مختصر صحيح بخاري
تفسیر قرآن ۔ تفسیر سورۃ النساء
اللہ کا یہ فرمان ”اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو“ (سورۃ النساء: 3)۔
حدیث نمبر: 1730
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول ”اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے“ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ اے میرے بھانجے! اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک یتیم عورت اپنے والی کی پرورش میں ہو اور اس کے مال میں شریک ہو تو اس کے ولی کو اس کی مالداری اور خوبصورتی پسند آئے اور اس سے نکاح کرنا چاہیے اور اس کو مہر انصاف کے ساتھ (جتنا اس کو دوسرے لوگ دیں) نہ دینا چاہے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایسے لوگوں کو ایسی یتیم لڑکیوں کے ساتھ کہ جب تک ان کا پورا مہر انصاف کے ساتھ نہ، دیں نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے اور ان کو یہ حکم دیا گیا تو تم ان یتیم عورتوں کے سوا اور جو عورتیں تمہیں اچھی معلوم ہوں ان سے نکاح کر لو۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ چند آدمیوں نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان عورتوں کے بارے میں فتویٰ لینا چاہا تو اللہ نے یہ آیت نازل کی ”آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں (النساء: 127)۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ دوسری آیت میں جو یہ فرمایا کہ ”یعنی وہ یتیم عورتیں جن کا مال اور جمال کم ہو اور تم ان کے ساتھ نکاح کرنے سے نفرت کرو“ تو اللہ کا یہ حکم ہوا کہ جو عورتیں یتیم ہیں اور ان کی طرف بوجہ قلت مال اور کم خوبصورتی کے رغبت نہیں کرتے تھے، اگر ان کے پاس کثیر مال ہو تو ان سے نکاح نہ کرو مگر اس صورت میں کہ ان کے مال اور مہر میں انصاف کرو۔