صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
54. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3488
حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ قَالَ قَدِمَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْمَدِينَةَ آخِرَ قَدْمَةٍ قَدِمَهَا، فَخَطَبَنَا فَأَخْرَجَ كُبَّةً مِنْ شَعَرٍ فَقَالَ مَا كُنْتُ أُرَى أَنَّ أَحَدًا يَفْعَلُ هَذَا غَيْرَ الْيَهُودِ، وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّاهُ الزُّورَ- يَعْنِي الْوِصَالَ فِي الشَّعَرِ. تَابَعَهُ غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے عمرو بن مرہ نے کہا کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا آپ نے بیان کیا کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے اپنے آخری سفر میں ہمیں خطاب فرمایا اور (خطبہ کے دوران) آپ نے بالوں کا ایک گچھا نکالا اور فرمایا، میں سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کے سوا اور کوئی اس طرح نہ کرتا ہو گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بال سنوارنے کا نام «الزور» (فریب و جھوٹ) رکھا ہے۔ آپ کی مراد «وصال في الشعر.» سے تھی۔ یعنی بالوں میں جوڑ لگانے سے تھی (جیسے اکثر عورتیں مصنوعی بالوں میں جوڑ کیا کرتی ہیں) آدم کے ساتھ اس حدیث کو غندر نے بھی شعبہ سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3488 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3488
حدیث حاشیہ:
عورت کا ایسے مصنوعی بالوں سےزینت کرن منع ہے۔
امام بخاری نےیہاں پر کتاب الانبیاء کوختم فرمادیا جس میں احادیث مروفوعہ اورمکررات اورتعلیقات وغیرہ مل کر سب کی تعداد دو سونو احادیث ہیں۔
اہل علم تفصیل کےلیے فتح الباری کامطالعہ فرمائیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3488
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3488
حدیث حاشیہ:
1۔
زور سے مراد جھوٹ اور فریب ہے یعنی غلط طریقے سے بالوں کی نمائش اور آرائش کرنا۔
مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے بال اپنے بالوں میں ملا کر جھوٹ موٹ کی زینت حاصل کرنا در اصل یہودیوں کی عورتوں میں بہت سی معاشرتی بیماریاں در آئی تھیں۔
ان میں ایک یہ تھی کہ وہ مصنوعی بالوں کا عام استعمال کرتی تھیں رسول اللہ ﷺ نے اس سے سختی سے منع فرما دیا۔
آپ نے اس عورت پر لعنت کی ہےجو بالوں میں مصنوعی بال ملاتی ہے اور جس عورت کے لیے یہ کام کیا جائے گا اسے بھی لعنتی قراردیا ہے۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث:
(5934)
دور جدید میں اسے وگ کہا جاتا ہے اور بازاروں میں عام دستیاب ہے۔
اس کے مختلف سٹائل ہوتے ہیں۔
پہلے تو اسے صرف گنجاپن چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہےلیکن اب اس معاشرے نے "ترقی" کرتے ہوئے بطور زینت اسے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔
اس قسم کے فریب اور جھوٹ کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بنی اسرائیل کی ہلاکت اور تباہی ایسے ہی کاموں سے ہوئی۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث:
(5932)
بنی اسرائیل کی پست قد عورتیں لکڑی کی مصنوعی ٹانگیں بھی استعمال کرتی تھیں تاکہ خود کو دراز قد دکھایا جائے۔
ہمارے معاشرے میں اونچی ایڑی والی جوتی استعمال کی جاتی ہے اسلام دین فطرت ہے اور جھوٹی زینت کی اجازت نہیں دیتا۔
ہمیں ایسے تمام کاموں سے بچنا چاہیے جس میں فریب کاری یا دھوکا دہی ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ایسے تمام کام باعث لعنت ہیں۔
2۔
ا مام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا بنی اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے تعلق ہے۔
ان احادیث میں یہود و نصاریٰ کا کردار پیش ہوا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمان ایسے کاموں سے بچیں جو یہود و نصاری کی پہچان ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام پر کاربند رکھے اور اس پر ہمارا خاتمہ کرے۔
آمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3488