صحيح البخاري
كِتَاب الْإِيمَانِ
کتاب: ایمان کے بیان میں
23. بَابُ ظُلْمٌ دُونَ ظُلْمٍ:
باب: بعض ظلم بعض سے ادنیٰ ہیں۔
حدیث نمبر: 32
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح قَالَ: وحَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ أَبُو مُحَمَّدٍ الْعَسْكَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" لَمَّا نَزَلَتْ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82، قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13".
ہمارے سامنے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا (دوسری سند) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے (اسی حدیث کو) بشر نے بیان کیا، ان سے محمد نے، ان سے شعبہ نے، انہوں نے سلیمان سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب سورۃ الانعام کی یہ آیت اتری جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں گناہوں کی آمیزش نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو بہت ہی مشکل ہے۔ ہم میں کون ایسا ہے جس نے گناہ نہیں کیا۔ تب اللہ پاک نے سورۃ لقمان کی یہ آیت اتاری «إن الشرك لظلم عظيم» کہ بیشک شرک بڑا ظلم ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 32 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 32
تشریح:
پوری آیت میں «بظلم» کے آگے «اولئك لهم الامن وهم مهتدون» کے الفاظ اور ہیں یعنی امن ان ہی کے لیے ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ معلوم ہوا کہ جو مؤحد ہو گا اسے ضرور امن ملے گا گو کتنا ہی گنہگار ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گناہوں پر بالکل عذاب نہ ہو گا جیسا کہ مرجیہ کہتے ہیں۔ حدیث اور آیت سے ترجمہ باب نکل آیا کہ ایک گناہ دوسرے گناہ سے کم ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام میں ظالم کا لفظ شرک و کفر و معاصی سب ہی پر عام تھا۔ اسی لیے ان کو اشکال پیدا ہوا۔ جس پر آیت کریمہ سورۃ لقمان والی نازل ہوئی اور بتلایا گیا کہ پچھلی آیت میں ظلم سے شرک مراد ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں نے ایمان کے ساتھ ظلم عظیم یعنی شرک کا اختلاط نہ کیا۔ ان کے لیے امن ہے۔ یہاں ایمان کی کمی وبیشی بھی ثابت ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 32
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:32
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ عنوان بھی مرجیہ کی تردید اور ایمان کی کمی بیشی کے لیے ہے کیونکہ آیت کریمہ میں کفرو شرک کو ظلم کا ایک فرد بتایا گیا ہے۔
قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم کے مختلف مراتب ہیں کوئی ادنیٰ اور کوئی عظیم ہےاس کا مطلب یہ ہے کہ شرک وکفر میں بھی مراتب تسلیم کرنا پڑیں گے کیونکہ وہ ظلم ہی کے افراد ہیں چونکہ کفر ضد ایمان ہے۔
اس لیے اس کے مراتب خود بخود ثابت ہوگئے۔
کیونکہ اشیاء اپنی ضد سے واضح ہوتی ہیں۔
یہی مقصود عنوان ہے۔
2۔
آیت کریمہ میں لفظ ظلم عام ہے جو کفرو شرک اور معاصی کو شامل ہے۔
اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اشکال پیدا ہوا جو لفظ ظلم سے متعلق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا تعلق لفظ ﴿لَمْ يَلْبِسُوا﴾ سے ہے (لَبْس)
کے لغوی معنی اختلاط ہیں اور یہ وہاں ممکن ہوتا ہے جہاں دونوں چیزوں کا ظرف ایک ہو۔
اب ظلم سے مراد اعمال جوارح یعنی معاصی نہیں ہو سکتے کیونکہ معاصی کا محل جوارح ہیں اور ایمان کا محل دل ہے ہاں کفرو شرک اور ایمان کا محل ایک ہے لہٰذا ایمان سے اسی ظلم کا اختلاط ہوگا۔
جو ایمان کے ظرف میں پہنچ سکتا ہو اور کفروشرک کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔
3۔
اس حدیث سے دور حاضر کے معتزلہ (منکرین حدیث)
کی بھی تردید ہوتی ہے جو قرآن فہمی کے لیے صرف عربی لغت کو کافی سمجھتے ہیں اور صاحب قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو اہمیت نہیں دیتے اگر ان کا یہ دعوی درست ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن مجید کے سمجھنے میں کسی قسم کی الجھن کا شکار نہ ہوتے لہٰذا قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے صاحب قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و معمولات کو پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
یہی وہ بیان ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اٹھایا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾ ”پھر اس قرآن کی وضاحت ہمارے ذمے ہے۔
“ (القیامة: 7519)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 32