مختصر صحيح بخاري
نماز کا بیان
کیا (یہ جائز ہے کہ زمانہ) جاہلیت کے مشرکوں کی قبریں اکھاڑ دی جائیں اور ان مقامات پر مساجد بنا لی جائیں؟
حدیث نمبر: 272
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں (ہجرت کر کے) تشریف لائے تو مدینہ کی بلندی پر ایک قبیلے میں جس کو بنی عمرو بن عوف کہتے ہیں، اترے اور ان لوگوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ راتیں قیام فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نجار کو بلوا بھیجا تو وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آ پہنچے۔ اب گویا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے ردیف ہیں اور بنی نجار کی جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں (اپنا اسباب) اتار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہیں نماز پڑھ لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے رہنے کی جگہ میں بھی نماز پڑھ لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ پھر بنی نجار کے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلوا بھیجا اور فرمایا: ”اے بنی نجار! اپنا یہ باغ تم میرے ہاتھ بیچ ڈالو۔“ انھوں نے عرض کی کہ اللہ کی قسم! ہم اس کی قیمت نہ لیں گے مگر اللہ بزرگ و برتر سے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس (باغ) میں وہ چیزیں تھیں جو میں تم سے کہتا ہوں یعنی مشرکوں کی قبریں، ویرانہ اور کھجور کے درخت تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو مشرکوں کی قبریں کھود ڈالی گئیں۔ پھر حکم دیا کہ ویرانے کو برابر کر دیا جائے اور درختوں کو کاٹ دیا جائے پھر کھجور کے درخت مسجد کی (جانب) قبلہ میں نصب کر دیے اور اس کی بندش پتھروں سے کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پتھر لانے لگے اور وہ رجز پڑھتے جاتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔ فائدہ جو کچھ کہ ہے فائدہ وہ آخرت کا فائدہ بخش دے انصار اور مہاجرین کو اے اللہ۔