صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
54. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3469
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّهُ قَدْ كَانَ فِيمَا مَضَى قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ وَإِنَّهُ إِنْ كَانَ فِي أُمَّتِي هَذِهِ مِنْهُمْ فَإِنَّهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”گزشتہ امتوں میں محدث لوگ ہوا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر بن خطاب ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3469 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3469
حدیث حاشیہ:
لفظ محدث دال کےفتحہ کے ساتھ ہے۔
اللہ کی طرف سےاس کے ولی کے د ل میں ایک بات ڈال دی جاتی ہے۔
حضر ت عمر کو یہ درجہ کامل طورپرحاصل تھا۔
کئی باتوں میں ان ہی کی رائے کی مطابق وحی نازل ہوئی۔
اس لیے آپ کومحدث کہا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3469
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3469
حدیث حاشیہ:
1۔
لفظ محدث دال کے فتحہ کے ساتھ ہے۔
شارحین نے اس کے مختلف معانی بیان کیے ہیں۔
(ا)
جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اچھی چیز ڈال دی جائے گویا وہ جو گمان کرتا ہے درست ہوتا ہے اور اس کے دل میں کوئی بات آتی ہے تو نفس الامر کے مطابق ہوتی ہے۔
(ب)
جس کی زبان پر حق جاری ہو جائے۔
(ج)
جو اپنی فراست سے کسی بات کی تہ تک پہنچ جائے۔
یہ تمام معانی مدعا اور مقصد کے اعتبار سے قریب قریب ہیں۔
حضرت عمر ؓ کو ان تمام باتوں میں کامل درجہ حاصل تھا۔
کئی باتوں میں ان کی رائے کے مطابق اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔
2۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی امت تمام امتوں سے افضل ہے۔
جب دوسری امتوں میں محدث ہوتے تھے تو آپ کی امت میں بطریق اولیٰ ہونے چاہئیں۔
رسول اللہ ﷺ نے توقع کے طور پرفرمایا گویا اپ ابھی اس پر مطلع نہیں ہوئے تھے چنانچہ آپ کی توقع کے مطابق ایسا ہی ہوا اور حضرت عمر ؓ اس معیار اور توقع پر پورے اترے۔
(فتح الباري: 632/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3469
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3689
3689. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ “ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی بیان کردہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلے بنی اسرائیل میں کچھ ایسے لوگ ہوتے تھے جنھیں الہام ہوا کرتا تھا، حالانکہ وہ نبی نہیں ہوتے تھے، لہٰذا اگر میری امت میں کوئی اس قابل ہے تو وہ عمر ؓہیں۔“ حضرت ابن عباس ؓ نے اس طرح کہا ہے: ”کوئی نبی یا محدث۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3689]
حدیث حاشیہ:
محدث وہ جس پر خدا کی طرف سے الہام ہو اور حق اس کی زبان پر جاری ہوجائے یا فرشتے اس سے بات کریں یا وہ جس کی رائے بالکل صحیح ثابت ہو، محدث وہ بھی ہوسکتا ہے جو صاحب کشف ہو جیسے حضرت عیسیٰ ؑ کی امت میں حضرت یوحنا حواری گزرے ہیں جن کے مکاشفات مشہور ہیں، یقینا حضرت عمر ؓ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں۔
روایت کے آخر میں مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سورہ حج کی آیت ہذا کو یوں پڑتھے تھے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
﴾
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3689
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3689
3689. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ “ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی بیان کردہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلے بنی اسرائیل میں کچھ ایسے لوگ ہوتے تھے جنھیں الہام ہوا کرتا تھا، حالانکہ وہ نبی نہیں ہوتے تھے، لہٰذا اگر میری امت میں کوئی اس قابل ہے تو وہ عمر ؓہیں۔“ حضرت ابن عباس ؓ نے اس طرح کہا ہے: ”کوئی نبی یا محدث۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3689]
حدیث حاشیہ:
1۔
محدث وہ ہوتا ہے جس پر اللہ کی طرف سے الہام ہوا اور حق اس کی زبان پر جاری ہوجائے یا جس سے فرشتے ہم کلام ہوں یا وہ جس کی رائے بالکل صحیح ثابت ہو۔
حضرت عمر ؓ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں۔
ان کی تخصیص اس وجہ سے ہے کہ ان کے موافقات بہت ہیں جو قرآن مجید کے عین مطابق ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی و فات کے بعد بھی ان کی درست باتوں کی کمی نہیں ہے۔
اس امر کی وضاحت ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر حق رکھ دیاہے۔
“ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2982)
2۔
حدیث کے آخر میں حضر ت ابن عباس ؓ کی ایک قراءت نقل ہوئی ہے۔
پوری آیت اس طرح ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
﴾ ”ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول یا نبی بھیجا۔
۔
۔
“ (الحج: 52: 22)
وہ اس آیت میں نبی کے بعد محدث کا لفظ بھی پڑھتے تھے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3689