مختصر صحيح بخاري
حج کے بیان میں
تمتع، قران اور حج مفرد کا بیان اور جس کے پاس قربانی نہ ہو اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
حدیث نمبر: 794
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ (دور جاہلیت میں) لوگ یہ سمجھتے تھے کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا تمام دنیا کی برائیوں سے بڑھ کر ہے اور وہ لوگ ماہ محرم کو ماہ صفر قرار دے لیتے تھے اور کہتے تھے کہ جب اونٹ کی پیٹھ کا زخم (جو سفر حج میں اس پر کجاوا باندھنے سے اکثر آ جاتا ہے) اچھا ہو جائے اور نشان بالکل مٹ جائے اور صفر گزر جائے تو اس وقت عمرہ حلال ہے اس شخص کے لیے جو عمرہ کرنا چاہے۔ پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے مکہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ اس احرام کو (توڑ کر اس کی بجائے) عمرہ (کا احرام) کر لیں پس یہ بات ان لوگوں کو بری معلوم ہوئی اور وہ لوگ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! کون سی بات احرام سے باہر ہونے کی کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب باتیں۔“