Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
کتاب: انصار کے مناقب
27. بَابُ الْقَسَامَةُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ:
باب: زمانہ جاہلیت کی قسامت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3847
وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ: أَخْبَرَنَا عَمْرٌو , عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ , أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ , أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَيْسَ السَّعْيُ بِبَطْنِ الْوَادِي بَيْنَ الصَّفَا , وَالْمَرْوَةِ سُنَّةً إِنَّمَا كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَسْعَوْنَهَا، وَيَقُولُونَ: لَا نُجِيزُ الْبَطْحَاءَ إِلَّا شَدًّا".
اور عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، انہیں بکیر بن اشج نے اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے مولا کریب نے ان سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا صفا اور مروہ کے درمیان نالے کے اندر زور سے دوڑنا سنت نہیں ہے یہاں جاہلیت کے دور میں لوگ تیزی کے ساتھ دوڑا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم تو اس پتھریلی جگہ سے دوڑ ہی کر پار ہوں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3847 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3847  
حدیث حاشیہ:
بعاث ب کے پیش کے ساتھ مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے جہا ں رسول کریم ﷺ کی ہجرت مدینہ سے پانچ سال پہلے اوس اور خزرج قبائل میں سخت لڑائی ہوئی تھی جس میں ان کے بہت سے اشراف مارے گئے تھے، قال القسطلاني فإن قلت السعي رکن من أرکان الحج وھو طریقة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وسنته فکیف قال لیس بسنة قلت المراد من السعي ھھنا معناہ اللغوي۔
یہاں سعی لغوی مراد ہے سعی مسنونہ مراد نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3847   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3847  
حدیث حاشیہ:
صفاہ مروہ کے درمیان سعی کرنا سنت ہے اور اس کی ابتدا بی بی ہاجرہ سے ہوئی تھی، لیکن یہ سعی ایک مخصوص جگہ میں ہے یعنی جہاں سبز نشانات ہیں اور بجلی کی ٹیوبیں لگی ہوئی ہیں اس کے درمیان دوڑنا سنت ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ کا بھی یہ مسلک ہے کہ ایک مخصوص جگہ کے درمیان دوڑنا سنت ہے۔
سارے بطن وادی میں سعی کرنا سنت نہیں بلکہ یہ اہل جاہلیت کا شعار تھا کہ وہ ساری وادی میں دوڑ لگاتے تھے ہمارے بعض کم علم مسلمان بھی ایسا کرتے ہیں۔
انھیں سمجھانا چاہیے کہ ساری وادی میں دوڑ لگانے کی ضرورت نہیں اور نہ عورتوں کو اس طرح کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3847