Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
54. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3471
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ:" بَيْنَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً إِذْ رَكِبَهَا فَضَرَبَهَا، فَقَالَتْ: إِنَّا لَمْ نُخْلَقْ لِهَذَا إِنَّمَا خُلِقْنَا لِلْحَرْثِ، فَقَالَ: النَّاسُ سُبْحَانَ اللَّهِ بَقَرَةٌ تَكَلَّمُ، فَقَالَ: فَإِنِّي أُومِنُ بِهَذَا أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَمَا هُمَا ثَمَّ وَبَيْنَمَا رَجُلٌ فِي غَنَمِهِ إِذْ عَدَا الذِّئْبُ فَذَهَبَ مِنْهَا بِشَاةٍ فَطَلَبَ حَتَّى كَأَنَّهُ اسْتَنْقَذَهَا مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ: الذِّئْبُ هَذَا اسْتَنْقَذْتَهَا مِنِّي فَمَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لَا رَاعِيَ لَهَا غَيْرِي، فَقَالَ: النَّاسُ سُبْحَانَ اللَّهِ ذِئْبٌ يَتَكَلَّمُ، قَالَ: فَإِنِّي أُومِنُ بِهَذَا أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَمَا هُمَا ثَمَّ، وحَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ایک شخص (بنی اسرائیل کا) اپنی گائے ہانکے لیے جا رہا تھا کہ وہ اس پر سوار ہو گیا اور پھر اسے مارا۔ اس گائے نے (بقدرت الہیٰ) کہا کہ ہم جانور سواری کے لیے نہیں پیدا کئے گئے۔ ہماری پیدائش تو کھیتی کے لیے ہوئی ہے۔ لوگوں نے کہا سبحان اللہ! گائے بات کرتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بھی۔ حالانکہ یہ دونوں وہاں موجود بھی نہیں تھے۔ اسی طرح ایک شخص اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ریوڑ میں سے ایک بکری اٹھا کر لے جانے لگا۔ ریوڑ والا دوڑا اور اس نے بکری کو بھیڑئیے سے چھڑا لیا۔ اس پر بھیڑیا (بقدرت الہیٰ) بولا، آج تو تم نے مجھ سے اسے چھڑا لیا لیکن درندوں والے دن میں (قرب قیامت) اسے کون بچائے گا جس دن میرے سوا اور کوئی اس کا چرواہا نہ ہو گا؟ لوگوں نے کہا، سبحان اللہ! بھیڑیا باتیں کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو اس بات پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر بھی حالانکہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا، ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے مسعر سے، انہوں نے سعد بن ابراہیم سے، انہوں نے ابوسلمہ سے روایت کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3471 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3471  
حدیث حاشیہ:
رسول اللہﷺ کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ کی قوت ایمانی پر یقین تھا۔
اس لیے آپ نے ان کی عدم موجودگی میں ان کے ایمان ویقین کی شہادت دی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3471   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3471  
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قوت ایمانی پر یقین تھا اس لیے آپ نے ان کی عدم موجود گی میں ان کے ایمان و یقین کی شہادت دی۔

اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
اس نے بیل اور بھیڑیے میں بولنے کی قوت پیدا کردی۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حیوانات کا استعمال ان ہی کاموں کے لیے ہونا چاہیے جن میں بطور عادت ان کو استعمال کیا جاتا ہے بیلوں پر سواری نہیں کرنی چاہیے اور بھیڑبکریوں کو کھیتی باڑی میں نہیں لگانا چاہیے۔
(فتح الباري: 634/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3471   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3677  
´باب`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دوران کہ ایک شخص ایک گائے پر سوار تھا اچانک وہ گائے بول پڑی کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا کی گئی ہوں، میں تو کھیت جوتنے کے لیے پیدا کی گئی ہوں (یہ کہہ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا اس پر ایمان ہے اور ابوبکر و عمر کا بھی، ابوسلمہ کہتے ہیں: حالانکہ وہ دونوں اس دن وہاں لوگوں میں موجود نہیں تھے، واللہ اعلم ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3677]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اللہ کے رسول ﷺ کو ان دونوں کے سلسلہ میں اتنا مضبوط یقین تھا کہ جو میں کہوں گا وہ دونوں اس پر آمَنَّا وَصَدَّقنَا کہیں گے،
اسی لیے ان کے غیر موجودگی میں بھی آپ نے ان کی طرف سے تصدیق کر دی،
یہ ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3677   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1085  
1085- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف رخ کرکے بیٹھے اور ارشاد فرمایا: ایک مرتبہ ایک شخص ایک گائے کو ہانک کر لے جارہا تھا۔ اسی دوران وہ تھک گیا، تو وہ اس پر سوار ہوگیا اس نے مارا، تو گائے نے کہا: مجھے اس مقصد کے لیے نہیں پیدا کیا گیا ہے، ہمیں تو زمین میں کھیتی باڑی کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تو لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! گائے بھی بات کرسکتی ہے۔‏‏‏‏ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں اور ابوبکر اور وعمر بھی (اس بات پر ایمان رکھتے ہیں)،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1085]
فائدہ:
اس حدیث میں سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عدم موجودگی میں جب بھی کسی بات کا تاکیداً ذکر کرتے تو اپنے نام کے ساتھ ان دونوں کا نام لیتے، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جانور بھی بات کرتے ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1084   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6183  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:" ایک شخص اپنی گا ئے کو ہانک رہاتھا اس پر بو جھ لادا ہوا تھا۔اس گائے نے منہ پیچھے کیا اور کہا: مجھے اس کا م کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔"لوگوں نے تعجب اور حیرت سے کہا: سبحان اللہ! کیا گائے بولتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"(کسی اور کو یقین ہو نہ ہو)میرا ابو بکر کا اور عمر کا اس پر ایمان... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6183]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوبکر اور عمر پر انتہائی درجہ کا اعتماد تھا،
اس لیے آپ نے پورے وثوق سے فرمایا،
میرے بیان کرنے کے سبب،
وہ بلا پس و پیش اس واقعہ کو مان لیں گے اور انہیں اس پر کوئی تعجب نہیں ہو گا اور يوم السبع سے مراد،
وہ وقت ہے،
جب بکریوں پر بھیڑیوں کا تسلط ہو گا اور ان کے ساتھ چرواہا موجود نہیں ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6183   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3690  
3690. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک چرواہا اپنی بکریاں چرارہا تھا کہ ایک بھیڑیے نے حملہ کر کے ان میں سے ایک بکری قابو کر لی۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اس سے بکری چھڑالی تو بھیڑیا اس کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا: درندوں کے دن ان کی حفاظت کون کرے گا؟جبکہ میرے علاوہ ان کو چرانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ (بھیڑیا باتیں کرتا ہے)۔ نبی ﷺ نے فرمایا: میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ابوبکرو عمر ؓبھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ حالانکہ ابو بکر و عمر ؓ وہاں موجود نہ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3690]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اوپر گزرچکی ہے۔
اس میں گائے کا بھی ذکر تھا، ا س سے بھی حضرات شیخین کی فضیلت ثابت ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3690   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3663  
3663. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ایک دفعہ ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا کہ ایک بھیڑیے نے اس پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک بکری اٹھا کرلے بھاگا تو گڈریا اسے چھڑانے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا۔ اس دوران میں بھیڑئے نے اس کی طرف متوجہ ہوکرکہا: درندوں والے دن ان کا کون محافظ ہوگا، جس دن میرے علاوہ انھیں کوئی نہیں چرائے گا؟ اسی طرح ایک آدمی بیل کو ہانک کرلے جارہا تھا۔ پھر وہ اس پرسوار ہوگیا تو بیل اس کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگا: میں تواس کام کے لیے نہیں پیدا ہوا مجھے تو کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیاگیا ہے۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہہ کراپنے تعجب کا اظہار کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں اس کی تصدیق کرتا ہوں، نیز حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی اس پر یقین رکھتے ہیں [صحيح بخاري، حديث نمبر:3663]
حدیث حاشیہ:
درندوں کے دن سے قیامت کا دن مراد ہے جب کہ خود گڈرئےے اپنی بکریوں کی رکھوالی چھوڑدیں گے سب کو اپنے نفس کی فکر لگ جائے گی، یہ حدیث اوپر گزرچکی ہے اس میں اتنا زیادہ تھا کہ ابوبکر اور عمر وہاں موجود نہ تھے۔
حضرت امام بخاری ؒنے اس حدیث سے حضرت ابوبکر ؓ کی فضیلت نکالی۔
آپ نے اپنے بعد ان کانام لیا، آپ کو ان پر پورا بھروسا تھا اور آپ جانتے تھے کہ وہ دونوں اتنے راسخ العقیدہ ہیں کہ میری بات کووہ کبھی رد نہیں کرسکتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3663   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3663  
3663. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ایک دفعہ ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا کہ ایک بھیڑیے نے اس پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک بکری اٹھا کرلے بھاگا تو گڈریا اسے چھڑانے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا۔ اس دوران میں بھیڑئے نے اس کی طرف متوجہ ہوکرکہا: درندوں والے دن ان کا کون محافظ ہوگا، جس دن میرے علاوہ انھیں کوئی نہیں چرائے گا؟ اسی طرح ایک آدمی بیل کو ہانک کرلے جارہا تھا۔ پھر وہ اس پرسوار ہوگیا تو بیل اس کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگا: میں تواس کام کے لیے نہیں پیدا ہوا مجھے تو کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیاگیا ہے۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہہ کراپنے تعجب کا اظہار کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں اس کی تصدیق کرتا ہوں، نیز حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی اس پر یقین رکھتے ہیں [صحيح بخاري، حديث نمبر:3663]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں صراحت ہے کہ اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔
(صحیح البخاري، الحرث والمزار عة، حدیث: 2324)
رسول اللہ ﷺ نے یہ بات حضرات شیخین کے ایمان اور قوت یقین پر اعتماد کرتے ہوئے فرمائی 2۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو واقعات بنی اسرائیل میں بھی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ واقعہ قبل از اسلام کا ہے بنی اسرائیل میں پیش آیا تھا لیکن اس طرح کا ایک واقعہ اہبان بن اوس کو بھی پیش آیا وہ بیان کرتے ہیں وہ اپنی بکریاں چرارہے تھے بھیڑیے نے حملہ کر کے ایک بکری کو اٹھا لیا۔
جب میں نے اس کا پیچھا کیا تو اس نے متوجہ ہو کر کہا:
جب انھیں آوارا چھوڑ دیا جائے گا تو اس وقت ان کا نگران کون ہوگا؟ تو مجھ سے وہ رزق چھیننا چاہتا ہے جو اللہ نے مجھے دیا ہے میں نے اظہار تعجب کیا تو اس نے کہا:
یہ بات اس سے بڑھ کت تعجب خیز ہے یہاں کھجوروں کے جھنڈ میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جو لوگوں کو اللہ کی دعوت دیتا ہے اور لوگ اس سے اعراض کرتے یں اس کے بعد اہبان رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے یہ واقعہ سنایا اور مسلمان ہو گئے۔
ممکن ہے کہ واقعے کی اطلاع کے وقت حضرات شیخین وہاں موجود ہوں لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے دوسروں کو خبر دی تو اس وقت موجود نہ ہوں لیکن یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ اطلاع اور خبردونوں اوقات میں شیخین وہاں موجود نہ تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کے یقین اور قوت ایمان پر اعتماد کرتے ہوئے یہ شہادت دی۔
(فتح الباري: 35/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3663   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3690  
3690. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک چرواہا اپنی بکریاں چرارہا تھا کہ ایک بھیڑیے نے حملہ کر کے ان میں سے ایک بکری قابو کر لی۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اس سے بکری چھڑالی تو بھیڑیا اس کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا: درندوں کے دن ان کی حفاظت کون کرے گا؟جبکہ میرے علاوہ ان کو چرانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ (بھیڑیا باتیں کرتا ہے)۔ نبی ﷺ نے فرمایا: میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ابوبکرو عمر ؓبھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ حالانکہ ابو بکر و عمر ؓ وہاں موجود نہ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3690]
حدیث حاشیہ:

درندوں کے دن سے مراد فتنوں کا دور ہے جب لوگ ان کی وجہ سے اپنے مال مویشی سے غافل ہوں گے۔

بعض لوگوں کے نزدیک سبع کے معنی مہمل ہیں،چنانچہ جب بکریوں کو مہمل چھوڑدیا جائے گا جو کوئی چاہے انھیں پکڑ لے لیکن پہلا معنی زیادہ واضح اور ظاہر ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے شیخین کے ایمان اور قوتِ یقین پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی تصدیق فرمائی،اس حدیث سے حضرت عمر ؓ کی فضیلت ظاہرہوتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3690