مختصر صحيح بخاري
اذان کا بیان
اذان کی ابتداء (کیونکر ہوئی)۔
حدیث نمبر: 370
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مسلمان جب مدینہ آئے تھے تو نماز کے لیے، وقت کا اندازہ کر کے جمع ہو جایا کرتے تھے (اس وقت تک) نماز کے لیے باقاعدہ اذان نہ ہوتی تھی، پس ایک دن مسلمانوں نے اس بارے میں گفتگو کی (کہ کوئی اعلان ضرور ہونا چاہیے) تو بعض نے کہا کہ نصاریٰ کے ناقوس کی طرح ناقوس بنا لو اور بعض نے کہا نہیں بلکہ یہود کے بگل کی طرح ایک بگل بنا لو، پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیوں نہ ایک آدمی کو مقرر کر دیا جائے کہ وہ نماز کے لیے اذان دے دیا کرے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال اٹھو اور نماز کے لیے اذان دو۔“