صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
11. بَابُ ذِكْرُ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3710
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِينَا , وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَيُسْقَوْنَ".
ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، ان سے ابوعبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اور کہتے کہ اے اللہ پہلے ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کراتے تھے تو ہمیں سیرابی عطا کرتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ذریعہ بارش کی دعا کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں سیرابی عطا فرما۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد خوب بارش ہوئی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3710 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3710
حدیث حاشیہ:
حضرت عباس ؓ رسول کریم ﷺ کے محترم چچا ہیں، عمر میں آپ سے دوسال بڑے تھے۔
ان کی ماں نمر بنت قاسط وہ خاتون ہیں جنہوں نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کو غلاف سے مزین کیا، حضرت عباس ؓ قریش کے بڑے سرداروں میں سے تھے۔
مجاہد ؒ کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنی موت کے وقت ستر غلام آزاد کئے۔
بروز جمعہ12 رجب32 ھ میں بعمر 88سال وفات پائی۔
رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3710
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3710
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عباس ؓ کی بزرگی اور فضیلت کا اعتراف حضرت عمر ؓ کرتے تھے،لیکن اس کےباوجود انھوں نے اپنی مجلس شوریٰ میں شامل نہیں کیا تھا کیونکہ وہ فتح مکہ تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
اس کے بعد مسلمان ہوئے۔
جنگ بدر میں قید ہوئے۔
اپنا اور اپنے بھتیجے کا فدیہ دیا اورآزادی ملی۔
ان کی کنیت ابوالفضل تھی۔
آپ 12 رجب 32 بمطابق 17فروری 653ء بروز جمعہ فوت ہوئے۔
حضرت عثمان ؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
پھر انھیں جنت البقیع میں سپرد خا ک کیا گیا۔
2۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندہ بزرگ سے دعا کرانا تو جائز ہے لیکن کسی فوت شدہ کا وسیلہ پکڑنا درست نہیں۔
واللہ أعلم۔
3۔
بہرحال حضرت عباس ؓ بڑے سمجھ دار اور دانا تھے۔
رسول اللہ ﷺ کے متعلق بات چیت کریں تو حضرت علی ؓ نے فرمایا:
اگرآپ نے ہمیں منع کردیا توآئندہ ہمیشہ کے لیے دروازہ بند ہوجائے گا۔
اس لیے میں تو اس معاملے میں آپ سے بات نہیں کروں گا۔
(صحیح البخاري، المغازی، حدیث: 4447)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3710