صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
50. بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ:
باب: بنی اسرائیل کے واقعات کا بیان۔
حدیث نمبر: 3457
حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" ذَكَرُوا النَّارَ وَالنَّاقُوسَ فَذَكَرُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى فَأُمِرَ بِلَالٌ أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ وَأَنْ يُوتِرَ الْإِقَامَةَ".
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (نماز کے لیے اعلان کے طریقے پر بحث کرتے وقت) صحابہ نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا، لیکن بعض نے کہا کہ یہ تو یہود و نصاریٰ کا طریقہ ہے۔ آخر بلال رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ اذان میں (کلمات) دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر میں ایک ایک دفعہ۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3457 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3457
حدیث حاشیہ:
عبادت کےلیے آگ جلاکریاناقوس بجاکر لوگوں کوبلانا آج بھی اکثر ادیان کامعمول ہے۔
اسلام نےاس طریقہ کوناپسند کرکے اذان کا بہترین طریقہ جاری کیاجو پانچ اوقات فضائے آسمانی میں پکار کرکہی جاتی ہے، جس میں عقیدہ توحید ورسالت کا وجد آور اعلان ہوتاہے اوربہترین لفظوں میں مسلمانوں کو عبادت کےلیے بلایا جاتاہے۔
روایت میں یہود و نصاری کاذکر ہے یہی باب سے مناسبت ہے۔
روایت میں اکہری تکبیر کہنے کا ذکر صاف لفظوں میں موجود ہے،مگر اس زمانہ میں اکثر برادران ملت، اکہری تکبیرسن کر سخت نفرت کا اظہار کرتےہیں جوان کی نا واقفیت کی کھلی دلیل ہے، اکہر تکبیر سنت نبوی ہے اس سے انکار ہرگز جائز نہیں ہے، اللہ پاک ہمارے محترم برادران کوتوفیق دےکہ وہ ایسا غلط تعصب دلوں سےدور کردیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3457
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3457
حدیث حاشیہ:
1۔
عبادت کے لیے آگ جلانا یا ناقوس بجانا آج بھی اکثر ادیان کا معمول ہے۔
چند سال پہلے مساجد میں نقارہ دیکھا ہوتا تھا جو جمعہ اور افطاری کے وقت بجایا جاتا ہے۔
یہ بھی یہودیوں کی غیر شعوری طور پر تقلید تھی جو رفتہ رفتہ ختم ہوگئی ہے۔
2۔
اسلام نے عبادت اور نماز کی دعوت کے لیے اذان کا بہترین طریقہ جاری کیا جو پانچ وقت بآواز بلند کہی جاتی ہے اس میں عقیدہ توحید و رسالت کا بار بار اعلان ہوتاہے۔
3۔
اس روایت میں یہود و نصاریٰ کے ایک پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے حالات بنی اسرائیل کے تحت اس حدیث کو ذکر کیاہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3457
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث729
´اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو ایسی چیز کی تلاش ہوئی جس کے ذریعہ لوگوں کو نماز کے اوقات کی واقفیت ہو جائے، تو بلال رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو بار، اور اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 729]
اردو حاشہ:
فائدہ:
واقعے کی تفصیل کے لیے گزشتہ صفحات میں حدیث:
(709، 708، 709)
ملاحظہ کیجیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 729