صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
8. بَابُ كَرَاهِيَةِ التَّعَرِّي فِي الصَّلاَةِ وَغَيْرِهَا:
باب: (بلا ضرورت) ننگا ہونے کی کراہیت نماز میں (ہو یا اور کسی حال میں)۔
حدیث نمبر: 364
حَدَّثَنَا مَطَرُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْقُلُ مَعَهُمُ الْحِجَارَةَ لِلْكَعْبَةِ وَعَلَيْهِ إِزَارُهُ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ عَمُّهُ: يَا ابْنَ أَخِي، لَوْ حَلَلْتَ إِزَارَكَ فَجَعَلْتَ عَلَى مَنْكِبَيْكَ دُونَ الْحِجَارَةِ، قَالَ: فَحَلَّهُ، فَجَعَلَهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ فَسَقَطَ مَغْشِيًّا عَلَيْهِ، فَمَا رُئِيَ بَعْدَ ذَلِكَ عُرْيَانًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نبوت سے پہلے) کعبہ کے لیے قریش کے ساتھ پتھر ڈھو رہے تھے۔ اس وقت آپ تہبند باندھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس نے کہا کہ بھتیجے کیوں نہیں تم تہبند کھول لیتے اور اسے پتھر کے نیچے اپنے کاندھے پر رکھ لیتے (تاکہ تم پر آسانی ہو جائے) جابر نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کھول لیا اور کاندھے پر رکھ لیا۔ اسی وقت غشی کھا کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ کبھی ننگے نہیں دیکھے گئے۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 364 کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 364
تخريج الحديث:
[195۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 8 باب كراهية التعري فى الصلاة وغيرها 364، مسلم 340، ابن حبان 1603]
لغوی توضیح:
«فَحَلَّهُ» آپ نے اسے اتار دیا۔
«مَغْشِيًّا» جسے غشی آ جائے۔
«عُرْيَانًا» ننگا۔
فھم الحدیث:
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بچپن میں بھی اہل جاہلیت کی بری عادتوں سے بچا کر رکھا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ستر پوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل حیات ہے۔ آپ نے اس کا حکم بھی دیا ہے، فرمایا کہ اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے اپنے ستر کی حفاظت کرو۔ [حسن: المشكاة 3117، مسند أحمد 3/5 4، أبوداود 4017، ترمذي 2769]
یعنی انسان صرف اپنی بیوی اور لونڈی کے سامنے ستر ظاہر کر سکتا ہے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 195
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:364
حدیث حاشیہ:
1۔
برہنگی نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں ممنوع ہے، نماز کی حالت میں تو ظاہر ہے، لیکن نماز کے علاوہ بھی بلاضرورت ستر کا برہنہ رکھناشرعاً ممنو ع ہے۔
مذکورہ بالا روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ خارج صلاۃ کا ہے۔
امام بخاری ؒ کا استدلال اس طرح ہے کہ جب سترپوشی کااہتمام نماز کے علاوہ اس قدر ہے تونماز میں توبدرجہ اولیٰ اس کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔
ابن بطال ؒ نے لکھاہے کہ کشف ازار کا واقعہ جب پیش آیا تو آپ کی عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی اور نبوت سے بھی سرفراز نہیں ہوئے تھے۔
چونکہ برہنگی آپ کی شان کے خلاف تھی، اس لیے فوراً بے ہوشی طاری کردی گئی اور تنبیہ کردی گئی تاکہ آئندہ اس کا اعادہ نہ ہو، کیونکہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی تربیت شروع ہی سے اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی میں ہوتی ہے۔
بعثت سے قبل ایسے امور کی اصلاح دوسرے ہی طریقوں سے ممکن تھی، اس لیے آسمانی اشارے یاسلامت طبع کے تحت فوراً آپ بے ہوش ہوگئے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی ؒ کے حوالے سے یہ الفاط نقل کیے ہیں کہ آپ فوراً کھڑے ہوئے، اپنی آواز کو سنبھالا اور فرمایا کہ مجھے ننگا ہو کر چلنے سے منع کردیا گیا ہے۔
(فتح الباري: 615/1)
اس سے معلوم ہوا کہ آپ بعثت سے پہلے برے کاموں اور بے شرمی کی باتوں سے محفوظ تھے۔
بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب عام حالات میں کسی خاص ضرورت کے پیش نظر برہنگی درست نہیں تو نماز ننگے کیسے پڑھی جاسکتی ہے؟ایک دوسرے کو ننگا دیکھ سکتے ہیں۔
(شرح ابن بطال: 27/2)
اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں دوسروں کے سامنے ننگا ہونا منع ہے۔
البتہ خاص حالات میں کسی مجبوری کے پیش نظر اس کا جواز ہے۔
خاص حالات حسب ذیل ہوسکتے ہیں، غسل خانے میں نہاتے وقت، مثانے یا بواسیر کا آپریشن کراتے وقت، ولادت کے موقع پر اپناستر کھولنے کی اجازت ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 364
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 771
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب کعبہ تعمیر کیا گیا تو عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور رسول اللہ ﷺ پتھر لانے لگے تو عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا، پتھروں کی حفاظت کے لیے اپنا تہبند اٹھا کر کندھے پر رکھ لیجیئے تو آپﷺ نے ایسا کر لیا، اس پر آپﷺ زمین پر گر گئے اور آپﷺ کی آنکھیں آسمان کی طرف لگ گئیں، پھر آپﷺ اٹھے اور کہا میرا تہبند، میرا تہبند تو آپﷺ کا تہبند باندھ دیا گیا یا آپﷺ نے اپنا تہبند باندھ لیا، ابن رافع کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:771]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انسان کو دوسروں کے سامنے اپنا ستر نہیں کھولنا چاہیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے ہی اپنی طبعی شرم وحیا کی بنا پر چچا کے حکم سے اپنا تہبند کھول تو لیا۔
لیکن فوراً بے ہوش ہو کر گر پڑے،
اور آپ کو اس کام سے روک دیا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو نبوت سے پہلے ہی غلط کاموں سے محفوظ فرماتا ہے اس وقت آپﷺ بقول زہری بلوغت کو نہیں پہنچے تھے بقول بعض اس وقت آپﷺ کی عمر پندرہ سال،
بقول بعض پچیس اور بقول ابن اسحاق پینتیس سال تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 771
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1582
1582. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی گئی تو نبی کریم ﷺ اور حضرت عباس ؓ پتھر اٹھا کر لارہے تھے۔ حضرت عباس ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ آپ اپنا تہبند اُتار کرکندھے پر رکھ لیں۔ جب آپ نے ایسا کیا تو بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑے اور آپ کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ آپ نےفرمایا: ”میراتہبند مجھے دے دو۔“ اس کے بعد آپ نے اپنا تہبند اپنے اوپر باندھ لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1582]
حدیث حاشیہ:
اس زمانہ میں محنت مزدوری کے وقت ننگے ہونے میں عیب نہیں سمجھا جاتا تھا۔
لیکن چونکہ یہ امر مروت اور غیرت کے خلاف تھا، اللہ نے اپنے حبیب کے لئے اس وقت بھی یہ گوارہ نہ کیا گو اس وقت تک آپ کو پیغمبری نہیں ملی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1582
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1582
1582. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی گئی تو نبی کریم ﷺ اور حضرت عباس ؓ پتھر اٹھا کر لارہے تھے۔ حضرت عباس ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ آپ اپنا تہبند اُتار کرکندھے پر رکھ لیں۔ جب آپ نے ایسا کیا تو بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑے اور آپ کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ آپ نےفرمایا: ”میراتہبند مجھے دے دو۔“ اس کے بعد آپ نے اپنا تہبند اپنے اوپر باندھ لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1582]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں تعمیر کعبہ کا ذکر ہے۔
اس وقت آٹھویں مرتبہ قریش نے اسے تعمیر کیا تھا۔
اس سے مکہ مکرمہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے پتھر اپنے کندھوں پر اٹھائے تھے۔
اس وقت آپ کی عمر پینتیس برس تھی۔
اس وقت محنت و مزدوری کے وقت ننگے ہونے کو عیب نہیں سمجھا جاتا تھا، اس لیے آپ نے اپنی چادر اتار کر کندھے پر رکھ لی لیکن اس وقت بھی ایسا کام مروت اور غیرت کے خلاف تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب ﷺ کے لیے یہ گوارا نہ ہوا۔
اس کے بعد کبھی آپ کو ننگا نہیں دیکھا گیا۔
(2)
واضح رہے کہ یہ واقعہ زمانہ نبوت سے پہلے کا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے (باب كراهية التعري في الصلاة)
”نماز میں برہنہ رہنے کی ممانعت“ (صحیح البخاري، الصلاة، باب: 8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1582
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3829
3829. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب کعبہ کی تعمیر ہو رہی تھی تو نبی ﷺ اور حضرت عباس ؓ پتھر اٹھا کر لا رہے تھے۔ حضرت عباس ؓ نے نبی ﷺ سے کہا: آپ اپنا تہبند اتار کر کندھے پر رکھ لیں جو آپ کو پتھروں کی رگڑ سے محفوظ رکھے گا۔ جب آپ نے ایسا کیا تو زمین پر گر پڑے اور آپ کی آنکھیں آسمان سے لگ گئیں۔ پھر جب ہوش آیا تو (اپنے چچا عباس سے) فرمایا: ”میرا تہبند دو، میرا تہبند دو“ چنانچہ انہوں نے وہ تہبند آپ کو مضبوط باندھ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3829]
حدیث حاشیہ:
1۔
ابوطفیل کی روایت میں ہے کہ تہبند اتارنے سے جب رسول اللہ ﷺ کا ستر کھل گیا توآواز آئی:
اے محمد ﷺ! اپنے ستر کو چھپاؤ۔
اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ کو ننگا نہیں دیکھا گیا۔
(فتح الباري: 185/7۔
وأخبار مکة للآزرقي: 194/1)
2۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نبوت سے پہلے بھی قبائح ورزائل سے محفوظ تھے اور اسی طرح نبوت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر قسم کی قباحت و رذالت سے محفوظ رکھا۔
(عمدة القاري: 543/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3829