Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
5. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔
حدیث نمبر: 3661
حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِذِ اللَّهِ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ آخِذًا بِطَرَفِ ثَوْبِهِ حَتَّى أَبْدَى عَنْ رُكْبَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا صَاحِبُكُمْ فَقَدْ غَامَرَ فَسَلَّمَ، وَقَالَ إِنِّي كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ ابْنِ الْخَطَّابِ شَيْءٌ فَأَسْرَعْتُ إِلَيْهِ، ثُمَّ نَدِمْتُ فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَغْفِرَ لِي فَأَبَى عَلَيَّ فَأَقْبَلْتُ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ثَلَاثًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ نَدِمَ فَأَتَى مَنْزِلَ أَبِي بَكْرٍ فَسَأَلَ أَثَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالُوا: لَا فَأَتَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ فَجَعَلَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَمَعَّرُ حَتَّى أَشْفَقَ أَبُو بَكْرٍ فَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ أَنَا كُنْتُ أَظْلَمَ مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي إِلَيْكُمْ فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: صَدَقَ وَوَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُوا لِي صَاحِبِي مَرَّتَيْنِ فَمَا أُوذِيَ بَعْدَهَا".
مجھ سے ہشام بن عمار نے بیان کیا، کہا ہم سے صدقہ بن خالد نے بیان کیا، ان سے زید بن واقد نے بیان کیا، ان سے بسر بن عبیداللہ نے، ان سے عائذ اللہ ابوادریس نے اور ان سے ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کا کنارہ پکڑے ہوئے، گھٹنا ظاہر کئے ہوئے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے تمہارے دوست کسی سے لڑ کر آئے ہیں۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حاضر ہو کر سلام کیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے اور عمر بن خطاب کے درمیان کچھ تکرار ہو گئی تھی اور اس سلسلے میں، میں نے جلدی میں ان کو سخت لفظ کہہ دیئے لیکن بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی تو میں نے ان سے معافی چاہی، اب وہ مجھے معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر! تمہیں اللہ معاف کرے۔ تین مرتبہ آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی ندامت ہوئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے اور پوچھا کیا ابوبکر گھر پر موجود ہیں؟ معلوم ہوا کہ نہیں تو آپ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ نے سلام کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک غصہ سے بدل گیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ڈر گئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کرنے لگے، یا رسول اللہ! اللہ کی قسم زیادتی میری ہی طرف سے تھی۔ دو مرتبہ یہ جملہ کہا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا تھا۔ اور تم لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تم جھوٹ بولتے ہو لیکن ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں اور اپنی جان و مال کے ذریعہ انہوں نے میری مدد کی تھی تو کیا تم لوگ میرے دوست کو ستانا چھوڑتے ہو یا نہیں؟ آپ نے دو دفعہ یہی فرمایا: آپ کے یہ فرمانے کے بعد پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے نہیں ستایا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3661 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3661  
حدیث حاشیہ:
ابویعلیٰ کی روایت میں ہے کہ جب عمر ؓ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے منہ پھیرلیا۔
دوسری طرف سے آئے تو ادھر سے بھی منہ پھیر لیا۔
سامنے بیٹھے تو ادھر سے بھی منہ پھیر لیا آخر انہوں نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا:
ابوبکر نے تم سے معذرت کی اور تم نے قبول نہ کی۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ابوبکر صدیق ؓ کی فضیلت تمام صحابہ پر نکلی۔
حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ ان کا خطاب صدیق آسمان سے اترا۔
اس حدیث سے شیعہ حضرات کو سبق لینا چاہیے۔
جب آپ حضرت عمر ؓ پر حضرت ابوبکر ؓ کے لیے اتنے غصہ ہوئے حالانکہ پہلے زیادتی ابوبکر ہی کی تھی مگرجب انہوں نے معافی چاہی تو حضرت عمر ؓ کو فوراً معاف کرنا چاہیے تھا۔
پھر شیعہ حضرات کس منہ سے آنحضرت ﷺ کے یار غار کو برا بھلا کہتے ہیں۔
ان لوگوں کو خدا سے ڈرنا چاہیے۔
دیکھا گیا ہے کہ حضرات شیخین پر تبرا کرنے والوں کا برا حشر ہوا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3661   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3661  
حدیث حاشیہ:

فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ بار باران سے منہ پھیرتے رہے آخر انھوں نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس زندگی کا کیا فائدہ جس میں آپ ناراض ہوں کیا وجہ ہے؟آپ نے فرمایا:
ابو بکر تم سے بار بار معافی مانگتا رہا لیکن تم نے معاف نہیں کیا۔
حضرت عمر ؓ نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ!انھوں نے جتنی مرتبہ مجھ سے معذرت کی ہے میں اتنی ہی مرتبہ ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعاکرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے بعد کسی کو پیدا نہیں فرمایا جو ابوبکر ؓ سے مجھے زیادہ محبوب ہو۔
حضرت ابو بکر ؓ نے کہا:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میرے بھی ان کے متعلق یہی جذبات ہیں۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 285/12)

حضرت ابو بکر ؓ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر فضیلت حاصل ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فاضل کو چاہیے وہ اپنے سے افضل کو ناراض نہ کرے۔

کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنا جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب ممدوح کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔
اگر اس تعریف سے اس کے اندرخود پسندی پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتو اس سے بچنا چاہیے4۔
اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ انسان کو اس کی مرضی کے خلاف فعل پر غصہ آنا طبعی چیز ہے لیکن دین میں پختہ انسان اپنی ناراضی جلدی ختم کردیتا ہے اور غیر نبی معصوم نہیں ہوتا اگرچہ فضیلت میں انتہا کو پہنچ جائے۔
(فتح الباري: 33/7، 34)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3661   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4640  
4640. حضرت ابوالدرداء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے درمیان کچھ تکرار ہو گئی، چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمر کو ناراض کر دیا تو حضرت عمر ؓ وہاں سے غضبناک ہو کر چل دیے۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ بھی ان سے معافی مانگتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چلے لیکن حضرت عمر ؓ نے انہیں معاف نہ کیا بلکہ ان کے سامنے سے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا۔ حضرت ابوبکر ؓ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت ابوالدرداء کہتے ہیں کہ ہم لوگ اس وقت آپ ﷺ کے پاس موجود تھے۔ آپ نے فرمایا: تمہارے یہ صاحب کسی سے جھگڑا کر کے آ رہے ہیں۔ اس دوران میں حضرت عمر ؓ کو بھی اپنے رد عمل پر پشیمانی ہوئی تو وہ آئے اور سلام کر کے نبی ﷺ کے پاس بیٹھ گئے اور رسول اللہ ﷺ سے پورا واقعہ بیان کیا۔ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ (حضرت عمر ؓ پر) ناراض ہوئے لیکن حضرت ابوبکر ؓ مسلسل کہے جا رہے تھے: اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4640]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ ابو بکر ؓ سب سے پہلے ایمان لائے تو ان کی قدامت اسلام اور میری رفاقت کا خیال رکھو، ان کو رنجیدہ نہ کرو۔
اس حدیث سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی بڑی فضیلت نکلی۔
فی الوقع اسلام میں ان کا بہت ہی بڑا مقام ہے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4640   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4640  
4640. حضرت ابوالدرداء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے درمیان کچھ تکرار ہو گئی، چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمر کو ناراض کر دیا تو حضرت عمر ؓ وہاں سے غضبناک ہو کر چل دیے۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ بھی ان سے معافی مانگتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چلے لیکن حضرت عمر ؓ نے انہیں معاف نہ کیا بلکہ ان کے سامنے سے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا۔ حضرت ابوبکر ؓ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت ابوالدرداء کہتے ہیں کہ ہم لوگ اس وقت آپ ﷺ کے پاس موجود تھے۔ آپ نے فرمایا: تمہارے یہ صاحب کسی سے جھگڑا کر کے آ رہے ہیں۔ اس دوران میں حضرت عمر ؓ کو بھی اپنے رد عمل پر پشیمانی ہوئی تو وہ آئے اور سلام کر کے نبی ﷺ کے پاس بیٹھ گئے اور رسول اللہ ﷺ سے پورا واقعہ بیان کیا۔ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ (حضرت عمر ؓ پر) ناراض ہوئے لیکن حضرت ابوبکر ؓ مسلسل کہے جا رہے تھے: اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4640]
حدیث حاشیہ:

اگرچہ لغوی طور پر غَامَر کے معنی جھگڑے میں داخل ہونا ہے لیکن امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اس کے معنی بھلائی میں سبقت کرنے والا ہیں۔
چونکہ حضرت ابوبکر ؓ کا جھگڑا خیر و بھلائی سے متعلق تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس کے معنی سابق بالخیر سے کہے ہیں۔
یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں:
حضرت ابوبکر ؓ نے معافی مانگنے میں سبقت کی ہے، اس اعتبار سے وہ عمر فاروق ؓ پر سبقت لے گئے۔

بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ غَامَر کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں اگرچہ جمہور محدثین سے یہ معنی منقول نہیں ہیں۔
واللہ اعلم۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو شخص بہت سے کمالات وفضائل کا مالک ہو اگر اس سے کوئی لغزش ہوجائے تو اسے نظر انداز کردینا چاہیے، چنانچہ حضرت ابوبکرؓ اپنی زیادتی کا اقرار بھی کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ حضرت عمر ؓ پر اپنی ناراضی کا اظہار کررہے ہیں۔
اس بنا پر اگربزرگوں سے کوئی غلطی ہوجائے تو خوا مخواہ ان کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے، ممکن ہے کہ بزرگوں کی بہت ساری نیکیاں بھی ہوں اور ان نیکیوں کی بدولت اللہ کے ہاں ان کا بہت بڑا مقام ہو کہ لغزش کی طرف اللہ تعالیٰ توجہ ہی نہ دے بلکہ طعن و تشنیع کرنے والوں کا مواخذہ ہوجائے، اس لیے کہا جاتا ہے:
خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے متعلق وہی الفاظ استعمال کیے ہیں جو الفاظ آیت کریمہ میں آپ کے متعلق استعمال ہوئے ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4640