مختصر صحيح بخاري
شروط کے بیان میں
جہاد میں اور حربی کافروں کے ساتھ صلح کرنے میں شرطیں طے کرنا اور لوگوں کے ساتھ شرائط کا قول اور کتابت (دونوں) کے ساتھ کرنا (کیسا ہے؟)۔
حدیث نمبر: 1192
سیدنا مسور بن مخرمہ اور سیدنا مروان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ حدیبیہ میں تشریف لے چلے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اثنائے راہ میں تھے تو (بطور معجزہ کے) فرمایا کہ خالد بن ولید (مقام) غمیم میں قریش کے سواروں کے ساتھ مقدمۃ الجیش ہیں پس تم داہنی جانب چلو (اور اسی طرف خالد بھی تھے) مگر اللہ کی قسم خالد کو مسلمانوں کو آنا معلوم بھی نہیں ہوا یہاں تک کہ جب لشکر کا غبار ان کے پاس پہنچا تو (ان کو معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور فوراً) ایک شخص قریش کو خبر دینے کے لیے چل دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پہاڑی پر پہنچے جس کے اوپر سے ہو کے مکہ میں اترتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگوں نے کہا حل حل (اور بہت کوشش کی کہ وہ چلے) مگر اس نے جنبش نہ کی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا قصواء (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی) اڑ گئی، قصواء اڑ گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قصواء (خود سے) اڑی نہیں نہ یہ اس کی عادت ہے، بلکہ اسے اس ذات نے روکا ہے جس نے ہاتھی کو روکا تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کفار قریش مجھ سے جس بات کا سوال کریں گے اور وہ اس میں اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کی تعظیم کریں گے تو میں ان کی اس بات کو منظور کر لوں گا۔“ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ڈانٹا تو وہ جست لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کی طرف سے رخ پھیرا، یہاں تک کہ حدیبیہ کے کنارے ایک ثمد نامی چشمے یا گڑھے پر پڑاؤ کیا، جس میں پانی بہت کم تھا۔ لوگ اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی لیتے تھے پس تھوڑی ہی دیر میں لوگوں نے اس کو صاف کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تیر اپنے ترکش سے نکال دیا اور انھیں حکم دیا کہ اس کو اس پانی میں گاڑ دیں۔ پس اللہ کی قسم پانی انھیں سیراب کرنے کے لیے جوش مارنے لگا، یہاں تک کہ سب اس سے سیراب ہو گئے۔ پس وہ اسی حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی اپنی قوم کے چند لوگوں کے ہمراہ خزاعہ سے آیا اور یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیرخواہ، تہامہ کے لوگوں میں سے تھے۔ اس نے کہا کہ میں نے کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی کو (اس حال میں) چھوڑا ہے کہ وہ حدیبیہ کے عمیق چشموں پر فروکش ہیں اور ان کے ہمراہ دودھ والی اونٹنیاں ہیں (غرض ہر طرح سے ان کا سامان درست ہے) اور وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کو کعبہ سے روکنا چاہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم کسی سے لڑنے کے لیے نہیں آئے، بلکہ ہم تو عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں اور بیشک قریش کو لڑائی نے کمزور کر دیا ہے اور ان کو (بہت کچھ) نقصان پہنچا ہے، پس اگر وہ چاہیں تو میں ان سے کوئی مدت مقرر کر لوں اور (بعد اس مدت کے) وہ میرے اور کفار عرب کے درمیان میں دخل نہ دیں (یعنی میرے اور ان کے درمیان جنگ ہو) پس اگر میں غالب آ جاؤں تو اگر وہ چاہیں کہ اس دین میں داخل ہوں جس میں اور لوگ داخل ہوئے ہیں تو ایسا کریں اور میں غالب نہ آؤں تو پھر انھیں بھی آرام مل جائے گا (کیونکہ اس صورت میں ان کا مقصود اصلی حاصل ہو جائے گا) اور اگر وہ لوگ اس بات کو منظور نہ کریں گے تو قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اپنی اسی حالت میں ان سے لڑوں گا یہاں تک کہ میں قتل کر دیا جاؤں اور بیشک اللہ اپنے دین کو جاری کرے گا۔“ تو بدیل نے کہا کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں میں قریش سے جا کے کہوں گا۔ چنانچہ وہ گیا، یہاں تک کہ قریش کے پاس پہنچا اور کہا کہ ہم تمہارے پاس اسی شخص کے پاس سے آ رہے ہیں اور ہم نے انھیں کچھ کہتے ہوئے سنا ہے، پس اگر تم چاہو کہ وہ گفتگو ہم تم سے بیان کر دیں، تو ہم بیان کریں؟ ان میں سے بیوقوف لوگوں نے کہا کہ ہمیں اس کی کچھ حاجت نہیں کہ تم ہمیں کسی بات کی خبر دو مگر ان میں سے عقلمند لوگوں نے کہا کہ تم نے انھیں جو کچھ کہتے ہوئے سنا ہو، بیان کرو۔ بدیل نے کہا میں نے ان کو ایسا ایسا کہتے ہوئے سنا ہے، پھر جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا وہ ان سے بیان کر دیا تو عروہ بن مسعود کھڑے ہو گئے اور انھوں نے کہا کہ اے لوگو! کیا میں (تمہارا) باپ نہیں ہوں؟ ان لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر عروہ نے کہا کہ کیا تم (مثل) میرے بیٹے (کے) نہیں ہو؟ ان لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ عروہ نے کہا کیا تم مجھ سے (کسی قسم کی) بدظنی رکھتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ عروہ نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے (مقام) عکاظ والوں کو تمہاری مدد کے لیے بلایا مگر جب انھوں نے میرا کہا نہ مانا تو میں نے اپنے اعزہ اور اولاد کو جس نے میرا کہا مانا اس کو تمہارے پاس لے آیا؟ انھوں نے کہا کہ ہاں (یہ سب صحیح ہے) عروہ نے کہا تو (اچھا اب میری ایک بات مانو) اس شخص (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی بات پیش کی ہے، اس کو منظور کر لو اور مجھے اجازت دو کہ میں اس کے پاس جاؤں۔ سب لوگوں نے کہا اچھا تم اس کے پاس جاؤ چنانچہ عروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ویسی ہی گفتگو (اس سے بھی) کی جیسی بدیل سے کی تھی، تو اس وقت عروہ نے کہا کہ اے محمد! یہ بتاؤ کہ اگر تم اپنی قوم کی جڑ، بنیاد بالکل کاٹ ڈالو گے (تو اس میں تمہارا کیا فائدہ ہو گا) کیا تم نے اپنے سے پہلے کسی عرب کو سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا استیصال کیا ہو؟ اور اگر کوئی دوسری بات ہوئی (یعنی تم مغلوب ہو گئے تو پھر کیا ہو گا اور بظاہر نتیجہ یہی معلوم ہوتا ہے) کیونکہ میں (تمہارے ہمراہ) ایسے لوگ اور ایسے مختلف آدمی دیکھ رہا ہوں کہ وہ بھاگ جانے میں ہی عافیت جانتے ہیں اور وہ تمہیں (میدان جنگ میں تنہا) چھوڑ دیں گے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) عروہ سے کہا کہ جا اور لات کی شرمگاہ چوس لے۔ کیا ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سے) بھاگ جائیں گے؟ اور انھیں تنہا چھوڑ دیں گے؟ عروہ نے کہا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ عروہ نے کہا کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا، جس کا میں نے ابھی تک بدلہ نہیں چکایا تو میں ضرور تم کو جواب دیتا۔ (مسور) کہتے ہیں کہ پھر عروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا اور جب وہ آپ سے بات کرتا تھا تو (ازراہ خوشامد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی میں ہاتھ ڈال دیتا تھا اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے پاس کھڑے ہوئے تھے اور ان کے پاس تلوار تھی اور ان (کے سر) پر خود تھا۔ پس جب عروہ اپنا ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی کی طرف بڑھانے لگتا تو سیدنا مغیرہ (رضی اللہ عنہ) اس کے ہاتھ پر تلوار کا نچلا حصہ مارتے اور کہتے کہ اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی سے پیچھے رکھ۔ پس عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ تو عروہ نے کہا کہ اے دغاباز! کیا میں نے تیری دغابازی کی سزا سے تجھ کو نہیں بچایا اور سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگوں کے پاس نشست و برخاست کرتے تھے، پھر ان کو قتل کر ڈالا اور ان کے مال لے لیے، بعد اس کے وہ آئے اور اسلام لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کو تو میں قبول کیے لیتا ہوں مگر مال کی نسبت مجھے کچھ اختیار معاف کرنے کا نہیں ہے۔“ اس کے بعد عروہ گوشہ چشم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو دیکھنے لگا۔ راوی کہتا ہے پس (اس نے یہ حال دیکھا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لعاب تھوکتے تھے تو صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کسی کے ہاتھ میں پڑتا تھا اور وہ اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کوئی حکم دیتے تھے تو اس کی بجاآوری میں لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے تھے تو وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسالہ وضو پر لڑتے تھے (کوئی کہتا تھا اس کو ہم لیں گے، کوئی کہتا تھا اس کو ہم لیں گے) اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات کرتے تھے تو ان سب پر خاموشی چھا جاتی تھی اور بےمحابا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بغرض تعظیم نہ دیکھتے تھے۔ پھر عروہ ساتھیوں کے پاس لوٹ کر گیا اور کہا کہ اے لوگو! اللہ کی قسم میں بادشاہوں کے دربار میں گیا ہوں اور قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار میں گیا ہوں مگر اللہ کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی اس قدر تعظیم کرتے ہوں، جس قدر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم وہ جب لعاب تھوکتے ہیں تو ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں پڑتا ہے اور وہ اس کو اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے اور جب وہ اپنے اصحاب کو کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو وہ بہت جلد ان کے حکم کے تعمیل کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو لوگ ان کے (غسالہ) وضو کے لیے لڑتے مرتے ہیں اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں لوگوں پر خاموشی چھا جاتی ہے اور بغرض تعظیم ان کی طرف نظر بھر کے دیکھتے نہیں اور بیشک انھوں نے تمہارے سامنے ایک عمدہ بات پیش کی ہے، لہٰذا تم اس کو مان لو۔ تو بنی کنانہ میں سے ایک شخص نے کہا کہ تم مجھے اجازت دو کہ میں ان کے پاس جاؤں۔ لوگوں نے کہا اچھا تم ان کے پاس جاؤ۔ پس جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے سامنے آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ فلاں شخص ہے اور وہ اس قوم میں سے ہے جو قربانی کے جانوروں کی تعظیم کیا کرتے ہیں لہٰذا تم قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دو۔“ چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دیے اور تلبیہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ پس اس نے یہ دیکھا تو کہنے لگا: سبحان اللہ! ان لوگوں کو کعبہ سے روکنا زیبا نہیں۔ پھر جب وہ اپنے لوگوں کے پاس لوٹ کر گیا تو کہنے لگا میں نے قربانی کے جانوروں کو دیکھا کہ انھیں قلادہ پہنائے گئے تھے اور ان کا شعار (کوہان زخمی) کیا ہوا تھا، لہٰذا میں مناسب نہیں سمجھتا کہ یہ لوگ کعبہ سے روکے جائیں۔ پھر ایک شخص ان میں سے کھڑا ہو گیا۔ جس کا نام مکرز بن حفص تھا، اس نے کہا کہ مجھے اجازت دو کہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤں۔ لوگوں نے کہا کہ اچھا تم بھی جاؤ۔ چنانچہ وہ جب مسلمانوں کے پاس آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مکرز ہے اور یہ ایک بدکار آدمی ہے۔“ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا، پس اسی حالت میں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہا تھا سہیل بن عمرو (نامی ایک شخص کافروں کی طرف سے) آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب تمہارا کام آسان کر دیا گیا۔“ اس (سہیل بن عمرو) نے کہا کہ آپ ہمارے اور اپنے درمیان میں صلح نامہ لکھ دیجئیے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب کو بلایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ لکھ بسم اﷲ الّرحمن الرحیم سہیل نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم رحمن کو نہیں جانتے کہ کون ہے، لہٰذا آپ یوں لکھوایے: باسمک اللّٰھمّ جیسا کہ آپ پہلے لکھا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہم تو بسم اﷲ الّرحمن الرحیم ہی لکھوائیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اس پر اصرار نہ کرو)۔ باسمک اللّٰھم لکھ دو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لکھو) ”یہ وہ تحریر ہے کہ جس پر محمد رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے صلح کی۔“ سہیل نے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو کعبہ سے نہ روکتے اور نہ آپ سے جنگ کرتے۔ لہٰذا آپ یہ لکھوایے کہ محمد بن عبداللہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! بیشک میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم لوگ میری تکذیب کرتے رہو۔ لکھو جی محمد بن عبداللہ۔“ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات پر کہ اے کفار مکہ! تم ہمارے اور کعبہ کے درمیان میں راہ صاف کر دو کہ ہم اس کا طواف کر لیں۔“ سہیل نے کہا کہ اللہ کی قسم (ہم یہ بات اس سال منظور نہ کریں گے کیونکہ ہمیں خوف ہے کہ) کہیں عرب یہ نہ کہیں کہ ہم مجبور کر دیے گئے بلکہ آئندہ سال میں یہ بات ہو جائے گی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی لکھوا دیا۔ پھر سہیل نے کہا کہ (یہ بھی لکھوا دیجئیے کہ) ”اور اس بات پر کہ اے محمد! ہماری طرف سے جو شخص تمہارے ہاں جائے، اگرچہ وہ تمہارے دین پر ہو تو اسے ہماری طرف واپس کر دو گے۔“ مسلمانوں نے کہا سبحان اللہ! وہ کیونکر مشرکوں کے پاس واپس کر دیا جائے؟ حالانکہ وہ مسلمان ہو کے آیا ہے۔ پس اسی حالت میں سیدنا ابوجندل ابن سہیل اپنی بیڑیوں میں لڑکھڑاتے ہوئے آئے اور وہ مکہ کے نشیب سے آئے تھے، یہاں تک کہ انھوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے درمیان میں ڈال دیا۔ سہیل نے کہا کہ اے محمد! یہی سب سے پہلی بات ہے جس پر ہم آپ سے صلح کرتے ہیں کہ تم ابوجندل کو مجھے واپس دے دو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے ابھی تحریر ختم نہیں کی۔“ (ابھی سے ان شرائط پر کیونکر عمل ضروری ہو سکتا ہے؟) سہیل نے کہا تو اللہ کی قسم ہم تم سے کسی بات پر کبھی صلح نہ کریں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اس (ایک آدمی) کی تم مجھے اجازت دے دو۔“ سہیل نے کہا میں ہرگز اس کی اجازت نہ دوں گا۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”نہیں! اس کی اجازت دے دو۔ اس نے کہا کہ میں نے نہ دوں گا۔ مکرز نے کہا چلیے ہم اس کی اجازت آپ کو دیتے ہیں۔ (مگر اس کی بات نہیں چلی) ابوجندل نے کہا کہ اے مسلمانو! کیا میں مشرکوں کی طرف واپس کر دیا جاؤں گا؟ حالانکہ میں مسلمان ہو کے آیا ہوں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں نے (اسلام کے لیے) کیا کیا تکلیفیں اٹھائی ہیں؟ (اور درحقیقت) ابوجندل کو اللہ کی راہ میں بہت سخت تکلیف دی گئی تھی۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کی کہ کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں (میں ضرور سچا نبی ہوں)۔“ میں نے عرض کی کہ کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں (یہ بھی درست ہے)۔“ میں نے عرض کی پھر ہم کیوں اپنے دین کے متعلق یہ ذلت گوارا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ میرا مددگار ہے۔“ میں نے عرض کی کہ کیا آپ ہم سے نہ بیان کرتے تھے کہ ہم کعبہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! مگر کیا میں نے تم سے کہا تھا کہ ہم اب کے ہی سال کعبہ جائیں گے؟“ میں نے کہا نہیں (یہ تو نہیں بیان کیا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم کعبہ جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ اے ابوبکر! کیا یہ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں (بیشک وہ اللہ کے رسول ہیں) میں نے کہا کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ انھوں نے کہا ہاں (ضرور ہے) میں نے کہا کہ پھر ہم کیوں اپنے دین کے متعلق یہ ذلت گوارا کریں؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا اے شخص! بیشک یہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ اپنے پروردگار کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ ان کا مددگار ہے۔ لہٰذا تم ان کی مخالفت نہ کرو، کیونکہ اللہ کی قسم وہ حق پر ہیں۔ میں نے کہا کیا وہ ہم سے بیان نہ کرتے تھے کہ ہم کعبہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں (کہا تھا) مگر کیا تم سے بیان کیا تھا کہ تم اسی سال کعبہ جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے؟ میں نے کہا کہ نہیں تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تو پھر تم کعبہ جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس (گستاخی) کے کفارہ میں، میں نے بہت سی عبادتیں کیں۔ (راوی) کہتے ہیں کہ پھر جب صلح نامہ کی تحریر سے فراغت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ”اٹھو! قربانی کر ڈالو اور سر منڈوا ڈالو۔“ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! کوئی شخص بھی ان میں سے نہ اٹھا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا۔ پھر جب ان میں سے کوئی نہ اٹھا تو آپ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے (یہ سب واقعہ) بیان کیا، جو لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آیا تھا۔ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا نبی اللہ! کیا آپ یہ بات چاہتے ہیں؟ آپ باہر تشریف لے جائیے اور ان میں سے کسی کے ساتھ کلام نہ کیجئیے، یہاں تک کہ آپ اپنے قربانی کے جانوروں کو ذبح کر دیجئیے اور اپنا سر مونڈھنے والے کو بلایے تاکہ وہ آپ کا سر مونڈھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور ان میں سے کسی سے کچھ گفتگو نہیں کی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سب کچھ) کر لیا۔ اپنے قربانی کے جانور ذبح کر لیے اور اپنے سر مونڈھنے والے کو بلایا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مونڈھ دیا، پس صحابہ رضی اللہ عنہم نے جب یہ دیکھا تو اٹھے اور انھوں نے بھی قربانی کی اور ان میں سے ایک دوسرے کا سر مونڈھنے لگا یہاں تک کہ جب یہ اژدحام کی وجہ سے قریب تھا کہ ایک دوسرے کو قتل کر دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مسلمان عورتیں آئیں تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ”اے مسلمانو! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان کر لو ....“ اور کافر عورتوں کی ناموس اپنے قبضہ میں نہ رکھو۔“ (الممتحنہ: 10) تک۔ پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس دن دو مشرکہ عورتوں کو جو ان کے نکاح میں تھیں، طلاق دے دی۔ پس ان میں سے ایک کے ساتھ تو معاویہ بن ابوسفیان نے اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کر لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ لوٹ کر آئے تو سیدنا ابوبصیر، جو ایک قریشی النسل تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور وہ مسلمان تھے۔ کفار نے ان کے تعاقب میں دو آدمی بھیجے اور (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہلوا بھیجا کہ جو عہد ہم سے آپ نے کیا ہے اس کا خیال کیجئیے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبصیر (رضی اللہ عنہ) کو ان دونوں کے حوالہ کر دیا اور وہ دونوں ابوبصیر (رضی اللہ عنہ) کو لے کر چلے یہاں تک کہ جب ذوالحلیفہ میں پہنچے تو وہ لوگ اتر کر اپنی کھجوریں کھانے لگے تو سیدنا ابوبصیر نے ان میں سے ایک شخص سے کہا کہ اے فلاں! اللہ کی قسم میں تیری تلوار کو بہت عمدہ دیکھتا ہوں۔ پس اس شخص نے اپنی تلوار میان سے نکال لی اور کہنے لگا ہاں! اللہ کی قسم یہ بہت عمدہ ہے۔ میں نے اس کو کئی مرتبہ آزمایا ہے۔ سیدنا ابوبصیر نے کہا مجھے دکھاؤ، میں بھی اس کو دیکھوں۔ چنانچہ وہ تلوار اس نے سیدنا ابوبصیر کو دے دی۔ ابوبصیر (رضی اللہ عنہ) نے اسے مارا یہاں تک کہ اس کو ٹھنڈا کر دیا اور دوسرا شخص بھاگ گیا اور مدینہ میں آیا اور دوڑتا ہوا مسجد میں گھس گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تو فرمایا: ”یہ کچھ خوف زدہ ہے۔“ پھر جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو اس نے کہا: ”اللہ کی قسم! میرا ساتھی قتل کر دیا گیا اور میں بھی ابھی قتل کر دیا جاؤں گا۔“ پھر سیدنا ابوبصیر آئے اور انھوں نے کہا کہ ”یا نبی اللہ! بیشک اللہ کی قسم! اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ بری کر دیا۔ آپ نے مجھے کفار کی طرف واپس کر دیا تھا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دے دی ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو لڑائی کی آگ ہے، اگر کوئی اس کا مددگار ہوتا تو یہ آگ بھڑک اٹھتی۔“ پس جب یہ بات ابوبصیر نے سنی تو وہ سمجھ گئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر انھیں کفار کی طرف واپس کر دیں گے لہٰذا وہ چل دیے یہاں تک کہ وہ سمندر کے کنارے پہنچے اور (اس طرف سے) سیدنا ابوجندل بن سہیل بھی چھوٹ کر آ رہے تھے (راستہ میں) وہ ابوبصیر سے مل گئے۔ پس جو شخص قریش کا مسلمان ہو کر آتا تھا وہ ابوبصیر سے مل جاتا تھا، یہاں تک کہ ان سب کی پوری جماعت بن گئی۔ پس اللہ کی قسم! جب وہ قریش کے کسی قافلہ کی نسبت سنتے تھے کہ وہ شام کی طرف جا رہا ہے تو وہ اس کی گھات میں رہتے اور ان (کے آدمیوں) کو قتل کرتے اور ان کے مال لے لیتے۔ پس قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی بھیجا اور آپ کو اللہ کا اور قرابت کا واسطہ دلایا تاکہ (آپ ابوبصیر کو) ان باتوں سے منع کرا بھیجیں اور جو شخص آپ کے پاس (مسلمان ہو کے) جائے، وہ بےخوف ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر وغیرہ کو منع کرا بھیجا۔ پس اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ”اور وہی ہے جس نے خاص مکہ میں کافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دے دیا تھا .... حمیت کو جگہ دی اور حمیت بھی جاہلیت کی ....“ (سورۃ الفتح: 24، 26) اور ان کی حمیت یہ تھی کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے اور اور بسم اﷲ الرحمن الرحیم کو نہ مانا اور مسلمانوں کے اور کعبہ کے درمیان حائل ہو گئے۔