Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
21. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3540
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ الْجُعَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَأَيْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ ابْنَ أَرْبَعٍ وَتِسْعِينَ جَلْدًا مُعْتَدِلًا، فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتُ مَا مُتِّعْتُ بِهِ سَمْعِي وَبَصَرِي إِلَّا بِدُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ خَالَتِي ذَهَبَتْ بِي إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي شَاكٍ فَادْعُ اللَّهَ لَهُ، قَالَ:" فَدَعَا لِي".
مجھ سے اسحٰق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو فضل بن موسیٰ نے خبر دی، انہیں جعید بن عبدالرحمٰن نے کہ میں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کو چورانوے سال کی عمر میں دیکھا کہ خاصے قوی و توانا تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ میرے کانوں اور آنکھوں سے جو میں نفع حاصل کر رہا ہوں وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت ہے۔ میری خالہ مجھے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئیں۔ اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا بھانجا بیمار ہے، آپ اس کے لیے دعا فرما دیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے دعا فرمائی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3540 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3540  
حدیث حاشیہ:
حضرت سائب بن یزید کی خالہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بچے کانام نہیں لیا بلکہ ابن أختي کہہ کر پیش کیا۔
تو ثابت ہوا کہ کنایہ کی ایک صورت یہ بھی ہے یہی اس علیحدہ باب کا مقصد ہے کہ کنیت باپ اور بیٹا ہرد وطرف سے مستعمل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3540   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3540  
حدیث حاشیہ:
یہ باب بلاعنوان ہے جو پہلے باب کا تکملہ ہے کیونکہ جن الفاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا جاتاتھا وہ یامحمد،یاابوالقاسم اور یارسول اللہ تھے۔
لیکن ادب کاتقاضا ہے کہ آپ کورسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)
سے یاد کیا جائے،چنانچہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالہ نے آپ کو یارسول اللہ! اسے پکارا تھا۔
مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اگر آپ کی توجہ مبذول کرانامقصد ہوتا تویارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کہا جاتاتھا،آپ کو عام طور پر نام یا کنیت سے نہیں پکارا جاتا تھا۔
یہ بھی مقصد بیان کیاجاتا ہے کہ حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بچے کا نام نہیں لیا بلکہ اسے ابن اختی کہہ کر پیش کیاتو ثابت ہواکہ کنائے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کنیت باپ اور بیٹا دونوں طرح سےمستعمل ہے،اس عنوان کو علیحدہ بیان کرنے کا یہی مقصد معلوم ہوتاہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان کو مبہم رکھا ہے تاکہ قاری غوروفکر اور مغز ماری کرکے خود اس کا عنوان تجویز کرے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3540