سلسله احاديث صحيحه
الفتن و اشراط الساعة والبعث
فتنے، علامات قیامت اور حشر
فتنہ احلاس اور اس کے بعد کی صورتحال
حدیث نمبر: 3739
-" فتنة الأحلاس هي فتنة هرب وحرب، ثم فتنة السراء دخلها أو دخنها من تحت قدمي رجل من أهل بيتي يزعم أنه مني وليس مني إنما وليي المتقون، ثم يصطلح الناس على رجل كورك على ضلع، ثم فتنة الدهيماء لا تدع أحدا من هذه الأمة إلا لطمته لطمة، فإذا قيل: انقطعت تمادت يصبح الرجل فيها مؤمنا ويمسي كافرا حتى يصير الناس إلى فسطاطين: فسطاط إيمان لا نفاق فيه وفسطاط نفاق لا إيمان فيه، إذا كان ذاكم فانتظروا الدجال من اليوم أو غد".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے فتنوں کا تذکرہ کر رہے تھے، آپ نے بھی ”فتنہ احلاس“ سمیت بہت سے فتنوں کا ذکر کیا۔ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! فتنہ احلاس سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فتنہ احلاس سے مراد جنگ و جدل اور شکست و ریخت کا زمانہ ہے، پھر خوشحالی و آسودگی کا فتنہ ابھرے گا، اس کی ابتداء اور سرپرستی و ذمہ داری ایسے آدمی کے ہاتھ میں ہو گی، جو اپنے گمان کے مطابق مجھ سے ہو گا، حلانکہ وہ مجھ سے نہیں ہو گا، میرے دوست تو پرہیزگار لوگ ہیں، پھر لوگ ایسے شخص پر صلح کریں گے، جو مستقل طور پر بادشاہت کے لائق اور اس کا اہل نہیں ہو گا۔ اس کے بعد بھیانک آفت و مصیبت پر مشتمل فتنہ نمودار ہو گا، وہ اس امت کے ہر فرد کو ہلا کر رکھ دے گا۔ جب کہا جائے گا کہ فتنہ ختم ہو چکا، تو حد سے بڑھ کر سامنے آئے گا۔ بندہ بوقت صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر۔ لوگ دو جماعتوں میں بٹ جائیں گے: ایک جماعت صاحب ایمان ہو گی، اس میں کوئی نفاق نہیں ہو گا اور دوسری جماعت صاحب نفاق ہو گی، اس میں کوئی ایمان نہیں ہو گا، جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا تو دجال کا انتظار کرنا وہ اسی دن آ سکتا ہے، یا پھر اگلے دن آ جائے گا۔“