صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
10. بَابُ قِصَّةِ إِسْلاَمِ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3522
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لِأَخِيهِ ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ , وَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ ائْتِنِي , فَانْطَلَقَ الْأَخُ حَتَّى قَدِمَهُ وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ , ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ لَهُ: رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَكَلَامًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ، فَقَالَ: مَا شَفَيْتَنِي مِمَّا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَاءٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَأَتَى الْمَسْجِدَ , فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَعْرِفُهُ وَكَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّى أَدْرَكَهُ بَعْضُ اللَّيْلِ , فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ , فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَصْبَحَ , ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ وَزَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ وَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلَا يَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَمْسَى , فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ، فَقَالَ: أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ , فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ لَا يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ , فَعَادَ عَلِيٌّ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ فَأَقَامَ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ، قَالَ: إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي فَعَلْتُ , فَفَعَلَ فَأَخْبَرَهُ، قَالَ: فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتْبَعْنِي , فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَاءَ , فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتْبَعْنِي حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي , فَفَعَلَ فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي"، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ , فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ , ثُمَّ قَامَ الْقَوْمُ فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ , وَأَتَى الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، قَالَ:" وَيْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ وَأَنَّ طَرِيقَ تِجَارِكُمْ إِلَى الشَّأْمِ , فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ ثُمَّ عَادَ مِنَ الْغَدِ لِمِثْلِهَا , فَضَرَبُوهُ وَثَارُوا إِلَيْهِ فَأَكَبَّ الْعَبَّاسُ عَلَيْهِ".
مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے مثنیٰ نے، ان سے ابوجمرہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا مکہ جانے کے لیے سواری تیار کر اور اس شخص کے متعلق جو نبی ہونے کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبر آتی ہے، میرے لیے خبریں حاصل کر کے لا۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا اور پھر میرے پاس آنا۔ ان کے بھائی وہاں سے چلے اور مکہ حاضر ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں خود سنیں پھر واپس ہو کر انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے، وہ اچھے اخلاق کا لوگوں کو حکم کرتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ اس پر ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا جس مقصد کے لیے میں نے تمہیں بھیجا تھا مجھے اس پر پوری طرح تشفی نہیں ہوئی۔ آخر انہوں نے خود توشہ باندھا، پانی سے بھرا ہوا ایک پرانا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکہ آئے۔ مسجد الحرام میں حاضری دی اور یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیں تھے اور کسی سے آپ کے متعلق پوچھنا بھی مناسب نہیں سمجھا، کچھ رات گزر گئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے، علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا آپ میرے گھر چل کر آرام کیجئے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے لیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی۔ جب صبح ہوئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اٹھایا اور مسجد الحرام میں آ گئے۔ یہ دن بھی یونہی گزر گیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے۔ شام ہوئی تو سونے کی تیاری کرنے لگے۔ علی رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے گزرے اور سمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کا وقت اس شخص پر نہیں آیا، وہ انہیں وہاں سے پھر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی، تیسرا دن جب ہوا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیا اور اپنے ساتھ لے گئے تو ان سے پوچھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہاں آنے کا باعث کیا ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کر لو کہ میری راہ نمائی کرو گے تو میں تم کو سب کچھ بتا دوں گا۔ علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کر لیا تو انہوں نے انہیں اپنے خیالات کی خبر دی۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلاشبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچے رسول ہیں اچھا صبح کو تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا۔ اگر میں (راستے میں) کوئی ایسی بات دیکھوں جس سے مجھے تمہارے بارے میں کوئی خطرہ ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا (کسی دیوار کے قریب) گویا مجھے پیشاب کرنا ہے۔ اس وقت تم میرا انتظار مت کرنا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آ جانا تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اور اس طرح جس گھر میں، میں داخل ہوں تم بھی داخل ہو جانا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پیچھے پیچھے چلے تاآنکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور وہیں اسلام لے آئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اب اپنی قوم غفار میں واپس جاؤ اور انہیں میرا حال بتاؤ تاآنکہ جب ہمارے غلبہ کا علم تم کو ہو جائے (تو پھر ہمارے پاس آ جانا)۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکار کر کلمہ توحید کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے واپس وہ مسجد الحرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا «أشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمدا رسول الله» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔“ یہ سنتے ہی ان پر سارا مجمع ٹوٹ پڑا اور سب نے انہیں اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے کو ڈال کر قریش سے انہوں نے کہا افسوس! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتا ہے، اس طرح سے ان سے ان کو بچایا۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجد الحرام میں آئے اور اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ قوم پھر بری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگے۔ اس دن بھی عباس رضی اللہ عنہ ان پر اوندھے پڑ گئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3522 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3522
حدیث حاشیہ:
قریش کے لوگ ہرسال تجارت اور سوداگری کے لیے ملک شام کو جایا کرتے تھے اور راستہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان غفار کی قوم پڑتی تھی۔
حضرت عباس نے ان کو ڈرایا کہ اگر اس کو مار ڈالو گے تو ساری غفار کی قوم برہم ہوجائے گی اور ہماری سوداگری اور آمد ورفت میں خلل ہوجائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3522
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3522
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام جندب تھا۔
اسلام میں داخل ہونے والے پانچویں شخص ہیں۔
ان کے بھائی کا نام انیس تھا جو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے۔
قبیلہ غفار کی نسبت سے ان کی سرگزشت بیان کی گئی ہے۔
اعلان نبوت کے طویل عرصے بعد مسلمان ہوئے۔
انھوں نے اسلام کا اظہار ڈنکے کی چوٹ کیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایسا کرنے سے روکا بھی تھا۔
بہرحال انھیں آثار وقرائن سے معلوم ہوگیا کہ آپ کا یہ حکم وجوب کے لیے نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا نعرہ حق سن کر خاموش ہوگئے اور انھیں اس پر کوئی ملامت نہیں کی۔
2۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی سے نہیں پوچھتے تھے کیونکہ قریش ہر اس شخص کو تکلیف پہنچاتے تھے جو آپ کا ارادہ کرتا اور اس لیے بھی مارتے تھے کہ کہیں ان کا دین پھیل نہ جائے،اس لیے وہ کسی سائل کی رہنمائی نہیں کرتے تھے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کو جمع ہی ہونے دیتے تھے،دھوکا دے کر اسے واپس ہونے پر مجبور کردیتے تھے۔
3۔
واضح رہے کہ قریش کے لوگ تجارت کے لیے سال میں دومرتبہ شام کے علاقے میں جایا کرتے تھے اور راستے میں مکہ ومدینہ کے درمیان قبیلہ غفار رہتا تھا۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریش کو خبردار کیا کہ اگرتم نے اس کو مارڈالا تو قوم غفار برہم ہوجائے گی،پھر تمہاری تجارت متاثر ہوگی اور وہاں سے گزرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔
اس طرح قریش نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان بخشی کی۔
4۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد حرام میں رہتے ہوئے کئی دن تک صرف زمزم کے پانی سے گزارا کرتے رہے اور اس بابرکت پانی نے ان کو کھانے اور پینے دونوں کا کام دیا۔
اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قصہ زمزم کا عنوان قائم کیا ہے۔
درحقیقت زمزم کے پانی پر اس طرح گزارا کرتے رہے اور اس بابرکت پانی نے ان کو کھانے اور پینے دونوں کا کام دیا۔
اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قصہ زمزم کا عنوان قائم کیا ہے۔
درحقیقت زمزم کے پانی پر اس طرح گزارا کرنا بھی حضرت ابوزرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس طرح پانی نوش کرنے سے خوب موٹے تازے ہوگئے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے واقعی اس بابرکت پانی میں یہ تاثیر رکھتی ہے کہ اسے پینے سے کھانا کھانے کی ضرورت نہیں رہتی۔
5۔
دورحاضر میں حکومت سعودیہ نے زمزم کا بہت وسیع نظام کررکھاہے کہ یہ ہرحاجی مرد ہو یا عورت جب چاہے آسانی کے ساتھ تازہ اور ٹھنڈا زمزم پی سکتا ہے۔
اب تو مدینہ طیبہ کی مسجد نبوی میں بھی آب زمزم کے ٹھنڈے اورتازہ کولر پڑے ہیں۔
نمازی جب چاہے اپنے دائیں بائیں سے پانی پی سکتا ہے۔
واقعی حکومت سعودیہ کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہے جس کے لیے جس قدر بھی دعائیں کی جائیں کم ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس حکومت کو مزید استحکام اور ترقی عنایت فرمائے۔
ہم نے وہاں قیام کے دوران میں ایسا وقت بھی دیکھا ہے کہ یمنی حضرات ایک ریال کے عوض آب زمزم کی چھوٹی سی پیالی بھر کردیتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3522