صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3607
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنِي قَيْسٌ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" تَعَلَّمَ أَصْحَابِي الْخَيْرَ وَتَعَلَّمْتُ الشَّرَّ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے قیس نے بیان کیا، ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے ساتھیوں نے (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم نے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھلائی کے حالات سیکھے اور میں نے برائی کے حالات دریافت کئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3607 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3607
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ایسے لوگوں کا ذکر آیا ہے جو حدیث بنوی پر نہیں چلےں گے، ان کی کوئی بات اچھی ہوگی کوئی بری، اس پر حضرت مولانا وحید الزماں صاحب لکھتے ہیں، یہ زمانہ گزرچکا۔
مسلمان نیک کام کرتے تھے، نماز پڑھتے تھے مگر اس کے ساتھ اتباع سنت کا خیال نہیں رکھتے تھے، بہت سی بدعات میں گرفتار تھے اور سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ انہوں نے قرآن وحدیث کو پس پشت ڈال دیا تھا۔
وہ یہ سمجھتے تھے اب قرآن اور حدیث کی حاجت نہیں رہی۔
مجتہدوں نے سب چھان ڈالا ہے اور جو نکالنا تھا وہ نکال لیا ہے۔
قرآن کبھی تیجہ یا دہم میں بطور تبرک پڑھ لیتے۔
تراویح میں قرآن کے لفظ سن لیتے۔
حدیث بھی کبھی بطور تبرک پڑھ لیتے۔
عمل کرنے کی نیت سے نہیں پڑھتے۔
باقی ساری عمر ہدایہ اور شرح وقایہ اور کنز اور قدوری اور شرح مواہب اور شرح عقائد میں صرف کرتے، ارے اللہ کے بندو! ان سب کتابوں سے فائدہ؟ قرآن اور صحیح بخاری اپنے بچوں کو سمجھ کر پڑھاتے تویہ دونون کتابیں تم کو کافی تھیں۔
حدیث ہذا میں کچھ اور لوگوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو بظاہر اسلام ہی کانام لیں گے مگر باطن میں دوزخ کے داعی ہوں گے۔
یعنی دل میں پکے کافر اور ملحد ہوں گے ان سے وہ مغرب زدہ لوگ بھی مراد ہوسکتے ہیں جو اسلام کانام لینے کے باوجود مغربی تہذیب کے دلدادہ ہیں اور اسلام پر ہنسی اڑاتے ہیں۔
اسلام کو دقیانوسی مذہب اور قرآن کو دقیانوسی کتاب کہتے ہیں۔
دن رات مغربی تہذیب کی خوبیوں کے گیت گاتے رہتے ہیں اور سر سے پیر تک انگریز بننے کو فخر سمجھتے ہیں۔
ان ہی کی طرح کھاتے ہیں اور انہی کی طرح کھڑے کھڑے پیشاب کرتے ہیں۔
الغرض تہذیب جدید کے یہ دلدادہ جنہوں نے اسلام کو قطعاً چھوڑ دیا ہے پھر بھی اسلام کانام لیتے ہیں یہ سوفیصدی اس حدیث میں وارد وعید شدید کے مصداق ہیں (شرح وحیدی)
حدیث ہذا میں پیش گوئی کا ایک خاص تعلق خوارج سے ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کرکے کھڑے ہوگئے تھے اور جو بظاہر قرآن مجید کا نام لیتے اور آیت ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ﴾ (الأنعام: 57)
پڑھ کر حضرت علی ؓ کی تکفیر کرتے تھے۔
ان لوگوں نے اسلام کو شدید نقصان پہنچایا اور ان لوگوں نے بھی جو حضرت علی ؓ کی محبت میں غلو کرکے غلط ترین عقائد میں مبتلا ہوگئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3607