مختصر صحيح بخاري
تفسیر قرآن ۔ سورۃ الروم
اللہ تعالیٰ کے قول ”الم۔ اہل روم مغلوب ہو گئے ہیں“ (سورۃ الروم: 1 , 2) کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1759
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھیں اس بات کی خبر ہوئی کہ ”ایک شخص نے مقام کندہ میں بیان کیا ہے کہ قیامت کے روز دھواں پیدا ہو گا، جس سے منافقوں کے تو کان اور آنکھیں بالکل بیکار ہو جائیں گی اور مومنوں کو زکام کی سی کیفیت پیدا ہو جائے گی، (یعنی ان کے کم گھسے گا جب یہ خبر انھیں پہنچی اور وہ اس وقت) تکیہ لگائے بیٹھے تھے، وہ (یہ سن کر) غصے ہوئے اور سیدھے ہو کر بیٹھے پھر کہا کہ آدمی کو چاہیے کہ وہی بات کہے جو جانتا ہو اور جو بات نہ جانتا ہو تو کہہ دے کہ اللہ ہی خوب جانتا ہے کیونکہ یہ بھی علم کی بات ہے کہ جس چیز کو نہ جانے اس کے بارے میں کہے کہ میں نہیں جانتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ”کہہ دیجئیے کہ میں تم سے اس (وعظ و نصیحت) کی کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ ہی میں خود سے کوئی بات بناتا ہوں“ (سورۃ ص: 86)۔ (اصل قصہ دھویں کا یوں ہے کہ) قریش نے ایمان لانے میں دیر کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کی کہ ”اے اللہ! قریش کے لوگوں کے مقابل میری مدد اس طرح کر کہ ان پر یوسف علیہ السلام کے سات سالہ قحط کی طرح سات سال کا قحط نازل کر دے“ چنانچہ قحط پڑ گیا اور (اتنا سخت کہ) جس میں وہ تباہ ہو گئے اور مردار گوشت ہڈیاں تک کھا گئے اور (بھوک کے مارے) آدمی کا یہ حال تھا کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک دھواں سا دکھائی دیتا۔ آخر کار ابوسفیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد! تم تو ہمیں آپس میں رشتہ ناتا جوڑنے کی تلقین کرتے ہو اور اب تو تمہاری قوم کے بہت سے لوگ (قحط کی وجہ سے) تباہ ہو گئے، اللہ سے دعا کرو (کہ وہ اسے دور کر دے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی) پھر یہ آیت پڑھی ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا ....“ سے ”پھر اپنی اسی حالت پر آ جاؤ گے۔“ (الدخان: 10 - 15) (سیدنا مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) تو کیا آخرت کا عذاب ان پر سے کچھ عرصہ کے لیے ہٹ جائے گا اور وہ لوگ پھر اپنے کفر پر ہی قائم رہیں گے؟ (تو اس سے مراد یہ دھواں ہے نہ کہ قیامت کے روز دھواں ہونا) پھر اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ ”جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے“ (الدخان: 16) تو اس سے بدر کی لڑائی مراد ہے اور ”لگ جانے والے عذاب“ سے مراد (بدر میں قید ہو جانا یا) جنگ بدر اور ”اہل روم مغلوب ہو گئے .... عنقریب غالب آ جائیں گے۔“ (الروم: 1 - 3) کے بارے میں واقعہ روم تو (حیات طیبہ میں) گزر چکا ہے۔