Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3632
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: انْطَلَقَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ مُعْتَمِرًا، قَالَ: فَنَزَلَ عَلَى أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ أَبِي صَفْوَانَ وَكَانَ أُمَيَّةُ إِذَا انْطَلَقَ إِلَى الشَّأْمِ فَمَرَّ بِالْمَدِينَةِ نَزَلَ عَلَى سَعْدٍ، فَقَالَ: أُمَيَّةُ لِسَعْدٍ انْتَظِرْ حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ وَغَفَلَ النَّاسُ انْطَلَقْتُ فَطُفْتُ فَبَيْنَا سَعْدٌ يَطُوفُ إِذَا أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا الَّذِي يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ؟، فَقَالَ سَعْدٌ: أَنَا سَعْدٌ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: تَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ آمِنًا وَقَدْ آوَيْتُمْ مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ، فَقَالَ: نَعَمْ فَتَلَاحَيَا بَيْنَهُمَا، فَقَالَ: أُمَيَّةُ لسَعْدٍ لَا تَرْفَعْ صَوْتَكَ عَلَى أَبِي الْحَكَمِ فَإِنَّهُ سَيِّدُ أَهْلِ الْوَادِي، ثُمّ قَالَ: سَعْدٌ وَاللَّهِ لَئِنْ مَنَعْتَنِي أَنْ أَطُوفَ بِالْبَيْتِ لَأَقْطَعَنَّ مَتْجَرَكَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَجَعَلَ أُمَيَّةُ، يَقُولُ لِسَعْدٍ لَا تَرْفَعْ صَوْتَكَ وَجَعَلَ يُمْسِكُهُ فَغَضِبَ سَعْدٌ، فَقَالَ: دَعْنَا عَنْكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزْعُمُ أَنَّهُ قَاتِلُكَ، قَالَ:" إِيَّايَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا يَكْذِبُ مُحَمَّدٌ إِذَا حَدَّثَ فَرَجَعَ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ: أَمَا تَعْلَمِينَ مَا قَالَ لِي: أَخِي الْيَثْرِبِيُّ، قَالَتْ: وَمَا قَالَ: قَالَ: زَعَمَ أَنَّه سَمِعَ مُحَمَّدًا يَزْعُمُ أَنَّهُ قَاتِلِي، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا يَكْذِبُ مُحَمَّدٌ، قَالَ: فَلَمَّا خَرَجُوا إِلَى بَدْرٍ وَجَاءَ الصَّرِيخُ، قَالَتْ: لَهُ امْرَأَتُهُ أَمَا ذَكَرْتَ مَا قَالَ: لَكَ أَخُوكَ الْيَثْرِبِيُّ، قَالَ: فَأَرَادَ أَنْ لَا يَخْرُجَ، فَقَالَ: لَهُ أَبُو جَهْلٍ إِنَّكَ مِنْ أَشْرَافِ الْوَادِي فَسِرْ يَوْمًا أَوْ يَوْمَيْنِ فَسَارَ مَعَهُمْ فَقَتَلَهُ اللَّهُ".
ہم سے احمد بن اسحٰق نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، ان سے عمرو بن میمون نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ عمرہ کی نیت سے (مکہ) آئے اور ابوصفوان امیہ بن خلف کے یہاں اترے۔ امیہ بھی شام جاتے ہوئے (تجارت وغیرہ کے لیے) جب مدینہ سے گزرتا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے یہاں قیام کیا کرتا تھا۔ امیہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: ابھی ٹھہرو، جب دوپہر کا وقت ہو جائے اور لوگ غافل ہو جائیں (تب طواف کرنا کیونکہ مکہ کے مشرک مسلمانوں کے دشمن تھے) سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، چنانچہ میں نے جا کر طواف شروع کر دیا۔ سعد رضی اللہ عنہ ابھی طواف کر ہی رہے تھے کہ ابوجہل آ گیا اور کہنے لگا، یہ کعبہ کا طواف کون کر رہا ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ بولے کہ میں سعد ہوں۔ ابوجہل بولا: تم کعبہ کا طواف خوب امن سے کر رہے ہو حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ٹھیک ہے۔ اس طرح دونوں میں بات بڑھ گئی۔ پھر امیہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: ابوالحکم (ابوجہل) کے سامنے اونچی آواز سے نہ بولو۔ وہ اس وادی (مکہ) کا سردار ہے۔ اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم اگر تم نے مجھے بیت اللہ کے طواف سے روکا تو میں بھی تمہاری شام کی تجارت خاک میں ملا دوں گا (کیونکہ شام جانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے جو مدینہ سے جاتا ہے) بیان کیا کہ امیہ برابر سعد رضی اللہ عنہ سے یہی کہتا رہا کہ اپنی آواز بلند نہ کرو اور انہیں (مقابلہ سے) روکتا رہا۔ آخر سعد رضی اللہ عنہ کو اس پر غصہ آ گیا اور انہوں نے امیہ سے کہا۔ چل پرے ہٹ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تیرے متعلق سنا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ تجھ کو ابوجہل ہی قتل کرائے گا۔ امیہ نے پوچھا: مجھے؟ سعد رضی اللہ عنہ کہا: ہاں تجھ کو۔ تب تو امیہ کہنے لگا۔ اللہ کی قسم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب کوئی بات کہتے ہیں تو وہ غلط نہیں ہوتی پھر وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور اس نے اس سے کہا تمہیں معلوم نہیں، میرے یثربی بھائی نے مجھے کیا بات بتائی ہے؟ اس نے پوچھا: انہوں نے کیا کہا؟ امیہ نے بتایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ چکے ہیں کہ ابوجہل مجھ کو قتل کرائے گا۔ وہ کہنے لگی۔ اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم غلط بات زبان سے نہیں نکالتے۔ پھر ایسا ہوا کہ اہل مکہ بدر کی لڑائی کے لیے روانہ ہونے لگے اور امیہ کو بھی بلانے والا آیا تو امیہ سے اس کی بیوی نے کہا، تمہیں یاد نہیں رہا تمہارا یثربی بھائی تمہیں کیا خبر دے گیا تھا۔ بیان کیا کہ اس یاددہانی پر امیہ نے چاہا کہ اس جنگ میں شرکت نہ کرے۔ لیکن ابوجہل نے کہا: تم وادی مکہ کے رئیس ہو۔ اس لیے کم از کم ایک یا دو دن کے لیے ہی تمہیں چلنا پڑے گا۔ اس طرح وہ ان کے ساتھ جنگ میں شرکت کے لیے نکلا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو قتل کرا دیا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3632 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3632  
حدیث حاشیہ:
یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔
امیہ جنگ بدر میں جانانہیں چاہتا تھامگر ابوجہل زبردستی پکڑکرلے گیا۔
آخرمسلمانوں کے ہاتھوں ماراگیا علامات بنوت میں اس پیش گوئی کوبھی اہم مقام حاصل ہے۔
پیش گوئی کی صداقت ظاہر ہوکر رہی، حدیث کے لفظ ''إنه قاتلك'' میں ضمیر کا مرجع ابوجہل ہے کہ وہ تجھ کو قتل کرائے گا۔
بعض مترجم حضرات نے ''إنه'' کی ضمیر کا مرجع رسول کریم ﷺ کو قراردیا ہے لیکن روایت کے سیاق وسباق اور مقام ومحل کے لحاظ سے ہمارا ترجمہ بھی صحیح ہے۔
واللہ أعلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3632   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3632  
حدیث حاشیہ:

اُمیہ بن خلف ایک لحیم وجسیم اور اہل مکہ کا سردار تھا جبکہ حضرت سعد بن معاذ ؓ انصار کے سرادر تھے۔
ان دونوں سرداروں کے درمیان دورجاہلیت سے بھائی چارہ چلا آرہاتھا۔
جب امیہ تجارت کے لیے شام کی طرف جاتا تو مدینے میں ان کے پاس ٹھہرتا اور جب حضرت سعد ؓ مکہ تشریف لے جاتے تو اس کے پاس قیام کرتے۔

یہ حدیث نبوت کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امیہ کو قتل کی خبر دی تو وہ بدر میں موت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔
اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے قریش کے سرداروں کے خلاف بددعا بھی کی تھی جن میں امیہ بھی شامل تھا۔
حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان تمام لوگوں کو میدان بدر میں مرے ہوئے دیکھاکہ انھیں گھسیٹ کر ایک اندھے کنویں میں پھینکا جارہا تھا۔
امیہ چونکہ بھاری بھرکم تھا جب اسے گھسیٹنے لگے تو اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
چنانچہ اسے وہیں رہنے دیاگیا۔
(صحیح البخاري، الجزیة، حدیث: 3185)

حضرت سعد بن معاذ ؓ کو غزوہ خندق میں رگ اکحل پر تیر لگا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
اس کی تفصیل بھی احادیث میں موجود ہے۔

جب حضرت سعد نے امیہ کو خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ اسے قتل کریں گے تو اس نے پوچھا:
کیا مکہ میں قتل کریں گے؟حضرت سعد نے فرمایا:
مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ وہ کہاں قتل کریں گے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3950)
اس بنا پر امیہ مکہ سے نہیں نکلتا تھا۔
جب کفار قریش بدر کی طرف نکلتے تو اس نے پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ وہ کفار کے ساتھ مکہ سے باہر نہیں جائے گا۔
عقبہ بن ابی معیط نے اسے طعنہ دیاکہ سردارتو عورتوں کی طرح گھرمیں بیٹھ گیا ہے،پھر وہ بادل نخواستہ ان کے ساتھ جانے پر آمادہ ہوا۔
(فتح الباري: 355/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3632   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3950  
3950. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سعد بن معاذ ؓ زمانہ جاہلیت میں امیہ بن خلف کے دوست تھے اور امیہ جب مدینہ طیبہ سے گزرتا تو ان کے پاس ٹھہرتا تھا۔ اسی طرح جب حضرت سعد بن معاذ ؓ مکہ مکرمہ جاتے تو اس کے پاس قیام کرتے۔ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت سعد بن معاذ ؓ بغرض عمرہ مکہ مکرمہ گئے اور امیہ کے پاس قیام کیا۔ انہوں نے امیہ سے کہا کہ میرے لیے تنہائی کا وقت دیکھو تاکہ میں عمرہ کر لوں، چنانچہ امیہ انہیں دوپہر کے وقت اپنے ساتھ لے کر نکلا تو ان کی ابوجہل سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے پوچھا: اے ابوصفوان! تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟ اس نے کہا: یہ سعد بن معاذ ہیں۔ ابوجہل نے کہا: میں تمہیں مکہ میں امن کے ساتھ طواف کرتا ہوا نہ دیکھوں۔ تم لوگوں نے بے دین حضرات کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے اور تم اپنے خیال کے مطابق ان کا تعاون بھی کرتے ہو؟ اللہ کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3950]
حدیث حاشیہ:
باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے امیہ کے مارے جانے سے پہلے ہی اس کے قتل کی خبر دے دی تھی۔
کرمانی نے الفاظ إنھم قاتلوك کی تفسیر یہ کی ہے کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی تجھ کو قتل کرائیں گے۔
امیہ کو اس وجہ سے تعجب ہوا کہ ابوجہل تو میرا دوست ہے وہ مجھ کو کیونکر قتل کرائے گا۔
اس صورت میں قتل کرانے کامطلب یہ ہے کہ وہ تیرے قتل کا سبب بنے گا۔
ایسا ہی ہوا۔
امیہ بدرکی لڑائی میں جانے پر راضی نہ تھا، لیکن ابوجہل زبردستی اس کو پکڑکر لے گیا۔
امیہ جانتا تھا کہ حضرت محمد ﷺ جو بات کہہ دیں وہ ہوکر رہے گی۔
اگرچہ اس نے واپس بھاگنے کے لیے تیز رفتار اونٹ ہمراہ لیا مگر وہ انٹ کچھ کام نہ آیااور امیہ بھی جنگ بدر میں قتل ہوا۔
خود حضرت بلال ؓ نے اسے قتل کیا جسے کسی زمانہ میں وہ سخت سے سخت تکلیف دیا کرتا تھا۔
حضرت سعد ؓ نے ابوجہل کو اس سے ڈرایا کہ مکہ کے لوگ شام کے لیے براستہ مدینہ جایا کرتے تھے اور ان کی تجارت کا دارومدار شام ہی کی تجارت پر تھا۔
بعض شارحین نے إنھم قاتلوك سے مسلمان مراد لیے ہیں اور کرمانی کے قول کو ان کا وہم قرار دیا ہے۔
(قسطلانی)
بہر حال حضرت سعد ؓ نے جو کچھ کہا تھا اللہ نے اسے پورا کیا اور امیہ جنگ بدر میں قتل ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3950   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3950  
3950. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سعد بن معاذ ؓ زمانہ جاہلیت میں امیہ بن خلف کے دوست تھے اور امیہ جب مدینہ طیبہ سے گزرتا تو ان کے پاس ٹھہرتا تھا۔ اسی طرح جب حضرت سعد بن معاذ ؓ مکہ مکرمہ جاتے تو اس کے پاس قیام کرتے۔ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت سعد بن معاذ ؓ بغرض عمرہ مکہ مکرمہ گئے اور امیہ کے پاس قیام کیا۔ انہوں نے امیہ سے کہا کہ میرے لیے تنہائی کا وقت دیکھو تاکہ میں عمرہ کر لوں، چنانچہ امیہ انہیں دوپہر کے وقت اپنے ساتھ لے کر نکلا تو ان کی ابوجہل سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے پوچھا: اے ابوصفوان! تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟ اس نے کہا: یہ سعد بن معاذ ہیں۔ ابوجہل نے کہا: میں تمہیں مکہ میں امن کے ساتھ طواف کرتا ہوا نہ دیکھوں۔ تم لوگوں نے بے دین حضرات کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے اور تم اپنے خیال کے مطابق ان کا تعاون بھی کرتے ہو؟ اللہ کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3950]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح بنتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امیہ کے بارے میں بہت پہلے پیش گوئی فرمائی تھی کہ اسے قتل کردیا جائے گا، لیکن صحیح مسلم کے حوالے سے ہم نے جو حدیث بیان کی ہے وہ اس عنوان کے زیاہ حسب حال ہے کیونکہ اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کی رات نشاندہی فرمائی تھی کہ فلاں کی قتل گاہ، یہ اورفلاں کی یہ ہے۔
واللہ اعلم۔

علامہ کرمانی ؒ نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ابوجہل اور اس کے ساتھی اسے قتل کریں گے۔
اگرچہ اسے مسلمانوں نے اسے قتل کیا تھا لیکن ابوجہل اس کے قتل کا سبب بنا کیونکہ اسی نے امیہ کو مکے سے نکلنے پر مجبور کیا تھا لہذا قتل کی نسبت ابوجہل اوراس کے ساتھیوں کی طرف کرنا صحیح ہے۔
(حاشیة کرماني: 188/7)
لیکن یہ مؤقف اختیار کرنے سے اس حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں رہے گا، نیز حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس موقف کی تردید کے لیے یہ حدیث ہی کافی ہے کیونکہ اس میں اس نے بیوی سے کہا تھا کہ میرے متعلق محمدﷺ نے خبردی ہے کہ وہ میرے قاتل ہیں۔
یہاں ابوجہل کا ذکر تک نہیں ہے۔
اس بنا پر علامہ کرمانی کو وہم ہوا ہے۔
(فتح الباري: 353/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3950