سلسله احاديث صحيحه
المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات
ابتدائے (مخلوقات)، انبیا و رسل، عجائبات خلائق
نوح علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو وصیت
حدیث نمبر: 3838
-" إن نبي الله نوحا صلى الله عليه وسلم لما حضرته الوفاة قال لابنه: إني قاص عليك الوصية آمرك باثنتين وأنهاك عن اثنتين آمرك بـ (لا إله إلا الله) فإن السموات السبع والأرضين السبع لو وضعت في كفة ووضعت لا إله إلا الله في كفة رجحت بهن لا إله إلا الله ولو أن السموات السبع والأرضين السبع كن حلقة مبهمة قصمتهن لا إله إلا الله. وسبحان الله وبحمده فإنها صلاة كل شيء وبها يرزق الخلق. وأنهاك عن الشرك والكبر. قال: قلت: أو قيل: يا رسول الله هذا الشرك قد عرفناه فما الكبر؟ - قال -: أن يكون لأحدنا نعلان حسنتان لهما شراكان حسنان؟ قال: لا. قال: هو أن يكون لأحدنا أصحاب يجلسون إليه؟ قال: لا. قيل: يا رسول الله فما الكبر؟ قال: سفه الحق وغمص الناس".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، کسی بستی کا باسی سیجان کا جبہ، جس کے بٹن ریشمی تھے، زیب تن کر کے آیا اور کہا: خبردار! تمہارے اس ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے گھڑ سواروں کے مقام کو کم اور چرواہوں کی عزتوں کو بلند کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جبہ کے گریبان سے پکڑا اور فرمایا: ”کیا میں تجھ پر ان لوگوں کا لباس نہیں دیکھ رہا، جو بیوقوف ہیں۔“ پھر فرمایا: ”جب اﷲ تعالیٰ کے نبی نوح علیہ السلام کی وفات کا وقت آ پہنچا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا: میں تیرے سامنے ایک وصیت بیان کرتا ہوں، میں تجھے دو چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور دو چیزوں سے منع کرتا ہوں۔ میں تجھے «لا إله إلا الله» کا حکم دیتا ہوں، کیونکہ اگر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو (ترازو کے) ایک پلڑے میں اور «لا إله إلا الله» کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو «لا إله إلا الله» بھاری ہو جائے گا۔ اور ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک بند کڑے کی شکل اختیار کر لیں تو اس کو بھی «لا إله إلا الله» توڑ دے گا، اور (دوسری چیز) «سبحان الله و بحمده» ہے یہ کلمات ہر چیز کی نماز ہیں اور ان ہی کے ذریعے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے اور میں تجھے شرک اور تکبر سے منع کرتا ہوں۔“ میں نے یا کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم شرک کو تو پہنچانتے ہیں، تکبر کسے کہتے ہیں؟ کیا تکبر یہ ہے کہ آدمی کے جوتے اور ان کے تسمے اچھے ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں۔“ کسی نے کہا: تو کیا تکبر یہ ہے کہ آدمی کے دوست و یار ہوں، جو اس کے پاس بیٹھتے ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں“ پھر کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر تکبر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حق کو جھٹلا دینا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا (تکبر کہلاتا ہے)۔“