مختصر صحيح بخاري
شکار کی جزا کا بیان
اگر بغیر احرام کے آدمی شکار کرے اور احرام والے کو ہدیتاً دے تو احرام والے کے لیے اس کا کھانا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 884
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حدیبیہ کے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے (جلدی سے) احرام باندھ لیا اور میں نے (اس وقت تک) احرام نہیں باندھا تھا پھر ہمیں خبر دی گئی کہ (مقام) غیقہ میں دشمن ہے جو کہ لڑنا چاہتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور میں (ابوقتادہ) بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے ساتھ تھا۔ پھر میرے ساتھیوں نے ایک گورخر (جنگلی گدھا) دیکھا تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے (میں سمجھ گیا کہ کسی شکار کو دیکھ کر ہنس رہے ہیں) پھر میں نے بھی نظر اٹھائی تو گورخر کو دیکھ لیا، میں نے گھوڑا اس کے پیچھے دوڑا دیا۔ اسے تیر مار کر گرا دیا پھر میں نے ان لوگوں سے مدد چاہی تو انھوں نے میری مدد کرنے سے انکار دیا (بالاخر میں نے ہی اس کو ذبح کیا) پھر ہم سب نے اس کا گوشت کھایا اس کے بعد میں اپنا گھوڑا سرپٹ دوڑا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنے لگا۔ ہمیں یہ خوف ہو گیا تھا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چھوٹ جائیں گے پھر (راستہ میں) بنی غفار کے ایک شخص سے ملاقات ہوئی، میں نے پوچھا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں چھوڑا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعھن نامی چشمہ پر چھوڑا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ تھا کہ مقام سقیا میں قیلولہ کریں (یہ پوچھ کر میں چل دیا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملا، جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! صحابہ نے مجھے بھیجا ہے، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام اور اللہ کی رحمت عرض کی ہے اور انھیں یہ خوف ہے کہ دشمن انھیں آپ سے جدا کر دے گا پس آپ ان کا انتظار کیجئیے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا ہی) کیا پھر میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم نے ایک گورخر کو شکار کیا ہے اور ہمارے پاس اس کا کچھ بچا ہوا گوشت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے فرمایا: ”کھاؤ۔“ حالانکہ وہ سب احرام میں تھے۔