صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
50. بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ:
باب: بنی اسرائیل کے واقعات کا بیان۔
حدیث نمبر: 3452
فَقَالَ: وَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: إِنَّ رَجُلًا حَضَرَهُ الْمَوْتُ فَلَمَّا يَئِسَ مِنَ الْحَيَاةِ أَوْصَى أَهْلَهُ إِذَا أَنَا مُتُّ فَاجْمَعُوا لِي حَطَبًا كَثِيرًا وَأَوْقِدُوا فِيهِ نَارًا حَتَّى إِذَا أَكَلَتْ لَحْمِي وَخَلَصَتْ إِلَى عَظْمِي فَامْتُحِشَتْ فَخُذُوهَا فَاطْحَنُوهَا ثُمَّ انْظُرُوا يَوْمًا رَاحًا فَاذْرُوهُ فِي الْيَمِّ فَفَعَلُوا فَجَمَعَهُ اللَّهُ، فَقَالَ لَهُ: لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ، قَالَ: مِنْ خَشْيَتِكَ فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ، قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو: وَأَنَا سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: ذَاكَ وَكَانَ نَبَّاشًا".
اور حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ ایک شخص کی موت کا جب وقت آ گیا اور وہ اپنی زندگی سے بالکل مایوس ہو گیا تو اس نے اپنے گھر والوں کو وصیت کی کہ جب میری موت ہو جائے تو میرے لیے بہت ساری لکڑیاں جمع کرنا اور ان میں آگ لگا دینا۔ جب آگ میرے گوشت کو جلا چکے اور آخری ہڈی کو بھی جلا دے تو ان جلی ہوئی ہڈیوں کو پیس ڈالنا اور کسی تند ہوا والے دن کا انتظار کرنا اور (ایسے کسی دن) میری راکھ کو دریا میں بہا دینا۔ اس کے گھر والوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کو جمع کیا اور اس سے پوچھا ایسا تو نے کیوں کروایا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ تیرے ہی خوف سے اے اﷲ! اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے اس کی مغفرت فرما دی۔ عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا تھا کہ یہ شخص کفن چور تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3452 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3452
حدیث حاشیہ:
شخص مذکوربنی اسرائیل سےتھا، باب سے یہی وجہ مناسبت ہے۔
مردوں کوجلانا ایسے ہی غلط تصورات کانتیجہ ہےجو خلاف فطرت ہے۔
انسان کی اصل مٹی سےہے۔
لہذا مرنے کےبعد اسے مٹی میں دفن کرنا فطرت کاتقاضا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3452
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3452
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل سے متعلق ہے کیونکہ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے تو ایک نے دوسرے سے کہا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
”بنی اسرائیل میں سے ایک شخص قبرستان سے کفن چوری کرتا تھا۔
“ (المعجم الأوسط للطبراني: 80/4)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کفن چور ہونے کی صراحت صرف ابومسعودعقبہ بن عمرو کا اضافہ نہیں بلکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسے بیان کرتی ہیں جیساکہ ابن حبان میں ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مرگیا جو کفن چور تھا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی۔
(صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلیان: 387/3)
2۔
مردوں کو جلانا خلاف فطرت ہے۔
اور ایسےہی غلط تصورات کا نتیجہ ہے جو حدیثٖ میں بیان کیے گئے ہیں۔
انسان کی اصل مٹی ہے، لہذا مرنے کے بعد اسے مٹی ہی میں دفن کرنا فطرت کا تقاضا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3452