Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
کتاب: انصار کے مناقب
12. بَابُ مَنَاقِبُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3803
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا فَضْلُ بْنُ مُسَاوِرٍ خَتَنُ أَبِي عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" اهْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ". وَعَنْ الْأَعْمَشِ , حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ , عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، فَقَالَ: رَجُلٌ لِجَابِرٍ فَإِنَّ الْبَرَاءَ، يَقُولُ: اهْتَزَّ السَّرِيرُ، فَقَالَ: إِنَّهُ كَانَ بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَيَّيْنِ ضَغَائِنُ , سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ".
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ کے داماد فضل بن مساور نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، ان سے ابوسفیان نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش ہل گیا اور اعمش سے روایت ہے، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا، ایک صاحب نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ براء رضی اللہ عنہ تو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ چارپائی جس پر معاذ رضی اللہ عنہ کی نعش رکھی ہوئی تھی، ہل گئی تھی، جابر رضی اللہ عنہ نے کہا ان دونوں قبیلوں (اوس اور خزرج) کے درمیان (زمانہ جاہلیت میں) دشمنی تھی، میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش رحمن ہل گیا تھا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3803 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3803  
حدیث حاشیہ:
روایت میں اس عداوت اور دشمنی کی طرف اشارہ ہے جو انصار کے دونوں قبیلوں، اوس و خزرج کے درمیان زمانہ جاہلیت میں تھی، لیکن اسلام کے بعد اس کے اثرات کچھ بھی باقی نہیں رہ گئے تھے، حضرت سعد ؓ قبیلہ اوس کے سردار تھے اور حضرت براء کا تعلق خزرج سے تھا، حضرت جابر ؓ کا مقصد یہ ہے کہ اس پرانی دشمنی کی وجہ سے انہوں نے پوری طرح حدیث نہیں بیان کی، بہر حال عرش رحمان اور سریر ہر دو کے ہلنے کے بارے میں حدیث آئی ہیں اور دونوں صورتوں کی محدثین نے یہ تشریح کی ہے کہ اس میں حضرت سعد بن معاذ ؓ کی موت کو ایک حادثہ عظیم بتایا گیا ہے آپ کے مرتبہ کو گھٹانا کسی کے بھی سامنے نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3803   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3803  
حدیث حاشیہ:

حضرت براء بن عازب ؓ کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ایک بندے کی موت پر اللہ کا عرش کیسے حرکت کر سکتا ہے لہذا اس سے مرادان کی چارپائی ہے۔
انھوں نے یہ بات کسی دشمنی کی بنا پر نہیں کہی تھی بلکہ اپنی سمجھ کے مطابق اس کا اظہار کیا لیکن حضرت جابر ؓ نے سمجھا کہ شاید حضرت براء بن عازب ؓ کسی اور وجہ سے یہ بات کہہ رہے ہیں انھوں نے اس کا ازالہ فرمایا کہ بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے حقیقت یہ ہے کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کی موت پر عرش الٰہی ہی حرکت میں آیا تھا اس کے متعلق تاویل کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود یہ الفاظ سنے تھے۔

عرش الٰہی کا حرکت میں آنا خوشی کی بنا پر تھا اور اللہ کے عرش کا خوشی کی وجہ سے حرکت کرنا ممکن ہے جیسا کہ ایک مرتبہ خوشی کی بنا پر احد پہاڑ نے بھی حرکت کی تھی اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے کچھ پتھر بھی تواللہ کے خوف سے پہاڑوں سے گرپڑتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3803   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث158  
´سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد بن معاذ کی موت کے وقت رحمن کا عرش جھوم اٹھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 158]
اردو حاشہ:
(1)
مومن کی روح جب آسمان پر جاتی ہے تو جہاں جہاں سے گزرتی ہے، سب فرشتے خوش ہوتے ہیں۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات پر جب ان کی روح مبارک آسمانوں پر گئی تو عرش الہی کو بھی اس کی آمد پر خوشی ہوئی اور اس میں خوشی کے اظہار کے طور پر حرکت پیدا ہوئی۔

(2)
اللہ کی مخلوق جو انسان کی نظر میں بے جان اور سمجھ بوجھ سے خالی ہے، حقیقت میں ایسے نہیں، بلکہ بے جان مخلوق میں بھی شعور اور احساس ہے لیکن وہ انسان کے حواس سے بالاتر ہے۔

(3)
بعض علماء نے عرش کی خوشی سے مقرب فرشتوں کی خوشی مراد لی ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 158   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3848  
´سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: اور سعد بن معاذ رضی الله عنہ کا جنازہ (اس وقت لوگوں کے سامنے رکھا ہوا تھا): ان کے لیے رحمن کا عرش (بھی خوشی سے) جھوم اٹھا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3848]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی: ان کے آسمان پر آ جانے کی خوشی میں،
بعض لوگوں نے رحمان کے عرش کو اٹھانے والے فرشتے مراد لیا ہے کہ وہ سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے آسمان پر آنے کی خوشی میں جھوم اٹھے،
بہرحال یہ ان کے مقرب بارگاہِ الٰہی ہونے کی دلیل ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3848   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6345  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبکہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ ان کے سامنے رکھا ہواتھا،فرمایا:"ان کی(موت کی) وجہ سے عرش الٰہی جھوم گیا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6345]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ نے جمادات میں بھی کچھ نہ کچھ شعور و احساس رکھا ہے،
اس لیے پتھر بھی اللہ کے خوف و خشیت سے گرتے ہیں اور اگر قرآن مجید پہاڑ پر اتار دیا جاتا تو وہ بھی خشوع و خضوع کی بنا پر ریزہ ریزہ ہو جاتا،
اس طرح حضرت سعد بن معاذ کی روح کے پرواز کرنے پر اس کی آمد پر اظہار مسرت و شادمانی کے لیے عرش الٰہی مسرت سے جھوم اٹھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6345