Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
کتاب: انصار کے مناقب
9. بَابُ دُعَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْلِحِ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا کرنا کہ (اے اللہ!) انصار اور مہاجرین پر اپنا کرم فرما۔
حدیث نمبر: 3797
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ: جَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَحْفِرُ الْخَنْدَقَ وَنَنْقُلُ التُّرَابَ عَلَى أَكْتَادِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ".
مجھ سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم خندق کھود رہے تھے اور اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا رہے تھے۔ اس وقت آپ نے یہ دعا فرمائی «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فاغفر للمهاجرين والأنصار‏"‏‏.» اے اللہ! آخرت کی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی حقیقی زندگی نہیں، پس انصار اور مہاجرین کی تو مغفرت فرما۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3797 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3797  
حدیث حاشیہ:
یہ جنگ احزاب کا واقعہ ہے جس میں مسلمانوں نے کفار عرب کے لشکروں کی جو تعداد میں بہت تھے، اندرون شہر سے مدافعت کی تھی اور شہر کی حفاظت کے لیے اطراف شہر میں خندق کھودی گئی تھی، اسی لیے اسے جنگ خندق بھی کہا گیا ہے، تفصیلی بیان آگے آئے گا، اس میں انصار اور مہاجرین کی فضیلت ہے اور یہی ترجمۃ الباب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3797   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3797  
حدیث حاشیہ:

یہ غزوہ خندق کا واقعہ ہے جب قبائل مدینہ ٹوٹ پڑے تھے اندرون شہر کی حفاظت کے لیے خندق کھودی گئی۔
اس خندق کھودنے میں انصار اور مہاجرین نے حصہ لیا۔
اس وقت رسول اللہ ﷺ نے انصار اور مہاجرین کے لیے ڈھیروں دعائیں کیں۔
2ان تین روایات میں رسول اللہﷺ کے مختلف الفاظ بیان ہوئے ہیں۔
آپ نے مختلف مواقع پر مختلف دعائیں فرمائیں، چنانچہ کبھی فرمایا:
انھیں بخش دے۔
کبھی ان کی اصلاح کے لیے دعا فرمائی اور کبھی ان پر رحم و کرم کرنے کی دعا کی۔
اللہ تعالیٰ نے ان تمام دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا۔
(فتح الباري: 150/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3797   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3856  
´ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ خندق کھود رہے تھے اور ہم مٹی ڈھو رہے تھے، آپ نے ہمیں دیکھا تو فرمایا: «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره» اے اللہ زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے، تو انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3856]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
صاحب تحفہ الأحوذی نے اس حدیث پر (باب مناقب سہل بن سعد) کاعنوان لگایا ہے،
اور یہی مناسب ہے،
کہ اس حدیث کا تعلق ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے کسی طرح نہیں ہے،
اور اس میں تمام مہاجرین وانصار صحابہ کی منقبت کا بیان ہے،
جو خاص طور پر خندق کھودنے میں شریک تھے،
رضی اللہ عنہم اجمعین۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3856   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4098  
4098. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ خندق کھودنے میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خندق کھود رہے تھے جبکہ ہم اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا اٹھا کر باہر ڈال رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی: "اے اللہ! آخرت کی زندگی ہی آرام کی زندگی ہے، اس لیے تو مہاجرین اور انصار کو معاف کر دے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4098]
حدیث حاشیہ:
آپ نے انصار اور مہاجرین کی موجودہ تکالیف کو دیکھا تو ان کی تسلی کے لیے فرمایا کہ اصل آرام آخرت کا آرام ہے۔
دنیا کی تکالیف پر صبر کرنا مومن کے لیے ضروری ہے۔
جنگ خندق سخت تکلیف کے زمانے میں سامنے آئی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4098   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4098  
4098. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ خندق کھودنے میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خندق کھود رہے تھے جبکہ ہم اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا اٹھا کر باہر ڈال رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی: "اے اللہ! آخرت کی زندگی ہی آرام کی زندگی ہے، اس لیے تو مہاجرین اور انصار کو معاف کر دے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4098]
حدیث حاشیہ:

غزوہ خندق کے موقع پر مدینے کا موسم انتہائی سرد تھا رسول اللہ ﷺ نے خندق کھودتے وقت انصار اور مہاجرین کی تکلیف کو دیکھا تو ان کی تسلی کے لیے فرمایا:
اصل آرام تو آخرت کے دن ملے گا اور دنیا کی تکلیفوں پر صبر کرنا مومن کی شان ہے۔
رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ثواب کی ترغیب دلانے کے لیے خود خندق کھودنے میں حصہ لیا اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی اس کام میں حصہ لیا کیونکہ اس وقت ان کے نوکر اور غلام نہ تھےجو خندق کھودنے کا کام کرتے۔

واضح رہے کہ مدینے کے گرد خندق کھودنے کی تجویز حضرت سلمان فارسی ؓ کی تھی جسے رسول اللہ ﷺ نے مناسب خیال فرمایا۔
(فتح الباری: 7/491)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4098   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6414  
6414. حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپ خندق کھودتے تھے اور ہم مٹی اٹھاتے تھے۔ آپ نے ہمیں دیکھا تو فرمایا:اے اللہ! زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے، اس لیے تو انصار ومہاجرین کو معاف فرما دے۔ اس روایت کی متابعت حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی نبی کریم ﷺ سے کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6414]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔
آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے درج ذیل جذبات کے اظہار پر یہ دعائیں فرمائیں:
ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اس امر کی بیعت کی ہے کہ ہم جب تک زندہ ہیں اسلام کے راستے پر گامزن رہیں گے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4100) (2)
واضح رہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سخت سردی کے وقت خندق کھودی تھی۔
اس وقت ان کے پاس غلام وغیرہ بھی نہ تھے جو ان کی جگہ خندق کھودنے کا فریضہ سرانجام دیتے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4099) (3)
دنیا میں آرام و راحت اور خوشی عیشی کی زندگی گزارنا اگرچہ حرام اور ناجائز نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا مقام یہی ہے کہ وہ دنیا میں نازونعمت کی زندگی گزارنے کے بجائے آخرت کی عیش و عشرت پر نظر رکھیں۔
اللهم لا عيشَ إلا عيشُ الآخرةِ کا یہی مطلب ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کیا تو نصیحت فرمائی:
''اے معاذ! آرام طلبی اور خوش عیشی سے کنارہ کش رہنا، اللہ تعالیٰ کے خاص بندے آرام طلب اور خوش عیش نہیں ہوا کرتے۔
'' (مسند أحمد: 243/5، والصحیحة للألباني، حدیث: 353) (4)
شارح ابن منیر فرماتے ہیں کہ لوگوں کی اکثریت صحت و فرصت کے باوجود جو خسارے میں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی کے مقابلے میں پسند کیا ہے، لہذا جس عیش و عشرت میں وہ مبتلا ہیں اس کی کچھ بھی حقیقت نہیں بلکہ وہ تو پانی کے بلبلے کی طرح ہے اور جس زندگی کو وہ نظر انداز کیے ہوئے ہیں اصل زندگی تو وہی ہے اور جس نے آخرت کی زندگی کو کھوٹا کر دیا دراصل وہ گھاٹے اور خسارے میں ہے۔
(المتواري، ص: 391)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6414