Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
22. بَابُ مَنَاقِبُ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:
باب: حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3749
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَدِيٌّ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ، يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عدی نے خبر دی، کہا کہ میں نے براء رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن رضی اللہ عنہ آپ کے کاندھے مبارک پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے اے اللہ! مجھے اس سے محبت ہے تو بھی اس سے محبت رکھ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3749 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3749  
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن اور حسین ؓ کو دیکھا تو فرمایا:
اے اللہ!میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی انھیں محبوب بنا لے۔
(جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3782)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ دونوں شہزادے بہت محبوب اور پیارے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3749   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3783  
´حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ اپنے کندھے پر حسن بن علی رضی الله عنہما کو بٹھائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے: «اللهم إني أحبه فأحبه» اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3783]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جس روایت میں صرف حسنؓ کو کندھے پر اٹھائے ہونے کا تذکرہ ہے وہ اس روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما دونوں کو اٹھائے ہوئے تھے،
حالانکہ یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعے ہیں،
اور دونوں کے لیے یہ بات کہے جانے میں کوئی تضاد بھی نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3783