Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3624
فَقَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: أَسَرَّ إِلَيَّ إِنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُنِي الْقُرْآنَ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً وَإِنَّهُ عَارَضَنِي الْعَامَ مَرَّتَيْنِ وَلَا أُرَاهُ إِلَّا حَضَرَ أَجَلِي وَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِي لَحَاقًا بِي فَبَكَيْتُ، فَقَالَ: أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَوْ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ فَضَحِكْتُ لِذَلِكَ".
‏‏‏‏ تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کان میں کہا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام ہر سال قرآن مجید کا ایک دور کیا کرتے تھے، لیکن اس سال انہوں نے دو مرتبہ دور کیا ہے، مجھے یقین ہے کہ اب میری موت قریب ہے اور میرے گھرانے میں سب سے پہلے مجھ سے آ ملنے والی تم ہو گی۔ میں (آپ کی اس خبر پر) رونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس پر راضی نہیں کہ جنت کی عورتوں کی سردار بنو گی یا (آپ نے فرمایا کہ) مومنہ عورتوں کی، تو اس پر میں ہنسی تھی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3624 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3624  
حدیث حاشیہ:
دوسری روایتوں میں یوں ہے کہ پہلے آپ نے یہ فرمایا کہ میری وفات نزدیک ہے تو حضرت فاطمہ ؓ رونے لگیں پھر یہ فرمایا کہ تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگی تو وہ ہنسنے لگیں، اس حدیث سے حضرت فاطمہ الزہراء ؓ کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
فی الواقع آپ آنحضرت ﷺ کی لخت جگر، نور نظر ہیں اس لیے ہرفضیلت کی اولین حقدار ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3624   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6285  
6285. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات آپ کے پاس تھیں ہم میں ایک بھی غائب نہ تھی۔ اس دوران میں سیدہ فاطمہ ؓ چلتی ہوئیں آئیں اللہ کی قسم! ان کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال سے الگ نہ تھی۔ جب آپ ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا: میری لخت جگر! خوش آمدید پھر انہیں اپنی دائیں یا بائیں بٹھایا، اس کے بعد ان سے آہستہ کچھ کہا تو وہ بہت روئیں۔ جب رسول اللہ نے ان کا حزن وملال دیکھا تو دوبارہ ان سے سرگوشی کی، اس پر وہ ہنسنے لگیں۔ تمام ازواج میں سے میں نے ان (سیدہ فاطمہ ؓ) سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم میں سے صرف آپ کو سرگوشی کی خصوصیت بخشی ہے پھر آپ رونے لگیں۔ جب رسول اللہ ﷺ اٹھے تو میں نے ان سے پوچھا: آپ ﷺ نے آپ کے کان میں کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کا راز افشا نہیں کروں گی۔ پھر جب آپ کی وفات ہوگئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6285]
حدیث حاشیہ:
سرگوشی سے اس لئے منع فرمایا کہ کسی تیسرے آدمی کو سوء ظن نہ پیدا ہو اگر مجلس میں اس خطرے کا احتمال نہ ہو تو سرگوشی جائز بھی ہے جیسا کہ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سرگوشی کرنا مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6285   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6285  
6285. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات آپ کے پاس تھیں ہم میں ایک بھی غائب نہ تھی۔ اس دوران میں سیدہ فاطمہ ؓ چلتی ہوئیں آئیں اللہ کی قسم! ان کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال سے الگ نہ تھی۔ جب آپ ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا: میری لخت جگر! خوش آمدید پھر انہیں اپنی دائیں یا بائیں بٹھایا، اس کے بعد ان سے آہستہ کچھ کہا تو وہ بہت روئیں۔ جب رسول اللہ نے ان کا حزن وملال دیکھا تو دوبارہ ان سے سرگوشی کی، اس پر وہ ہنسنے لگیں۔ تمام ازواج میں سے میں نے ان (سیدہ فاطمہ ؓ) سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم میں سے صرف آپ کو سرگوشی کی خصوصیت بخشی ہے پھر آپ رونے لگیں۔ جب رسول اللہ ﷺ اٹھے تو میں نے ان سے پوچھا: آپ ﷺ نے آپ کے کان میں کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کا راز افشا نہیں کروں گی۔ پھر جب آپ کی وفات ہوگئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6285]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دوسری مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سرگوشی کی تو فرمایا:
میرے اہل بیت میں سے تم سب سے پہلے مجھے ملوگی۔
اس پر وہ ہنس پڑیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4433)
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کے دونوں جز ثابت کیے ہیں۔
ایک تو یہ ہے کہ جماعت کے سامنے سرگوشی کرنا جائز ہے، دوسرا یہ کہ زندگی تک تو راز کو پوشیدہ رکھنا چاہیے، جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
یہ دونوں باتیں اس حدیث سے ثابت ہوتی ہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6285