Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
کتاب: انصار کے مناقب
27. بَابُ الْقَسَامَةُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ:
باب: زمانہ جاہلیت کی قسامت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3843
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَتَبَايَعُونَ لُحُومَ الْجَزُورِ إِلَى حَبَلِ الْحَبَلَةِ، قَالَ: وَحَبَلُ الْحَبَلَةِ أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ مَا فِي بَطْنِهَا ثُمَّ تَحْمِلَ الَّتِي نُتِجَتْ , فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے کہا، مجھ کو نافع نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ «حبل الحبلة» تک قیمت کی ادائیگی کے وعدہ پر، اونٹ کا گوشت ادھار بیچا کرتے تھے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ «حبل الحبلة» کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حاملہ اونٹنی اپنا بچہ جنے پھر وہ نوزائیدہ بچہ (بڑھ کر) حاملہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی خرید و فروخت ممنوع قرار دے دی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3843 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3843  
حدیث حاشیہ:
حدیث میں مذکورہ خرید فروخت دور جاہلیت کی یاد ہے نیز اس میں کئی خرابیاں ہیں مثلاً:
نہ معلوم اونٹنی کو حمل ہے یاویسے ہی پیٹ پھولا ہوا ہے جیسا کہ عورتوں کو بھی حمل کا ذب ہوجاتا ہے۔
اگر حمل ہے تو وہ بچہ ہوتا ہے یا نہیں زندہ رہ کر زمانہ حمل قبول کرتا ہے یا نہیں کئی ایک ایسے احتمالات ہیں جو جھگڑے کا باعث ہیں اور جھگڑے والی خرید و فروخت جس میں قیمت نامعلوم ہو یا بیچی جانے والی چیز مجہول ہو یا مدت ادا ئیگی معلوم نہ ہو خرید و فروخت کی ایسی تمام صورتیں ناجائز ہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3843   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 502  
´غیر موجود چیز بیچنے کا حکم`
«. . . 240- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع حبل الحبلة، وكان بيعا يتبايعه أهل الجاهلية. كان الرجل يبتاع الجزور إلى أن تنتج الناقة ثم تنتج التى فى بطنها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جانور کے پیٹ میں) حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے اور یہ سودا تھا جو اہل جاہلیت ایک دوسرے کے ساتھ کرتے تھے۔ آدمی اس اونٹ کا سودا کرتا تھا کہ اونٹنی ایک بچی جنے گی پھر اس سے جو اونٹ پیدا ہو گا وہ میرا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 502]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2143، من حديث مالك، و مسلم 1514، من حديث نافع به]
تفقہ:
➊ جو چیز موجود ہی نہیں ہے اس کا بیچنا ممنوع ہے۔
➋ سد ذرائع کے طور پر بعض امور سے منع کیا جا سکتا ہے۔
➌ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں ہمیشہ اتفاق اور ہم آہنگی رہے۔
➍ حبل الحبلہ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ بیع کی میعاد یہ مقرر کر لے کہ جب تک یہ جنے پھر اس کا بچہ بھی جنے۔ یہ میعاد مجہول ہے اس لئے منع ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 240   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 662  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبل الحبلہ کی بیع سے منع فرمایا ہے اور یہ بیع دور جاہلیت میں تھی کہ آدمی اونٹنی اس شرط پر خریدتا کہ اس کی قیمت اس وقت دے گا جب اونٹنی بچہ جنے، پھر وہ بچہ جو اونٹنی کے پیٹ میں ہے وہ (ایک آگے بچہ) جنے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 662»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع الغرر وحبل الحبلة، حديث:2143، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع حبل الحبلة، حديث:1514.»
تشریح:
1. مذکورہ حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنین کی فروخت ممنوع ہے‘ جبکہ وہ اپنی ماں کے شکم میں ہو۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ مادہ کے پیٹ میں جو بچہ پرورش پا رہا ہے‘ اس کا بچہ فروخت کرنا ممنوع ہے‘ یعنی اونٹنی کے حمل کا حمل۔
اس کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ بیع معدوم اور مجہول دونوں پہلو رکھتی ہے۔
اور اسے حاصل کرنے کی قدرت نہیں ہوتی کیونکہ ایک طرح یہ دھوکے کی بیع ہے۔
اور یہ قول بھی ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں: کسی شے کی بیع اس وقت تک کرنا کہ اونٹنی بچہ جنم دے‘ یا اس اونٹنی کا بچہ جوان ہو کر بچہ جنے۔
اس میں نہی کی وجہ یہ ہے کہ یہ بیع ایسی ہے جس کی مدت نامعلوم ہے۔
2.حدیث میں مذکور ممنوع بیع کی جو تفسیر وَکَانَ بَیْعًا…الخ کے الفاظ کے ساتھ منقول ہے‘ وہ نافع یا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کی ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادائیگی ٔ قیمت کی میعاد مقرر کی جاتی تھی‘ اس طرح کہ جو بچہ اس وقت اونٹنی کے پیٹ میں زیر پرورش ہے اس کے جوان ہونے پر اس سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ اس اونٹ کی قیمت ہوگی۔
اس تفسیر کو امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔
وہ اس صورت میں ممانعت کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ رقم کی ادائیگی کی میعاد غیر متعین ہے‘ اس لیے ایسی بیع بھی ممنوع ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 662   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4628  
´حمل والے جانور کا حمل بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4628]
اردو حاشہ:
حدیث:4626 کے فائدے میں اس کے مفہوم کی بابت تفصیلی کلام ہو چکا ہے، تا ہم اس جگہ ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے، وہ یہ کہ کسی مجہول یا مبہم مدت کو ادھار کی ادائیگی کی مدت ہرگز نہ ٹھہرایا جائے بلکہ ادھار کی ادائیگی کی مدت کا بالکل واضح تعین ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود بھی اگر مقروض شخص وقت مقررہ پر ادائیگی نہ کر سکے تو مزید مہلت مانگ لے۔ اور قرض خواہ کو بھی چاہیے کہ آسانی تک مہلت دے دے کیونکہ یہ بہت افضل عمل ہے۔ اس کی افضیلت کا اندازہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے لگائیں جس میں آپ نے فرمایا ہے: جو شخص کسی کو قرض دے اسے روزانہ اپنے قرض کے برابر صدقہ کرنے کا اجر و ثواب ملتا ہے۔ اور پھر جو شخص مقررہ وقت پر بھی قرض کی ادائیگی نہ کر سکے اور قرض خواہ مقروض کو مزید مہلت دے دے تو اسے روزانہ اپنے دیے ہوئے قرض کی نسبت دگنا مال صدقہ کرنے کا اجرو ثواب ملتا ہے۔ دیکھیے: (صحيح الترغيب و الترهيب، الصدقات، باب الترغيب في التيسير على المعسرو إنظاره۔۔۔۔۔۔،حديث:907) لیکن اس صورت میں مقروض کو سہولت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ادائیگی قرض سے بے فکر بے بیاز نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے جلد از جلد قرض ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے محسن، یعنی قرض خواہ کے لیے پر خلوص دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4628   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4629  
´حمل والے جانور کا حمل بیچنے کی تفسیر و وضاحت۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ کے حمل کی بیع سے منع فرمایا اور یہ ایسی بیع تھی جو جاہلیت کے لوگ کیا کرتے تھے، ایک شخص اونٹ خریدتا اور پیسے دینے کا وعدہ اس وقت تک کے لیے کرتا جب وہ اونٹنی جنے اور پھر اس کا بچہ جنے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4629]
اردو حاشہ:
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ تفسیر سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ ادائیگی کی مدت مجہول ہے۔ مزید برآں یہ معلوم ہی نہیں کہ اونٹنی مؤنث جنے گی یا مذکر؟ مادہ بچہ جننے کی صورت میں پھر یہ معلوم نہیں کہ وہ مؤنث بڑی بھی ہو گی یا نہیں؟ اگر بڑی ہو گئی تو آگے حاملہ ہو گی یا نہیں؟ پھر نہ معلوم بچہ ہو گا یا نہ ہو گا؟ (تفصیل حدیث نمبر 4626 میں گزر چکی ہے) لہٰذا یہ بیع منع ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4629   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3380  
´دھوکہ کی بیع منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «حبل الحبلة» (بچے کے بچہ) کی بیع سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3380]
فوائد ومسائل:
(حبل الحبلة) حاملہ کا حمل اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ کوئی سودا کیا جاتا تو اس کی ادایئگی کےلئے ایک مجہول لمبی مدت مقرر کی جاتی۔
کہ جب یہ اونٹنی مادہ بچہ جنے گی پھر وہ حاملہ ہوگی۔
تو اس وقت ادایئگی ہوگی۔
ایک مفہوم یہ بھی آتا ہے کہ میں تجھ سے اس حاملہ اونٹنی کے بچے کے بچے کی بیع کرتا ہوں۔
جیسا کہ اگلی ر وایت میں آرہا ہے یہ ناجائز ہے۔
اس میں دھوکا ہے۔
نہ معلوم یہ بچہ جنے گی یا نہیں۔
اور پھر پیدا ہونے والا نر ہوگا یا مادہ اور نہ معلوم وہ کب حاملہ ہو۔
اس حدیث میں اس جاہلی رواج کی بھی تردید اور ممانعت ہے۔
جو ہمارے پنجاب اور سندھ کے بعض خاندانوں میں مروج ہے۔
یہ یہ لوگ رشتے ناتے میں وٹہ سٹہ کرتے ہوئے جب مقابلے میں لڑکی موجود نہ ہو تو شرط کرلیتے ہیں کہ اس جوڑے سے آئندہ ہونے والی لڑکی ہمیں دینا ہوگی۔
اسے وہ لوگ پیٹ دینے یا تھنداساک (آیئندہ پیدا ہونے والا رشتہ دینا) سے تعبیر کرتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3380   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2197  
´جانوروں کے پیٹ اور تھن میں جو ہو اس کی بیع یا غوطہٰ خور کے غوطہٰ کی بیع ممنوع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2197]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  (بَيْعُ حَبَلِ الْحَبَلَةِ)
کا ایک مطلب یہ ہے کہ جانور کا بچہ پیدائش سے پہلے خریدا اور بیچا جائے، یہ جائز نہیں کیونکہ اس میں غرر ہے۔
معلوم نہیں وہ بچہ مذکر ہوگا یا مؤنث، صحیح ہوگا یا عیب دار۔

(2)
  اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز خرید کر ادائیگی کی میعاد کسی جانور کے بچہ دینے تک مقرر کی جائے۔
یہ مجہول مدت ہے، اس لیے یہ بھی منع ہے۔

(3)
  اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ فلاں حاملہ جانور سے پیدا ہونے والا بچہ جب بڑا ہو کر بچہ دے گا، وہ جانور میں بیچتا ہوں، یا کسی دوسری چیز کی رقم کی ادائیگی اس وقت ہوگی۔
اس میں بھی غرر اورمدت نامعلوم ہے۔
معلوم نہیں اس حاملہ جانور سے مذکر پیدا ہوگا یا مؤنث، اور مؤنث ہوا تو اس سے کب بچہ پیدا ہوگا۔

(4)
  ادھار کی ادائیگی کے لیے مدت کا وضح تعین ہونا چاہیے، پھر اگر مقروض آدمی اس وقت ادا نہ کر سکےتو مزید مہلت مانگ لے۔
یا مدت کا تعین کیا ہی نہ جائے، مقروض اپنی سہولت کے مطاق ادا کردے۔
مقروض کو اس طرح سہولت دینا بہت فضیلت والا عمل ہے، تاہم مقروض اس سہولت کی وجہ سے قرض کی ادائیگی سے بے نیاز نہ ہو جائے بلکہ قرض خواہ کے حق میں دعا کرتا رہے اور ادائیگی کے لیے مقدور بھر کوشش کرتا رہے۔
اس میں تساہل یا کوتاہی نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2197   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3809  
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے حاملہ جانور کے حمل کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3809]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
حبله:
حابل کی جمع ہے،
جس طرح ظالم کی جمع ظلمه ہے یا كاتب کی جمع كتبه ہے،
بعض کے نزدیک یہ مصدر ہے اور مجہول کے معنی میں ہے اور بقول علامہ نووی،
حبل کا لفظ عورتوں کے لیے خاص ہے اور حیوانات کے لیے حمل کا لفظ ہے،
اس لیے بکری یا اونٹنی کو حاملہ کہتے ہیں،
حیوانات کے لیے حابلہ کا لفظ صرف اس حدیث میں آیا ہے۔
اور بقول امام نووی اس پر اہل لغت کا اتفاق ہے،
لیکن علامہ عینی نے لکھا ہے کہ حابلہ کا لفظ ہر مونث کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
حَبَل الحَبله کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں:
(1)
کسی چیز کی قیمت اس وقت ادا کرنا جب حاملہ اونٹنی بچہ جنے گی اور وہ بچہ بڑا ہو کر،
بچہ دے،
بخاری شریف کی روایت کی ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خود یہی تفسیر کی ہے۔
(2)
کسی چیز کی قیمت اس وقت ادا کرنا،
جب مخصوص اونٹنی اپنا حمل وضع کرے گی،
امام نافع نے یہی تفسیر کی ہے،
ابن المسیب،
امام مالک،
امام شافعی اور فقہاء کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔
(3)
کسی چیز کی قیمت اس وقت ادا کرنا،
جب حاملہ اونٹنی بچہ دے اور پھر وہ بچہ بڑا ہو کر حاملہ ہو جائے۔
لیکن اس کے حمل کے وضع ہونے کی شرط نہیں ہے،
اگلی روایت سے یہی معلوم ہوتا ہے اور امام ابو اسحاق نے اس کو اختیار کیا ہے،
ان تینوں صورتوں میں ممانعت کا سبب یہ ہے،
قیمت کی ادائیگی کا وقت و مدت مجہول ہے۔
(4)
حاملہ اونٹنی کے پیٹ کے بچہ کی یا پیٹ کے بچے کے بچہ کی بیع کرنا،
امام ترمذی نے اس کو اختیار کیا ہے۔
امام ابو عبیدہ،
ابو عبید،
احمد اور اسحاق کا یہی نظریہ ہے اور اس کے منع ہونے کا سبب مبیع یعنی جو چیز بیچی گئی ہے کا مجہول ہونا ہے کیونکہ معلوم نہیں ہے اونٹنی کا بچہ پیدا ہوتا ہے یا نہیں،
دوسرے بچہ کی پیدائش تو بعد کی بات ہے،
اس طرح اس میں غرر بھی ہے،
اس لیے امام بخاری نے،
اس کو بیع الغرر کے تحت بیان کیا ہے۔
اور بعض حضرات نے اس کا معنی انگوروں کا ان کے پکنے کی صلاحیت کو پہنچنے سے پہلے بیچنا بیان کیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3809   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2143  
2143. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے "حبل الحبلة" کی بیع سے منع فرمایا۔ یہ بیع زمانہ جاہلیت میں بایں صورت رائج تھی کہ ایک شخص کوئی اونٹنی اس وعدے پر خریدکرتا کہ جب وہ بچہ جنے گی۔، پھر وہ بڑی ہو کر بچہ جنم دے تب اس کی قیمت ادا کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2143]
حدیث حاشیہ:
اسلام سے پہلے عرب میں یہ دستور بھی تھا کہ حاملہ اونٹنی کے حمل کو بیچ دیا جاتا۔
اس بیع کو دھوکے کی بیع قرار دے کر منع کیا گیا۔
حدیث بالا کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ کسی قرض وغیرہ کی مدت حاملہ اونٹنی کے حمل کے پیدا ہونے پھر اس پر پیدا ہونے والی اونٹنی کے بچہ جننے کی مدت مقرر کی جاتی تھی، یہ بھی ایک دھوکہ کی بیع تھی، اس لیے اس سے بھی منع کیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2143   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2256  
2256. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا کہ دور جاہلیت میں لوگ حبل الحبلة کی مدت کے وعدے پر اونٹوں کی خریدوفروخت کرتے تھے تو نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمادیا۔ حضرت نافع نے حبل الحبلة کی تفسیر بایں الفاظ کی کہ اونٹنی بچہ جنے جو اس کے پیٹ میں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2256]
حدیث حاشیہ:
پھر اس کا بچہ بڑا ہو کر وہ بچہ جنے جیسے دوسری روایت میں اس کی تصریح ہے۔
اس میعاد میں جہالت تھی۔
دوسرے دھوکہ تھا کہ معلوم نہیں وہ کب بچہ جنتی ہے۔
پھر اس کا بچہ زندہ بھی رہ جاتا ہے یا مرجاتا ہے۔
اگر زندہ رہے تو کب حمل رہتا ہے، کب وضع حمل ہوتا ہے۔
ایسی میعاد اگر سلم میں لگائے تو سلم جائز نہ ہوگی۔
گو عادتاً اس کا وقت معلوم بھی ہو سکے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2256   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2143  
2143. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے "حبل الحبلة" کی بیع سے منع فرمایا۔ یہ بیع زمانہ جاہلیت میں بایں صورت رائج تھی کہ ایک شخص کوئی اونٹنی اس وعدے پر خریدکرتا کہ جب وہ بچہ جنے گی۔، پھر وہ بڑی ہو کر بچہ جنم دے تب اس کی قیمت ادا کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2143]
حدیث حاشیہ:
(1)
دھوکے کی بیع یہ ہے کہ پرندہ ہوا میں اڑرہا ہے یا مچھلی دریا میں تیر رہی ہے یا ہرن جنگل میں بھاگ رہا ہے اسے پکڑنے سے پہلے بیچ ڈالے۔
اسی طرح وہ غلام یا لونڈی جو بھاگ گئے ہوں جنھیں خریدار کے سپرد کرنے کی قدرت نہ ہو انھیں فروخت کرنا بھی دھوکے کی بیع ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ نے دھوکے کی بیع کے متعلق کوئی صریح حدیث پیش نہیں کی بلکہ حبل الحبله کی ممانعت سے استنباط کیا ہے۔
ممکن ہے کہ انھوں نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہو جسے امام احمد نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دھوکے کی بیع سے منع فرمایا۔
(مسند أحمد: 114/2)
دھوکے کی بیع میں کئی ایک بیوع شامل ہیں۔
معدوم، مجہول اور مبہم اشیاء کی بیع بھی اس میں شامل ہے۔
(3)
حبل الحبله کی تفسیر میں کئی اقوال مروی ہیں جن میں سے ایک مذکورہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔
اس کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اونٹنی کے بچے کےبچے کی بیع کی جائے۔
دونوں تفسیروں کے مطابق یہ بیع باطل ہے کیونکہ پہلی تفسیر کے مطابق قیمت کی ادائیگی کی مدت مجہول ہے اور دوسری تفسیر کے مطابق یہ معدوم کی بیع ہے۔
یہ دونوں ممنوع ہیں۔
(فتح الباري: 451/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2143   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2256  
2256. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا کہ دور جاہلیت میں لوگ حبل الحبلة کی مدت کے وعدے پر اونٹوں کی خریدوفروخت کرتے تھے تو نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمادیا۔ حضرت نافع نے حبل الحبلة کی تفسیر بایں الفاظ کی کہ اونٹنی بچہ جنے جو اس کے پیٹ میں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2256]
حدیث حاشیہ:
(1)
دور جاہلیت میں بیع سلم کی ایک عجیب صورت رائج تھی۔
جب کسی کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں آدمی کے پاس اعلی نسل کی اونٹنی ہے تو وہ اس کے مالک سے یہ معاملہ طے کرتا کہ اونٹنی جب حاملہ ہوتو اس کے بچے کا میں خریدار ہوں اور اس کی قیمت پہلے ادا کردیتا۔
اگر مالک کہتا کہ اس بچے کا سودا ہوچکا ہے تو وہ اگلی نسل کا سودا کرنے کےلیے بھی تیار ہوجاتا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کی خریدوفروخت سے منع فرمادیا کیونکہ یہ معدوم اور موہوم چیز کی بیع ہے۔
معلوم نہیں اونٹنی کیا جنتی ہے؟ جنتی بھی ہے یا نہیں یا مردہ بچہ جنم دیتی ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ بیع سلم میں اگر میعاد مجہول ہے تو ایسا سودا ناجائز ہے، گو اونٹنی قریب قریب ایک سال کی مدت میں جنم دیتی ہے، تاہم یہ میعاد مجہول ہے۔
آگے پیچھے کئی دن کا فرق ہوسکتا ہے جو جھگڑے کا باعث بنتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمادیا۔
بعض دفعہ قیمت کی ادائیگی کےلیے مہینہ اور دن تو متعین نہ کرتے بلکہ اونٹنی کے بچہ جنم دینے کو وعدہ ٹھہرالیتے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حمل کا بچہ بڑا ہوکر جب بچہ جنے تو قیمت ادا ہوگی جیسا کہ دوسری روایات میں اس کی صراحت ہے۔
اس میعاد میں جہالت تھی،اس لیے منع کردیا گیا۔
اس حدیث کے متعلقہ کچھ مباحث کتاب البیوع، حدیث: 2143 کے تحت بیان ہوچکے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2256