرے تصرف کے ساتھ ہدیہ قارئین کریں۔
ان کا جامع تذکرہ پیش خدمت ہے:
"چمکتا رنگ،تابناک چہرہ،نہ اتنے نحیف ونزار کہ دیکھنے میں عیب دار لگیں اور نہ اس قدر بھاری بھرکم کہ توند نکلی ہوئی ہوخوبصورت ساخت،جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہواپیکر،سرمگیں آنکھیں،دراز پلکیں،بھاری آواز،چمکدار اور لمبی گردن،گھنی ڈاڑھی،باریک اور باہم پیوستہ ابرو،خاموش ہوں تو باوقار،گفتگو کریں تو گویا منہ سے پھول جھڑیں،دورسے دیکھنے میں سب سے زیادہ تابناک اور پرجمال،قریب سے دیکھیں تو سب سے خوبصورت اور شیریں ادا،گفتگو میں چاشنی،بات واضح اوردوٹوک،نہ مختصر نہ فضول،انداز ایسا کہ لڑی سے موتی جھڑرہے ہیں،درمیانہ قد،نہ پست قامت کہ نگاہ میں نہ جچے،نہ زیادہ لمبا کہ ناگوار لگے،دوشاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح جو انتہائی تروتازہ اور خوش منظر لگے،رفقاء آپ کے گردحلقہ بنائے ہوئے کچھ فرمائیں توتوجہ سے سنتے ہیں،کوئی حکم دیں تولپک کر بجالاتے ہیں،مطاع ومکرم،نہ ترش روا اورنہ یاوہ گو۔
(المستدرك للحاکم: 9/3) علامہ ابن کثیر ؒ کہتے ہیں:
ام معبد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ کئی ایک طرق سے مروی ہے جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3570
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7517
7517. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے وہ واقعہ بیان کیا جس رات رسول اللہ ﷺ کو مسجد کعبہ سے اسراء کے لیے لے جایا گیا تھا۔ وحی آنے سے پہلے آپ ﷺ کے پاس تین فرشتے آئے جبکہ آپ مسجد حرام میں سوئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا: ان میں جو سب سے بہتر ہیں۔ تیسرے نے کہا: ان میں جو بہتر ہے اسے لے لو۔ اس رات تو اتنا ہی واقعہ پیش آیا۔ آپﷺ نے اس کے بعد انہیں نہیں دیکھا حتیٰ کہ وہ دوسری رات آئے جبکہ آپ کا دل دیکھ رہا تھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں لیکن دل نہیں سو رہا تھا۔ حضرات انبیاء ؑ کا یہی حال ہوتا ہے کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن ان کے دل بیدار رہتے ہیں چنانچہ انہوں نے آپ ﷺ سے کوئی بات نہ کی بلکہ آپ کو اٹھا کر چاہ زمزم کے پاس لے آئے۔ پھر جبرئیل ؑ نے آپ سے متعلقہ کام لیا، اس نے آپ کے گلے سے لے کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7517]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ساتویں آسمان میں تھے اور انھیں یہ فضیلت اللہ تعالیٰ سے شرف ہم کلامی کی وجہ سے ملی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس طویل حدیث کے مذکورہ ٹکڑے سے عنوان ثابت کیا ہے دراصل اس فضیلت کی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا۔
”اے میرے رب! مجھے گمان نہ تھا کہ کوئی مجھ سے زیادہ بلندی پر پہنچے گا۔
“ قرآن مجید کی صراحت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ رب العزت جب ہم کلام ہوا تو انھوں نے مطالبہ کیا۔
”میرے رب! مجھے اپنا آپ دکھلا دیجیے کہ میں ایک نظر تجھے دیکھ سکوں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”تو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکے گا البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ اگر یہ اپنی جگہ پر برقرار رہا توتو بھی مجھے دیکھ سکے گا۔
پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے۔
پھر جب انھیں کچھ افاقہ ہوا تو کہنے لگے۔
تیری ذات پاک ہے۔
میں تیرےحضور توبہ کرتا ہوں۔
“ (الاعراف 7/143)
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اے موسیٰ علیہ السلام! میں نے تجھے اپنی رسالت اور ہم کلامی کے لیے تمام لوگوں پر چن لیا ہے۔
“ (الأعراف: 144)
یعنی اگر دیددار نہیں ہو سکا تو اور تھوڑی نعمتیں اور فضیلتیں تمھیں عطا کی ہیں اپنا رسول بنایا براہ راست ہم کلامی کا شرف بخشا اور تمام جہانوں میں سے تمھیں منتخب کیا لہٰذا میری طرف سے آنے والے شرعی احکام پر اچھی طرح عمل کرو اور مذکورہ نعمتوں پر میرا شکر ادا کرتے رہو۔
2۔
بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ماضی حال اور مستقبل بلکہ ہر آن صفت کلام سے متصف ہے۔
اللہ تعالیٰ جب چاہےجس سے چاہے جیسے چاہے ہم کلام ہونے پر قادر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حقیقی کلام کیا جو آواز و حروف پر مشتمل تھا جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام زمین پر تھے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں پر تھے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کلام کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے عرض کی:
میں حاضر ہوں اس حاضری میں میری سعادت ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”میرے ہاں وہ قول بدلا نہیں جاتا جیسا کہ میں نے تم پر ام الکتاب میں فرض کیا ہے۔
“ مزید فرمایا:
ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے لہٰذا یہ ام الکتاب میں پچاس نمازیں ہیں مگر تم پر فرض پانچ ہی ہیں۔
“ حدیث کے اس حصے میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ گفتگو فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یا محمد کہہ کر خطاب کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعزاز آسمانوں پر ملا ہے۔
3۔
حضرت شریک سے مروی اس حدیث پر بہت سے اعتراضات کیے گئے ہیں ان کے جوابات طوالت کا باعث ہیں استاذ محترم شیخ ڈاکٹر عبداللہ بن محمد الغنیمان نے انھیں کتاب التوحید کی شرح میں نقل کیا ہے۔
اس کا مطالعہ مفیدرہے گا۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 443/1، 464)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7517