مختصر صحيح بخاري
غزوات کے بیان میں
جنگ خیبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1653
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم یمن میں تھے تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے نکلنے کی خبر پہنچی تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے روانہ ہوئے، میں اور میرے دو بھائی ابوبردہ اور ابورہم تھے، میں ان سے چھوٹا تھا اور ترپن (53) آدمی میری قوم میں سے ہمارے ساتھ آئے۔ خیر ہم سب جہاز میں سوار ہوئے۔ اتفاق سے یہ جہاز حبش کے ملک نجاشی بادشاہ کے پاس پہنچا۔ وہاں ہمیں سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ملے۔ ہم نے ان کے پاس قیام کیا، پھر ہم سب اکٹھے روانہ ہوئے اور ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کر چکے تھے اور دیگر لوگ ہم اہل سفینہ سے کہنے لگے کہ ہجرت میں ہم لوگ تم پر سبقت لے گئے۔ اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا جو ہمارے ساتھ آئی تھیں، ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں مہمان گئیں اور انھوں نے بھی نجاشی کے ملک میں مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کے پاس موجود تھیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے، یہ سن کر انھیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں: ”اللہ کی قسم! ہرگز نہیں، تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے ہیں اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے ہیں اور ہم اجنبیوں اور دشمنوں کی زمین میں تھے جو حبش میں واقع ہے اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں تھیں، اللہ کی قسم! مجھ پر کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی اور ان سے پوچھوں گی۔“ اللہ کی قسم! نہ میں جھوٹ بولوں گی نہ میں کجروی اختیار کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی۔“ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ یا نبی اللہ! عمر رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح کہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تو نے انھیں کیا جواب دیا؟“ تو وہ بولیں کہ میں نے انھیں اس طرح جواب دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے کیونکہ عمر (رضی اللہ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں۔“