صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
12. بَابُ قِصَّةِ زَمْزَمَ وَجَهْلِ الْعَرَبِ:
باب: عرب قوم کی جہالت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3524
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" إِذَا سَرَّكَ أَنْ تَعْلَمَ جَهْلَ الْعَرَبِ فَاقْرَأْ مَا فَوْقَ الثَّلَاثِينَ وَمِائَةٍ فِي سُورَةِ الْأَنْعَامِ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ إِلَى قَوْلِهِ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ سورة الأنعام آية 140".
ہم سے ابولنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے بشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ اگر تم کو عرب کی جہالت معلوم کرنا اچھا لگے تو سورۃ الانعام میں ایک سو تیس آیتوں کے بعد یہ آیتیں پڑھ لو «قد خسر الذين قتلوا أولادهم سفها بغير علم» ”یقیناً وہ لوگ تباہ ہوئے جنہوں نے اپنی اولاد کو نادانی سے مار ڈالا۔“ سے لے کر «قد ضلوا وما كانوا مهتدين» ”وہ گمراہ ہیں، راہ پانے والے نہیں۔“ تک۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3524 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3524
حدیث حاشیہ:
یعنی سورہ انعام میں عرب کی ساری جہالتیں مذکور ہیں، ان میں سب سے بڑی جہالت یہ تھی کہ کم بخت اپنی بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرتے، بت پرستی اور راہ زنی ان کا رات دن کا شیوہ تھا۔
عورتوں پر وہ ستم ڈھاتے کہ معاذ اللہ جانوروں کی طرح سمجھتے، یہ بلائیں اللہ پاک نے آنحضرت ﷺ کو بھیج کردور کرائیں۔
بعض نسخوں میں یوں ہے باب قصۃ زمزم وجھل العرب مگر اس باب میں زمزم کا قصہ بالکل مذکور نہیں ہے۔
اس لیے صحیح یہی ہے جو نسخہ یہاں نقل کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ حدیث نمبر3523 جو اس سے قبل (3516)
کے تحت گزرچکی ہے، شیخ فواد والے نسخے میں دوبارہ موجود ہے، جب کہ ہندوستانی نسخوں میں اس باب کے تحت صرف ابوالنعمان راوی کی حدیث موجود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3524
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3524
حدیث حاشیہ:
عربوں کے ہاں بت پرستی اور ڈاکا زنی دن رات کی جاتی، لیکن ان میں سب سے بڑی جہالت یہ تھی کہ کم بخت اپنی بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں قتل کردیتے تھے۔
اولاد کو قتل کرنے کی درج ذیل وجوہات تھیں:
الف۔
بیٹیوں کو اس لیے قتل کیاجاتا کہ وہ انھیں ذلت کی علامت خیال کرتے تھے، جہاں بھی بیٹی کی شادی ہوگی وہاں آنکھیں نیچی کرنی پڑیں گی۔
قرآن کریم نے اس پہلو کی بہت مذمت کی ہے۔
(النحل: 58/16، 59)
ب۔
بیٹوں اور بیٹیوں دونوں کو معاش کے خوف سے قتل کیاجاتا کہ اگر اولاد زیادہ ہوئی تو معیار زندگی برقرار نہیں رہ سکے گا۔
قرآن کریم نے اس کی گندگی اور بُرائی بھی واضح کی ہے۔
(بني إسرائیل: 31/17)
موجودہ مہذب دنیا میں بھی یہ قتل برتھ کنٹرول کے نام سے جاری ہے۔
ج۔
بتوں کے نام نذر مانی جاتی کہ اگر میرے ہاں اتنے بیٹے پیدا ہوئے تو ایک بیٹے کو فلاں بت کے نام پرقربان کردیاجائے۔
اس روشن خیالی کے دور میں بھی بعض پڑھے لکھے لوگ اس طرح کی حماقت کر بیٹھتے ہیں۔
ان کفار کا اپنی اولاد کو قتل کرنا حماقت اس لیے تھا کہ قتل تو فیصلہ کن اذیت ہے جبکہ فقر اور تنگ دستی کی اذیت موہوم ہے، عرب کا قطعی اذیت کو اختیارکرنا اور موہوم اذیت کو ترک کرنا جہالت اور حماقت تھی۔
عرب کےقبائل تو اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔
البتہ قبیلہ بنوکنانہ اس جرم میں شریک نہیں تھا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3524