صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
6. بَابُ مَنَاقِبُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ الْقُرَشِيِّ الْعَدَوِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: ابوحفص عمر بن خطاب قرشی عدوی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3683
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّ أَبَاهُ، قَالَ. ح حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ عَلَى صَوْتِهِ , فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قُمْنَ فَبَادَرْنَ الْحِجَابَ , فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَدَخَلَ عُمَرُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ"، فَقَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ أَحَقُّ أَنْ يَهَبْنَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: يَا عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَ: نَعَمْ أَنْتَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِيهًا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ".
ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا مجھ کو عبدالحمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں محمد بن سعد بن ابی وقاص نے خبر دی اور ان سے ان کے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالحمید بن عبدالرحمٰن بن زید نے، ان سے محمد بن سعد بن ابی وقاص نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں (امہات المؤمنین میں سے) بیٹھی باتیں کر رہی تھیں اور آپ کی آواز پر اپنی آواز اونچی کرتے ہوئے آپ سے نان و نفقہ میں زیادتی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ جوں ہی عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ تمام کھڑی ہو کر پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ کھڑی ہوئیں۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اور وہ داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ خوش رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر ہنسی آ رہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن تمہاری آواز سنتے ہی سب پردے کے پیچھے بھاگ گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ڈرنا تو انہیں آپ سے چاہیے تھا۔ پھر انہوں نے (عورتوں سے) کہا اے اپنی جانوں کی دشمنو! تم مجھ سے تو ڈرتی ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں، عورتوں نے کہا کہ ہاں، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا دیکھتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3683 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3683
حدیث حاشیہ:
آپ نے دعا فرمائی تھی یا اللہ! اسلام کو عمر یا پھر ابوجہل کے اسلام سے عزت عطاکر۔
اللہ نے حضرت عمر ؓ کے حق میں آپ کی دعا قبول فرمائی۔
جن کے مسلمان ہونے پر مسلمان کعبہ میں اعلانیہ نماز پڑھنے لگے اور تبلیغ اسلام کے لیے راستہ کھل گیا۔
ان کے اسلام لانے کا واقعہ مشہور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3683
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3683
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے حضرت عمر ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ ان سے شیطان بھی ڈرتا ہے حتی کہ وہ حضرت عمر ؓ کو کسی راستے میں دیکھ کراپنا راستہ بدل لیتا ہے،یعنی خود شیطان بھی ان سے بہت ہبیت زدہ اور ہراساں ہے۔
2۔
حضرت عمر ؓ کو عورتوں کا ہیبت زدہ ہونا اسی طرح معلوم ہوا کہ وہ جلدی سےصرف آواز ہی سن کر پردے میں چلی گئیں،اگرصرف پردہ ہی مقصود تھا تو وہاں بیٹھی بیٹھی اپنی چادروں سے پردہ کرسکتی تھیں۔
اس کے علاوہ کچھ عورتیں حضرت عمر کی محارم تھیں جیسا کہ حضر ت حفصہ ؓہیں،ان سب کا پردے میں چلے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سب حضرت عمر ؓ سے ہبیت زدہ تھیں اور آپ سے ڈرتی تھیں۔
صرف پردہ کرنے کے لیے ہی وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے نہیں اٹھی تھیں۔
3۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کے کردار پر اس لیے تعجب کیا کہ انھوں نے جلد بازی سے کام لیا اور اس امر کا انتظار نہیں کیا کہ حضرت عمر ؓکو اندر آنے کی اجازت ملتی ہے یا نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3683
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3294
3294. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت آپ کے پاس چند قریشی عورتیں (ازواج مطہرات) آپ کے پاس بیٹھی آپ سے محو گفتگو تھیں اور باآواز بلند آپ سے خرچہ بڑھانے کا مطالبہ کررہی تھیں۔ لیکن جونہی حضرت عمر ؓنے اجازت طلب کی تو وہ اٹھیں اور جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مسکراتے ہوئے انھیں اجازت دی تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے (یہ مسکراہٹ کیسی ہے؟) آپ نے فرمایا: ”میں ان عورتوں پر تعجب کررہا ہوں جو میرے پاس بیٹھی تھی، جب انھوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے حجاب میں چلی گئی ہیں۔“ حضرت عمر ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ اس امر کے زیادہ حقدار تھے کہ یہ آپ سے ڈریں۔ پھر انہوں نے کہا: اے اپنی جانوں سے دشمنی کرنے والیو! تم مجھ سے ڈرتی ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3294]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ شیطان حضرت عمر ؓکے سایہ سے بھاگتا ہے۔
رافضیوں نے اس حدیث کی صحت پر اعتراض کیا ہے جو سراسر جہالت اور نفسانیت پر مبنی ہے آنحضرت ﷺ بادشاہ وقت رحمۃ للعالمین تھے اور بادشاہوں کا رحم و کرم اس درجہ ہوتا ہے کہ بدمعاشوں کو بھی بادشاہ سے فضل و کرم کی توقع ہوتی ہے۔
حضرت عمرؓ کوتوال کی طرح تھے۔
کوتوال کا اصلی فرض یہی ہوتا ہے کہ بدمعاشوں اور ڈاکوؤں کو پکڑے اور بدمعاش جتنا کوتوال سے ڈرتے ہیں، اتنا بادشاہ سے نہیں ڈرتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3294
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6085
6085. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت آپ کے پاس ازواج مطہرات کو قریش سے تعلق رکھتی تھیں آپ سے اخراجات کا تقاضا کر رہی تھیں اور بآواز بلند باتیں کر رہی تھیں جب حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اجازت طلب کی تو وہ جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔ نبی ﷺ نے انہں اجازت دے تو وہ اندر آ گئے۔ نبی ﷺ اس وقت ہنس رہے تھے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اور اللہ تعالٰی آپ کو ہنساتا رہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان پر مجھے حیرت ہوئی جو ابھی میرے پاس (اخراجات کا تقاضا کررہی) تھیں۔ جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ زیادہ حقدار ہیں کہ وہ آپ سے ہیبت زدہ ہوں۔ پھر انہوں نے عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اپنی جانوں کی دشمنوں مجھ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6085]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت عظمیٰ پر روشنی پڑتی ہے کہ شیطان بھی ان سے ڈرتا ہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سائے سے بھاگتا ہے۔
اب یہ اشکال نہ ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی افضلیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نکلتی ہے کیونکہ یہ ایک خاص معاملہ ہے، چور ڈاکو جتنا کوتوال سے ڈرتے ہیں اتنا خود بادشاہ سے نہیں ڈرتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6085
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3294
3294. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت آپ کے پاس چند قریشی عورتیں (ازواج مطہرات) آپ کے پاس بیٹھی آپ سے محو گفتگو تھیں اور باآواز بلند آپ سے خرچہ بڑھانے کا مطالبہ کررہی تھیں۔ لیکن جونہی حضرت عمر ؓنے اجازت طلب کی تو وہ اٹھیں اور جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مسکراتے ہوئے انھیں اجازت دی تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے (یہ مسکراہٹ کیسی ہے؟) آپ نے فرمایا: ”میں ان عورتوں پر تعجب کررہا ہوں جو میرے پاس بیٹھی تھی، جب انھوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے حجاب میں چلی گئی ہیں۔“ حضرت عمر ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ اس امر کے زیادہ حقدار تھے کہ یہ آپ سے ڈریں۔ پھر انہوں نے کہا: اے اپنی جانوں سے دشمنی کرنے والیو! تم مجھ سے ڈرتی ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3294]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حقیقت کے علاوہ حضرت عمر ؓ کی دوخصوصیات نمایاں تھیں جو حسب ذیل ہیں:
الف۔
آپ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے میں کسی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے اور نہ اس کی پرواہی کرتے تھے۔
کتب حدیث میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں اور یہ عنوان تو مستقل تصنیف کا تقاضا کرتاہے۔
ب۔
آپ دینی معاملات میں بہت سخت تھے۔
ان دوخصوصیات کی بنا پر آپ کو اللہ کی طرف سے یہ اعزاز ملا کہ شیطان آپ کا سامنا نہیں کرسکتا تھا۔
2۔
واضح رہے کہ اس سے آپ کا معصوم ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ تو حضرات انبیاء ؑ کا خاصا ہے جس میں اور کوئی شریک نہیں ہے۔
3۔
شیطان کے فرار سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ وسوسہ اندازی سے بھی عاجز ہوگیا تھا۔
(فتح الباري: 61/7)
4۔
دینی پختگی اور فریضہ امر بالمعروف کی ادائیگی سے کسی حد تک شیطان کی شرارتوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
اگرچہ حضرت عمر ؓ جیسا امتیاز تو حاصل نہیں ہوسکتا، تاہم ان صفات سے شیطانی وساوس پر کنٹرول ہوسکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3294